منصفانہ اور بے داغ انتخابات کو متنازع بنا کر پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا کرنا ہماری تاریخ کا ایسا افسوسناک باب ہے؛ وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کا قوم سے خطاب

Published on July 23, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 423)      No Comments

10955186_354614934738892_6138439875305046864_nاسلام آباد (یو این پی) وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ انکوائری کمیشن کے فیصلے سے ملک وقوم کا قیمتی وقت برباد کر دینے والے بھی اب سبق سیکھیں گے اور منفی سیاست سے گریز کریں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ماضی کے بے ثمر سیاست سے نکال کر مستقبل کی مثبت اور تعمیری سیاست کی جانب لے جا سکتا ہے۔ آئیے ہم انکوائری کمیشن کے تاریخی فیصلے کو سنگ مل سمجھتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ نئے اور پرعزم سفر کا آغاز کریں جو انتشار، بے یقینی، الزام تراشی اور عدم استحکام کے اندھیروں کے بجائے ہمیں ترقی اورخوشحالی، جمہوری استحکام، یقینی اور اعتماد کی نئی روشن منزلوں کی جانب لے جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ” آج میں قومی تاریخ کے ایک انتہائی اہم موقع پر آپ سے مخاطب ہوں۔ 2013ءکے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کرنے والے انکوائری کمیشن نے اپنافیصلہ دے دیا ہے اور اس کی رپورٹ حکومت کو موصول ہو گئی ہے۔ انکوائری کمیشن کو تین بنیادی سوالوں پرتحقیق کرنے اور اپنی ہدایت دینے کا کہا گیا تھا
اور وہ سوال یہ تھے؛

-کیا 2013ءکے عام انتخابات غیر جانبدارانہ، منصفانہ، دیانتدارانہ اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہوئے۔
-کیا کوئی 2013ءکے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کیلئے منظم دھاندلی یا سازش کے ذریعے اثر انداز ہوا۔
-کیا الیکشن2013ءکے نتائج مجموعی طور پر عوامی مینڈیٹ کا درست اور حقیقی اظہار کرتے ہیں۔
مکمل چھان بین کے بعد انکوائری کمیشن نے ان سوالات کے حتمی جوابات دیئے ہیں جو یہ ہیں؛
-الیکشن کمیشن کی حد تک رپورٹ میں بتائی گئی کوتاہیوں سے قطعا نظر رپورٹ میں موجود تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے 2013ءکے عام انتخابات مجموعی اعتبار سے منصفانہ منعقد کئے گئے۔
-نہ تو انکوائری کمیشن کی کارروائی میں شامل پارٹیوں نے کسی ایسے پلان یا سازش کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کئے اور نہ ہی کمیشن کے سامنے رکھے گئے مواد سے ایسے کوئی بات سامنے آئی ہے جس سے دھاندلی کے کسی پلان یا سازش کی نشاندہی ہو۔ اسی طرح مبینہ دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف عائد کردہ الزامات بھی ثابت نہیں کئے جا سکے۔
-جب الیکشن 2013ء کو ان کے مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کی چند کوتاہیوں کے باوجود انکوائری کمیشن کے سامنے موجود شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات کے نتائج عوام کے مینڈیٹ کا حقیقی اظہار نہیں تھے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ” اس کمیشن کی کارروائی کی تمام تر تفصیلات قوم کے سامنے آ چکی ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں اپنی نوعیت کے اس پہلے کمیشن نے کس محنت، توجہ اور دانش و حکمت کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کئے اور دھاندلی کی شکایت کرنے والوں کو اپنے الزامات کے ثبوت فراہم کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں کم ملتی ہیں کہ زبردست عوامی حمایت کے ساتھ منتخب ہونے والی کسی حکومت نے اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہو۔ ہم نے تحریری طور پر یہ ضمانت بھی دی تھی کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں حکومت سے الگ ہو کر عوام کے پاس جائیں گے ۔ یہ عہد اسی اعتماد اور یقین کا اظہار تھا کہ 2013ء کے نتائج عوامی مینڈیٹ کے مطابق تھے اور کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ اللہ نے ہمیں سرخرو کیا اورتقریباً تین ماہ کی کارروائی کے بعد انکوائری کمیشن کی جامع رپورٹ ہمارے موقف ہی کی نہیں بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توثیق بھی ہے۔ یہ جمہوریت، آئینی نظام اور اداروں کی بلوغت کی علامت اور نظریے کی توثیق ہے کہ مسائل سڑکوں یا دھرنوں میں نہیں بلکہ دستوری ایوانوں میں حل ہوں گے۔
انتخابی عمل کو ہر اعتبار سے آزادانہ، منصفانہ بنانا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کا اہم نقطہ ہے اور ہمارے منشور میں یہ بات درج ہے ۔ جون 2014ءمیں قومی اسمبلی کے سپیکر کو لکھے گئے خط میں انتخابی اصلاحات لانے کیلئے ایک کمیٹی قائم کرنے کی درخواست کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے یہ کمیٹی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو آئینی ترامیم بھی تجویز کر سکتی ہے۔ یہ کمیٹی قائم ہو چکی ہے اور اس کے متعدد اجلاس بھی منعقد کئے جا چکے ہیں اور میں توقع کرتا ہوں کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بیٹھ کر بھرپور کردار ادا کریں گی اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
عزیز اہل وطن ! قوموں کی زندگی میں بے یقینی کے موسم، بے ثمر ہی نہیں بلکہ تباہ کن بھی ہوتے ہیں۔ بے یقینی سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جو تعمیر و ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتے ہوئے قدم روک دیتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وطن عزیز اس بے یقینی کی کتنی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے اور اگر 70 سالوں پرمحیط سیاسی تاریخ میں جمہوری عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال نہ ہوتی تو آج ہم زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔ اب ہمیں ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی بھی کرنی ہے، بے یقینی اور عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی بھی کرنی ہے اور پورے عزم کے ساتھ جمہوری نظام کی چھتری تلے پاکستان کو کروڑوں اہل وطن کی آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر بھی بنانا ہے۔ اب ہمارے پاس کھوکھلے نعروں، بے مقصد تماشوں کیلئے کوئی وقت نہیں ہے اور اب ہمیں قومی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھنا ہو گا، راستے سے ہٹا دینے والی آوازوں پر کان دھرنے کے بجائے روشن منزلوں پر نظر رکھنا ہو گی۔
آج میں حکومت کی دو سالہ کارکردگی کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اللہ کے شکر کے ساتھ یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں ترقی اورخوشحالی کا سفر شروع ہو چکا ہے اور آج کا پاکستان 2 سال پہلے والے پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔ معیشت تیزی سے مضبوطی کی جانب گامزن ہے اور عالمی ساکھ بہتر ہو رہی ہے۔ تین سال بعد کا پاکستان آج کے پاکستان سے کہیں زیادہ روشن، خوشحال اور توانا ہو گا۔ ہم تیزی کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپریشن ضرب عضب کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ مسلح افواج، سویلین ادارے، سول آرمڈ فورسز اور انتظامیہ اس عظیم مشن کی کامیابی کے عزم سے سرشار ہے اور پوری قم ان کے عزم کی معترف ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں اور دور دراز کی بستیوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے شہروں کو بھی دہشت گردی اورلاقانونیت سے نجات دلانے کیلئے پرعزم ہیں۔ہم نے وطن عزیز میں امن اور خوشحالی کا عہد کر رکھا ہے اور کوئی سیاسی مصلحت ہمارے پختہ عزم کو کمزور نہیں کر سکتی۔
پاکستان کے کئی علاقے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومتوں سمیت تمام متعلقہ اداروں کو یہ امر یقینی بنانا چاہئے کہ متاثرین کے ریسکیو، ریلیف اور بحالی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو، وفاقی حکومت بھی متحرک ہے اور میں خود متاثرہ علاقوں جا کر امدادی کاموں کی نگرانی کر رہا ہوں۔ امدادی کاموں میں مصروف سول اداروں اور افواج کی کوششیں قابل تعریف ہیں اور قوم سے بھی اپیل ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں متاثرین کی ہر ممکن امداد کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ حکومت ان کے نقصانات کی تلافی اور مکمل بحالی میں کوئی کثر نہیں چھوڑے گی۔
انکوائری کمیشن کے اس فیصلے کے بعد پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ میں نے کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے اور اب یہ رپورٹ تمام قومی اوربین الاقوامی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوام کے ایک ایک فرد کی دسترس میں ہے اور جبکہ سب سے بڑے اور معتبر انکوائری کمیشن نے انتخابات کے شفاف اور دھاندلی سے پاک ہونے کی حتمی توثیق کر دی ہے تو اب الزامات اور بہتان تراشی کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جانا چاہئے۔
انتخابات کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوا ہم اسے فراموش کر رہے ہیں لیکن منصفانہ اور بے داغ انتخابات کو متنازع بنا کر پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا کرنا ہماری تاریخ کا ایسا افسوسناک باب ہے جو آسانی سے بھلایا نہ جاسکے گا۔ انتخابات کے بعد سے میں نے باہمی مشاورت، مفاہمت اور اتفاق رائے کی تعمیری روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے مطابق حکومتوں کے قیام سے لے کر نیشنل ایکشن پلان، آئینی ترمیم اور پاک چین اقتصادی راہداری جیسے بڑے بڑے فیصلے قومی اتفاق رائے سے کئے ہیں۔ میں قومی معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کی تقسیم پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم سب کو پاکستان کے حوالے سے سوچنا چاہئے۔ میں نے اقتدار کی سیاست کی بجائے اقدار کی سیاست کا عہد کیا تھا اور اللہ کے کرم سے ہم اپنے اس عہد پر قائم ہیں۔ ہم نے ذاتی اور جماعتی مفاد سے ہٹ کر ملکی مفاد کو ترجیح دی ہے اور اسی نظرئیے کے تحت انکوائری کمیشن کے قیام پر بھی رضامندی ظاہر کی حالانکہ ساری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور آپ بھی اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔
ہم نے تمام اشتعال انگیزیوں کے باوجود صبر و تحمل سے کام لیا اور تمام مسائل کو جمہوری انداز میں حل کرنے کی کوشش کی اور ہم آئندہ بھی انہی اصولوں پرکاربند رہیں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ملک وقوم کا قیمتی وقت برباد کر دینے والے بھی اب سبق سیکھیں گے اور منفی سیاست سے گریز کریں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ماضی کے بے ثمر سیاست سے نکال کر مستقبل کی مثبت اور تعمیری سیاست کی جانب لے جا سکتا ہے۔ آیئے ہم انکوائری کمیشن کے تاریخی فیصلے کو سنگ مل سمجھتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ نئے اور پرعزم سفر کا آغاز کریں جو انتشار، بے یقینی، الزام تراشی اور عدم استحکام کے اندھیروں کے بجائے ہمیں ترقی اورخوشحالی، جمہوری استحکام، یقین اور اعتماد کی نئی روشن منزلوں کی جانب لے جائے۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy