نیشنل ایکشن پلان اور حکومتی اقدامات

Published on August 5, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 802)      No Comments

 Kashaf Ranaپاکستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کے واقعات کی زد میں ہے۔اس دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی نے پچاس ہزار سے زائدافراد کو خون میں نہلا دیااور ابھی تک ہم اس تذبذب کے عالم میں ہیں۔روایتی سستی،غفلت،خوف اور سیاسی عزم کا فقدان غالب ہے۔فوج واحد ادارہ ہے،جو دوٹوک انداز میں جُرات اور حوصلے کے ساتھ طالبان کے خلاف آپریشن کر رہاہے،جس وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصی کمی ہوئی ہے۔جہاں تک دیگراداروں کا تعلق ہے وہ اب تک نیشنل ایکشن پلان کا پر پوری طرح عملدرآمدنہیں کراسکے۔یہ نیشنل ایکشن پلان اُس وقت عمل میں آیاجب 2014میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ 140سے زائد بچوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور بلند وبانگ دعوے کیے گئے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ملوث تمام گروہوں کی سر گرمیوں پر پابندی لگائی جائے گی اور انہیں کسی بھی دوسرے نام سے کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔اس کے علاوہ مذہبی انتہاپسندی پر قابو پانے کے لیے مدرسوں کو کنٹرول کیا جائے گا ،انہیں ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ کا راستہ روکاجائے جبکہ دہشت گردوں کوسزادینے کے لیے عدالتی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ یہ پلا ن سات ماہ پہلے بنا تھا لیکن اسے سنجیدگی سے نافذکرنے کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا گیا۔پشاور حملے کے سلسلے میں بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف نے ایک تقریر میں کہا تھاکہ’’ہمیں تیز رفتاری سے کاروائی کرنی ہے جس پلان پر ہم متفق ہوئے ہے اسے فوراًعملدرآمد کراناہے،یہ معاہدہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے اور ہم اس ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیں گے ‘‘۔وزیراعظم کو یہ الفاظ کہے تقریباً سات ماہ گزرچکے ہیں لیکن کچھ نہیں بدلا۔نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ پلان واضع کرنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت پر عملدرآمدکے سلسلے میں دباؤنہیں ڈالا۔قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ کرناظاہر کرتا ہے کہ حکمرانوں کے معاشرتی امن تباہ ہونے اس کے ملکی معشیت اور معاشرے پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے کوئی غرض نہیں ہے ،ورنہ سو فیصد نہ سہی اس پر کم ازکم پچاس فیصد عملدرآمد ہی ہو جاتا تو صورتحال میں واضح فرق محسوس ہوناتھا۔نیشنل ایکشن پلان کے صرف ایک چوتھائی نکات پر عملدرآمد کیا گیا اور یہ بھی فوج نے یقینی بنایا ہے اس میں حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کاکوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے لیکن بھارت کی جانب سے دہشتگردوں کو اسلحہ اور پیسہ بلا تعطل مل رہا ہے اور اسے روکنے کی کوئی کو شش نہیں ہوئی جس کی بنا پر یہ خدشہ برقرار ہے کہ دہشت گردکسی وقت بھی ملک کے امن وامان کو پھر سے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں حکومت کی جانب سے بھارتی مداخلت کے معاملات عالمی فورم میں اُٹھانے کی باتیں تو کی جارہی ہیں،لیکن یہ کافی نہیں ۔ضرور ی ہے کہ ملک کے اندر دہشت گردی کے سدباب کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں،اورایسا صرف نیشنل ایکشن پالان پر عمل درآمدکے ذریعے ہی ممکن ہوسکتاہے۔اس کے لیے حکومت کو ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme