اپنے پرانے دوست کے کئی بار اصرار کرنے پر اسکی سچی کہانی کو کالم کی حیثیت سے تحریر کر رہا ہوں ، میرے دوست نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ کالم کے ذریعے قارئین تک جب یہ سچی کہانی پہنچے تو انہیں محسوس ہو کہ ایک انسان ایسا بھی ہے جو بے ضرر اور بے گناہ ہے لیکن اللہ کے بندے اسے پل پل توڑ پھوڑ رہے ہیں اور ایسے ایسے غلیظ الفاظوں سے ذہنی گزند پہنچا رہے ہیں کہ برداشت کی حدود بھی تجاوز کر چکی ہیں لیکن میں بھی اسی اللہ کا ہی بندہ ہوں جو سب کچھ سہتا ہے، سنتا ہے، دیکھتا ہے، کبھی مسکراتا ہے، کبھی ہنستا ہے، کبھی روتا ہے، کبھی اٹھتا ہے، کبھی جھاگ بن جاتا ہے لیکن سب بے سود کیونکہ حریف طاقتور نہ ہوتے بھی پاور فل ہے یا شاید میں نے مکمل آزادی دے کر اسے طاقت دی اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری، بہر کیف کچھ بھی ہو میں قارئین کے مشوروں کا طلب گار ہوں کہ مجھے ایسے حالات میں کیا کرنا چاہئے ۔آپ سب کے کومنٹس میرے سر آنکھوں پر تاکہ میں اس زندگی سے چھٹکارہ پاسکوں۔ میرا نام صفدر حسین انصاری ہے میں انیس سو ساٹھ میں کھاریاں میں پیدا ہوا میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور سن اسی میں پاکستان کو چھوڑ دیا میں پاکستان کو پسند نہیں تھا یا پاکستان مجھے نہیں یہ ایک علیحدہ سوال ہے ۔بذریعہ ا یجنٹ جرمنی آیا اور دیگر ہموطنوں کی مہربانی سے تمام معاملات ایڈجسٹ کرنے کے بعد ایک فیکٹری میں ملازم ہو گیا چھ ماہ بعد وہاں میری ملاقات ایک ہم وطن سے ہوئی ہم تین سال ایک فرم میں ملازم رہے سیاسی پناہ ختم ہونے کے بعد میں پاکستان واپس چلا گیا اور کچھ ماہ کھاریاں رہنے کے بعد دوبارہ دوسرے نام یعنی صفدر انصاری کے نام سے دوبارہ جرمنی آگیا اور چند ماہ بعد ایک جرمن لڑکی سے شادی کر لی۔فارایور ویزہ مل چکا تھا ایک ا چھی فرم میں ملازم تھا جرمن بیوی سے دو بچوں کا باپ بنا لیکن پانچ سال بعد علیحدگی ہو گئی کیونکہ بقول جرمن بیوی کے اسکی آزادی ختم ہو گئی ہے اور ایک سگی ماں اپنے بچوں کو میرے حوالے کرکے رخصت ہو گئی میں نے وکیل سے رابطہ کیا اور طلاق ایپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ وکیل سے گزارش کی کہ بچوں کا تمام عمر دیکھ بھال اور رہائش کا ذمہ مجھے دیا جائے تین سال تک بچوں کی جنگ جاری رہی کہ بچے ماں کے پاس رہیں گے یا باپ کے پاس اور آخر جرمن عدالت نے بچوں کے تمام رائٹس مجھے دے دئے،دوستوں کے کہنے پر میں بچوں کو پاکستان لے گیا تاکہ یہاں کے ماحول میں پرورش پانے کی بجائے اپنے کلچر ،اپنے ملک اور خاندان میں پرورش پائیں لیکن والد صاحب کی فوتگی کے بعد بچوں کو واپس جرمنی لے آیا کیونکہ میرے چھوٹے بھائی بہن اس قابل نہیں تھے کہ چار اور پانچ سالہ بچوں کی پرورش کر سکیں والدہ عمر رسیدہ تھیں۔ جرمنی واپس آنے کے دو سال بعد ایک غیر ملکی مسلم لڑکی سے شادی کی اس دوران بچے میرے پاس ہی تھے اور سکول جانا شروع کر دیا تھا، لڑکی کو شادی سے قبل اپنے تمام حالات سے آگاہ کر چکا تھا اور وہ ہمارے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھی اس سے بھی دو بچوں کی پیدائش ہوئی اور تقریباً دس سال رہنے کے بعد اس نے بھی اپنا بوریا بستر باندھا اور بچوں کو لے کر چلی گئی ہم تینوں پھر اکیلے ہو گئے پاکستان سے میرا رابطہ تھا والدہ بھی وفات پا چکی تھیں بہنوں بھائیوں سے گزارش کی کہ کوئی درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہوئی خاتون جو کم عمر نہ ہو اور ہماری سچائی قبول کرنے کے بعد شادی کے لئے راضی ہو تو میں پاکستان آکر شادی کر سکتا ہوں کیونکہ اس دوران جرمن شہریت حاصل کر چکا تھا اور پاکستان میں شادی کے تین ماہ بعد شریک حیات نے جرمنی آجا نا تھا رشتہ طے ہوا اور پاکستان جا کر شادی سے قبل ہونے والے سسرال کو تمام حالات سے آگاہ کیا میری سچائی جان کر انہیں بہت خوشی ہوئی اور شادی طے پائی شادی کے ایک ماہ بعد واپس جرمنی آگیا اور ڈھائی ماہ میں اہلیہ بھی جرمنی آگئی میں دوبارہ جرمنی میں کسی جرمن یا غیر ملکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ شاید جرمن زبان پر مکمل عبور حاصل نہ ہونے کی وجہ سے پھر طلاقوں کا دور نہ چل پڑے لیکن ایسا نہیں تھا۔ قارئین یہاں سے توجہ فرمائیں ۔اہلیہ کے جرمنی آنے کے تین ماہ بعد ہم دونوں کو دوبارہ پاکستان جانا پڑا کیونکہ میرے بھائی آپس میں چھوٹی چھوٹی بات پر لڑائی جھگڑا کرتے اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے وہ اپنے اہل وعیال سمیت والدین کے تعمیر کردہ مکان میں رہائش پذیر اور دونوں بے روزگار تھے ،مکان چار منزلہ تھا دو حصوں پر وہ خودرہائش پذیر اور دو حصوں کو کرایہ پر اٹھا رکھا تھا جس کی آمدنی سے ان کا گزارہ ہوتا کئی بار چھوٹے بھائی نے بذریعہ میلز اور فون سے بتایا کہ وہ مکان بیچنا چاہتا ہے چھوٹے کی بیوی ہر وقت لڑائی جھگڑا کرتی ہے اور کہتی ہے اس مکان سے نکل جاؤ میں اپنی بیوی اور بچی کو لے کر کہاں جاؤں آپ جلد از جلد یہاں آئیں اور مکان کا فیصلہ کریں نہیں تو ہم دونوں بھائیوں میں سے ایک مر جائے گا اور دوسرا جیل جائے گا۔ پاکستان جانے پر ایک بھائی نے کہا وہ مکان بیچنا چاہتا ہے اور کسی دوسرے شہر میں علیحدہ رہنا چاہتا دوسرا بھائی اور اسکی بیوی نہ مکان بیچنا چاہتے تھے اور نہ اسے چھوڑنا چاہتے تھے اپنے سسر اور بہنوئیوں سے بات ہوئی تو سب نے مل جل کر باہمی رضامندی سے چھوٹے بھائی اور اسکی بیوی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ صرف تمھارا مکان نہیں مشترکہ جائداد ہے اور سب بہنوں بھائیوں کا حصہ ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور دھمکی دی کہ دفع ہو جاؤ یہاں سے اور عدالت سے رجوع کرو عدالت کا فیصلہ منظور کریں گے سب کی باہمی رضامندی سے وکیل کا بندوبست کیا اور تقسیم کا کیس دائر ہوا مجھے اپنے حصے یا مکان سے کوئی سروکار نہیں تھا کیونکہ اتنا عرصہ جرمنی میں رہنے کے بعد کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ پاکستان میں میرا کوئی گھر ہے یا والدین کی جائداد میں میرا کوئی حصہ بھی ہے میں اپنی اچھی بری زندگی میں خوش اور مگن تھا دو چار سال بعد پاکستان چلا جاتا اور تین ہفتے رہنے کے بعد پرسکون ہو کر واپس جرمنی آجاتا۔کیس دائر کرنے اور تقریباً روزانہ کچہری کے چکر لگا لگا کر شدید کوفت ہوتی اور بری طرح ڈپریشن میں مبتلا ہو چکا تھا وکیل صاحب کا کہنا تھا آپ یہاں اپنا وقت برباد مت کریں کیونکہ ایسے کیس کبھی تو فوری حل ہو جاتے ہیں اور اگر کسی اکھڑ، ضدی ،ہٹ دھرم،لالچی سے پالا پڑ جائے تو دیوانی کیس بن جاتے ہیں میں یہ سب باتیں نہیں جانتا تھا وکیل صاحب سے پوچھا اب کیا کیا جائے تو کہنے لگے اپنے کسی قریبی رشتہ دار جس پر اعتبار کرتے ہوں انہیں پاور آف اٹارنی دے دیں اور واپس چلے جائیں میں نے انہیں کہا جب سگا بھائی مجھے اپنے گھر سے دھکے دے کر نکال چکا ہے تو باقی کیا بچا ہے کہنے لگے اپنے سسر صاحب کو دے دیں تب باہمی رضا مندی سے سسر صاحب کے نام پاور آف اٹارنی بنوائی اور چار ماہ ذلیل و خوار ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی جرمنی واپس آگئے،جرمنی واپس آنے پر نئے طوفان ہمارے منتظر تھے۔
جاری ہے۔