یہ کیسا نظام ہے،جھنگ سے ایک خوبصورت تحریر شفقت اللہ کے قلم سے

Published on December 7, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 655)      No Comments

logo-1
ایک بادشا ہ کسی ملک پر حکومت کرتا تھا اسکی رعایا اس سے بہت خوش تھی۔وہ چاہے جو بھی کرتا جیسے بھی فیصلے کرتا اسکی رعایا اسکے حکم کی ہر ممکن تعمیل کرتی تھی ۔ایک دن بادشا ہ اپنے وزیر سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ دیکھو میری رعایا کتنی اچھی ہے چاہے میں جیسے بھی احکامات جاری کروں چپ چاپ مان لیتی ہے اور کبھی بھی میرے سامنے سر نہیں اٹھایا۔اس پر وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو چیک کرتے ہیں کہ ان میں کتنی برداشت ہے؟ اور کہا کہ اس شہر سے دوسرے شہر آنے جانے کیلئے جو واحد پل بنا ہوا ہے اس پر گزرنے کیلئے پانچ دینار فی چکر ٹیکس لگا دو پھر دیکھتے ہیں یہ کیا کرتے ہیں ؟
بادشاہ نے سارے شہر میں حکم نامہ جاری کر دیا کہ جو کوئی شخص شہر سے باہر جائے گا اس کو جاتے اور آتے وقت پانچ دینار فی کس بادشاہ کیلئے دینے ہونگے نہیں تو وہ اس پل سے سفر نہیں کر سکتے اس کا متبادل راستہ دریا کو کراس کر کے شہر کیلئے سفر کرے ۔ حکم نامہ جاری ہوتے ہی اطلاق شروع ہو گیا اور وہ عوام ساری کی ساری جو بھی دوسرے شہر کیلئے سفر کرتا آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی پانچ دینار بادشاہ کیلئے دیتا۔کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ رعایا نے تو اُف بھی نہیں کی ،تو وزیر نے دوبارہ مشورہ دیا کہ اب انہیں پانچ روپے ٹیکس کے ساتھ دو جوتے مارنیکا بھی حکم جاری کر دو!!
بادشاہ نے پھر سے حکم جاری کر وا دیا کہ جو کوئی اس پل سے سفر کرے گا اس کو آتے اور جاتے ہوئے پانچ دینا ر کے ساتھ ساتھ دو جوتے بھی سر میں کھانے ہونگے نہیں تو وہ سفر کیلئے متباد ل راستہ دریا والا استعمال کریں !!حکم نامہ جاری ہوتے ہی اطلاق شروع ہو گیا اور کو شخص بھی اس پل سے گزرتا وہ آتے جاتے پانچ دینار بھی دیتا اور دو جوتے سر میں بھی کھاتا۔کچھ عرصہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا اور بادشاہ سے کسی بھی شخص نے کوئی بات نہیں کی ۔ ایک دن اچانک تمام لوگوں نے مل کر احتجاج شروع کر دیا !! بادشاہ سلامت وہاں پہنچے اور معاملہ دریافت کیا کہ آپ کیوں احتجاج کر رہے ہو آپکو کیا تکلیف ہے؟ تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا کہ بادشاہ سلامت ہمیں اور تو کوئی بھی تکلیف نہیں ہے بس ایک چھوٹا سامسئلہ ہے کہ چاہے جوتے اور مار لو ٹیکس اور زیادہ بڑھا دو لیکن برائے مہربانی جوتے مارنے والے سپاہیوں کی تعداد بڑھا دیں کیوں کہ ہمیں قطار میں لگ کر جوتے کھانے پڑتے ہیں اور کافی وقت برباد ہو جاتا ہے !!!
جیسی رعایا ہوتی ہے ہم ویسا ہی حکمران اس پر مسلط کر دیتے ہیں ۔(القرآن)
ہمارا ملک کا پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن اس پر آزاد ہونے کے بعد 70 فیصد کے قریب وقت میں غیر جمہوری نظام رائج رہا ہے اور باقی وقت میں جمہوری نظام ۔لیکن جمہوریت بھی صرف نام تک ہی محدود ہے کیونکہ جمہوریت کی آڑ میں اس مملکت پر بادشاہ حکومت کرتے ہیں ۔اس ملک کے بڑے بڑے بزنس مین اور امراء اس وقت حکومت میں بیٹھے ہیں جنہیں عوام کے مسائل کا ذرا بھی اندازہ نہیں کہ اس میں موجود غریب طبقہ کیسے دن اور رات گزارتا ہے ؟؟ خیر یہ سوچنا حکومت کا کام نہیں ہے ! حکومت کا کام ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے بھیگ مانگ کر عوام پر خرچ کرنا اور پھر عوام سے ہی کسی نہ کسی مد میں ٹیکس لگا کر ان پیسوں کو دوگنا وصول کر نا ۔کبھی بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگا دیتے ہیں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کبھی کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیتے ہیں گویا پینے سے لے کر پہننے تک ہر بات کیلئے عوام کو مبینہ طور پر ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں ۔اور سب سے بڑی نا انصافی غریب طبقے کے ساتھ ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح کا دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں زیادہ ہونا ہے۔ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں جمع ہونے والی خطیر رقم وزراء کے دوروں اور نا کردہ ترقیاتی کاموں کی تشہیر کی نذر کر دی جاتی ہے ۔بنیادی سہولیات صحت ،تعلیم ،خوراک اور انصاف کی حالت دن بدن بد سے بد تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔عوام کے احتجاج کو ہنسی مذاق کی نذر کر ددیا جاتا ہے اقربا ء پروری ،رشوت خوری ،کمیشن مافیا ،قبضہ مافیا ،بھتہ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر سیاسی جماعتوں کی گود میں پناہ لئے ہوئے نذر آتے ہیں ۔غوری ٹرین جیسے منصوبے اس ملک میں اچھے لگتے ہیں جہاں لوگوں کو بنیادی ضروریات مکمل طور پر حاصل ہوں تعلیم کا معیار بہتر ہو بے روزگاری اور جرائم کی شرح کم ہو ۔جہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہ ہو ۔پاکستان میں ان منصوبوں کی مثال ایسے ہے جیسے خوبصورت پیکنگ میں مشکلات ۔ایک عام عادمی کو ہر سرکاری محکمے میں ذلت ،رسوائی اور گالیوں کے سوا تب تک کوئی مدد حاصل نہیں ہوتی جب تک کوئی ایم پی اے ،ایم این اے یا بیوروکریٹ اس کی سفارش نہ کرے ۔اس کے علاوہ سرکاری محکموں میں اپنے مسائل کے حل کیلئے آپ کی جیب نوٹوں سے بھری ہونی چاہئے اور رشوت کار ثواب سمجھ کر تقسیم کی جائے ۔یہ کیسا عجیب و غریب نظام ہے کہ ایک شخص کو دس لوگوں کے سامنے ننگا کر کے پولیس تھانے میں چھتر مارے جاتے ہیں ،غلیظ ترین گالیاں دی جاتیں ہیں ،اسکے بعد عدالت اس شخص کو باعزت بری کر دیتی ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ شخص با عزت کیسے رہ گیا ؟؟ سی نظام میں ایسے اساتذہ ہیں جن کا تکیہ کلام کوئی نہ کوئی گالی ہوتی ہے ،ایسے ڈاکٹرز ہیں جو مسیحائی کی بجائے مریض کو نوٹوں کی گٹھڑی کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اسی نظام میں انصاف ملتا نہیں بلکہ بکتا ہے ،انصاف کے ایوانوں کے دروازے پر انصاف کوڑیوں کے بھاؤ بکتا نظر آتا ہے ۔دلائل کی بجائے وکیل کا نام زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔اسی نظام میں غیر ممالک سے فنڈ ز وصول کر کے فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کو پذیرائی ملتی ہے ۔ایک ملک دشمن امیر شخص کو اگر کبھی بھو ل چونک سے قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار کر لیتے ہیں تو پوری کی پوری سرکاری مشینری اس شخص کو بچانے کیلئے متحرک ہو جاتی ہے جبکہ ایک بے گناہ عام شہری کی مدد کرنے والے عام سماجی کار کن کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ہمارے ملک کو توڑا یا توڑنے کی کوشش کی اسکا خاندان ہی اللہ رب العزت نے صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ہمارے ملک کے نظام کو ٹھیک کرنا کوئی نا ممکن کام نہیں اسکیلئے ضرورت ہے تو صرف ہر شخص کی انفرادی کوشش محنت ،لگن اور جذبہ حب الوطنی کی ۔نجانے کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب اس ملک میں عام لوگوں کے دلوں میں پل رہا لاوا یکدم ایک خونی انقلاب کی صورت میں باہر نکلے گا اور اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکرنے والوں کو جلا کر راکھ کردے گا ۔اور کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ وہ سلوک ہو گا جیسا بنگلہ دیش میں انکے سابقہ حکمرانوں کے ساتھ عوام نے کیا ۔ہر پاکستانی کو چاہیے کہ اپنے ملک کی خاطر وہ اپنا مثبت کردار ادا کرے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ حکومت کی باگ ڈور دیں جو درد مند دل رکھتے ہوں اور لالچ سے پاک ہوں جو عام لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے ہوں ۔دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes