زندگی کے ہرشعبے میں علماءِ کرام کی ضرورت

Published on November 12, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 354)      No Comments

خیرالقرون اوراس کے قریبی ادوارمیں جب کوئی تجارتی قافلہ تجارتی غرض سے سفرشروعRizwan Peshawri کرتاتو دیگر ضروری سازوسامان کے علاوہ وہ کسی فقیہ اورمعاملہ شناس عالمِ دین کوبھی ضرورساتھ لے جانے کی فکرکرتے ، تاکہ سفرکے دوران وہ کسی حرام معاملے میں پڑکراپنی کمائی کوحرام نہ بنائیں۔ علماءِ کرام کی یہ ضرورت سیاسی وفد یاصلح مصالحت کی غرض سے جانے والی جماعت میں اس سے بھی زیادہ محسوس کی جاتی،بلکہ ان حضرات کے بغیر کوئی بھی اہم جماعت یاوفدادھوری سمجھی جاتی تھی۔
آج کل عوام کی زبان پر یہ ایک بات بہت چل پڑی ہے کہ علماءِ کرام کیوں میدانِ سیاست میں آگئے ہیں؟ان کا کام تو بس صرف منبرومحراب کو سنبھالنا ہے۔ان کی یہ بات سوفیصد غلط ہے کہ علماءِ کرام توبس صرف منبرومحراب کو سنبھالنے والے ہیں،بلکہ علمائے کرام کاکام ہے’’ لوگوں کو راہِ راست دکھانااورخیرکی طرف ان کی رہنمائی کرنا‘‘اور یہ کام جس طرح منبرومحراب سے ہوسکتا ہے،بالکل اسی طرح پارلیمنٹ کے ایوان سے بھی ہوسکتا ہے۔
علماءِ کرام کا وجود میدانِ سیاست میں صرف اس زمانے کی بات نہیں ہے، بلکہ چودہ سوسال پہلے کی تاریخ پر اگر نظرِ عمیق دوڑائی جائے تو وہاں پر بھی رہنمائی کافریضہ انجام دینے والے حضراب بھی اُس وقت کے علماہی تھے۔نزولِ وحی کے دور میں تو خود بنفسِ نفیس آقائے نامدار ،فخر موجودات ،ہاد�ئعالم، محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ،محمد عربی ﷺ موجود تھے،جو خود ہی سیاسی اور مذہبی امور سرانجام دیا کرتے تھے ،اسی طرح سفارتی اور مصالحتی خط وکتابت بھی خوداُن ہی کی نگرانی میں ہوتی تھی،جنگی دستوں کی تشکیل اورمیدانِ کارزار میں صف بندی بھی خود کرلیا کرتے تھے۔مدنی زندگی کے آخری دور میں تقریباًیہ تمام امور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بانٹ دیئے اور وفات کے بعد بھی یہی طریقہ کار جاری تھا،پھر خلفاءِ راشدین کے دور میں صحابہ کرامؓ کی ایک مجلس شوریٰ قائم کر لی گئی، جس میں ہر اہم کام کا مشورہ ہوا کرتا تھا،لیکن خلفاءِ راشدین کے دور کے بعد جب نظامِ خلافت میں ملوکیت نے دراڑیں ڈالنا شروع کر دی اور امورِ سیاست چلانے والے خلفانے اپنی مرضی سے امورِ خلافت چلانا شروع کیاتو علماءِ وقت کی ذمہ داری بدل گئی۔ بادشاہوں اورعیاش شہزادوں کے ہاتھوں شریعتِ اسلامی میں سرکشی اورحدودسے تجاوزکاراستہ روکنااب اُن کی اہم ذمہ داری تھی،جنہوں نے انہیں ہر معاملے میں اپنی مرضی لاگوکرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ بدعات واختراعات پر انہیں روکتے اور ٹوکتے رہے ۔ اگرکہیں ذرا بھی کتاب وسنت کی مخالفت نظر آتی تو ان کے خلاف آوازِحق بلند کرتے تھے ،حجاج بن یوسف جیسے سفاک گورنرکے سامنے علماءِ وقت کی حق گوئی کی داستانیںآج بھی معروف ومشہورہیں۔
یہی علمائے کرام ہیں، جن کے بغیر ہماری دنیاوی زندگی بھی ناقص اورادھوری ہے اور دینی معاملات اور امور تو ادھورے ہی رہیں گے۔ اگر یہ علماءِ کرام وطنِ عزیزکے پارلیمنٹ میں نہ ہوتے تو آج اسلام کے نام پربنائے گئے اس مقدس سرزمین پرہم اپنے گھروں میں نمازپڑھنے کے پابند ہوتے ،کیونکہ سیکولرذہنیت رکھنے والے بعض لیڈرتو ویسے بھی مدارس اور مساجد کو ختم ہونے کے درپے ہیں ۔
چندروزپہلے ایک اخبارمیں لکھا تھا کہ پشاور سمیت صوبہ بھر میں نئے مدارس کے قیام پر پابندی عائد کی جارہی ہے، جبکہ مساجد میں لاؤڈسپیکر پر اذان صرف جمعہ کے خطبے تک محدود رکھی جائے گی اور نئے مساجد کے قائم کرنے کے لیے حکومت سے این۔او۔سی حاصل کرنی ہوگی، بغیر این۔او۔سی کے کسی کو نئی مسجد قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ان حضرات کوتمام خرابیاں صرف مساجدومدارس میں نظرآرہی ہیں،ان کواندرونِ ملک این ۔جی ۔اوز اوربیرونِ ملک ایجنسیوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں،اگرکہیں اِن کاکوئی کام پسندنہ آئے توزیادہ سے زیادہ اقوامِ متحدہ اورامریکہ کوان کے بارے میں گلہ شکوہ کرکے دل ہلکاکرلیتے ہیں۔عملی کاروائی کے لیے بس مدارس ہی ہدف اول ہے۔
یہ بات بھی کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی یہ کہہ دے کہ سیاست ہی دین اور اسلام ہے۔ یہ بات شائد مبالغہ آرائی ہے ،لیکن یہ بات عینِ حقیقت ہے کہ سیاست دین اور اسلام کا ایک اہم جزء ضرور ہے ،لہذا جب سیاست دین کاجزء ہونایقینی ہے تو پھرعلماءِ کرام کااس میدان میں موجودرہ کرجدیدجمہوریت کی خرابیوں کا ازالہ کرکے شرعی طریقے کی طرف رہنمائی کرنابھی دین ہی کاکام ہے۔
بے شک بہت سے لوگ اس وقت دین اوراس ملک کی خدمت میں مصروف ہیں،لیکن جوعلماءِ کرام سیاست کے میدان میں مسلم تہذیب وثقافت کی بقاکے لیے جنگ لڑرہے ہیں،اُن کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کسی طرح بھی ایک صحیح مسلمان کاوطیرہ نہیں۔اللہ تعالیٰ ان علماءِ کرام کو عمر دراز نصیب فرما کر حق گوئی کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题