چھوٹے نواب ۔۔۔بڑے حاکم

Published on November 21, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 287)      No Comments

\"09\"
میرا نام’’ مجبورترین خان ‘‘ہے ۔دِن رات محنت مزدوری کرنے اور لُٹنے لُٹانے کے بعد میں نے اپنی سڑک چھاپ لیب میں یہ راز دریافت کر لیا ہے کہ حکومت کِسی ایک جماعت کی نہیں غریبوں پر دو جماعتیں حکومت کرتیں ہیں۔غریبوں پر دو حکمران ہیں ایک بڑا حاکم ملک چلانے والا اور دوسرا چھوٹا حاکم غریبوں کو چلانے والا۔۔۔ جب سے یہ راز مجھ ناسمجھ پر فاش ہوا ہے تب سے میں نے بھی چھوٹا حاکم بننے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنے اِس تخلیقی راز کو تفصیل سے قلم بند کرنے کے بعد اپنی خوبصورت جھونپڑی کے باہر ایک بورڈ آویزاں کر دیا ہے کہ ’’حکمرانی سیکھیں ،چھوٹے حاکم بن کر حکومت کریں مکمل کورس فیس 7000/-روپے ،مکمل لیکچردورانیہ صرف چند گھنٹے ‘‘میں نے سوچ رکھا ہے کہ اپنے ہر شاگرد سے آگ پر ہاتھ رکھوا کر قسم لونگا کہ وہ اِس میرے سالوں کی محنت سے حاصل کردہ راز کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھے گا یہاں تک کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی کبھی رازداں نہیں بنائے گا۔میرے چاہنے والے جانتے ہیں کہ میرے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور میرے خفیہ پیغام رساں کبوتر ڈرون حملوں کی طرح مجھ پر خفیہ انکشافات کا نزول کرتے رہتے ہیں ۔میں نے اپنی چھونپڑی میں ہی دفتر بنا لیا اور باہر ایک انتہائی چالاک قسم کا چوکیدار بھی تعینات کر دیا تاکہ چھوٹے نواب اپنے جیسے مزید چھوٹے حاکموں کی پیدائش کا سُن کر آگ بگولا نہ ہوجائیں اور میری تنکوں کی جھونپڑی کو پھونک مار کر بھسم ہی نہ کر دیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے سکیورٹی گارڈ کیلئے انتخاب فائر برگیڈ کے ریٹائرڈآُ فیسر کا کیا ہے جِس کے ہاتھ میں گن کی بجائے پریشر والا پائپ تھما کر اُسے گیٹ پر بٹھا دیا گیا ہے ۔اِس بات کا مجھے ذرا سا بھی احساس نہیں کہ میرے پاس تو ایک وقت کے کھانے کے پیسے بھی نہیں تو اُس گارڈ کو تنخواہ کہاں سے دونگا فلمیں ،ڈرامے دیکھ دیکھ کر میں اتنا عقلمند تو ہو ہی چکا ہوں کہ ملازموں کو تنخواہ اگر دی جائے تو ایک ماہ بعد دی جاتی ہے اور اکثر اوقات تو ماہ بھر کی تنخواہ دبا ہی لی جاتی ہے ویسے بھی جب تک تنخواہیں دینے کا وقت آئے گا تب تک تو میں کروڑ پتی بن چکا ہوں گا۔یہ سوچ کر قرضہ بھی لے لیا ہے کہ قرضہ واپس کرنا حاکموں،نوابوں کی توہین ہے۔
میرا پہلا شاگرد مجھ سے بھی غریب لگ رہا تھا وہ گھر کی سیف الماری اور پتہ نہیں کیا بیچ کر فیس ادا کرنے کیلئے پیسے لایا مجھے اِس محنتی انسان پر فخر ہونے لگا کہ یہی میرا پہلا شاگرد اپنے اُستاد کا نام روشن کرے گا خواہ موم بتی جلا کر ہی کیوں نہ کرے۔میری آٹھویں حس کبھی غلط نہیں کہتی مجھے یقین تھا کہ یہ نوجوان اپنی بیوی کا زیور بیچ کر میرے مشوروں کی عمارت تعمیر کر کے جھوٹا معزرت چھوٹا حکمران ضرور بن جائے گا ۔اپنے شاگرد سے فیس لیکر سب سے پہلے فائر سیف گارڈ سے کچھ کھانے کو منگوایا اور پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بعد اُسی کے پیسوں سے اُسے بھی چائے پلوائی اور خود بھی پی ضمیر نے بہت بُرا بھلا کہا یہاں تک کہ لعن طعن بھی کیا مگر پھر بھی میں نے فائرسیف گارڈ کو چائے پینے کا نہ کہا کیوں کہ مجھے اِس بات کا علم بھی ہے کہ ملازموں کو اُن کی اوقات میں ہی رکھنا چاہیے بھلا ملازموں کا کیا کام مالکوں کی نقالی کرتے پھریں ۔میرا شاگرد شائد جلدی میں تھا کہنے لگا ’’ جناب! ذرا جلدی جلدی چھوٹا حاکم بننے کا گُر سکھا دیجئے میرے بچیں صبح سے بھوکے ہیں اور میں نے ساری جمع پونجی جمع کر کے نہ آنے والی بجلی ،گمشدہ پانی اور روٹھے ہوئے گیس کے بِل جمع کر وا دیے ہیں اور جو کچھ تھوڑے بہت سکے بچے ہیں اُن سے گوشت کے بعد اب سبزیوں اور دالوں کو بھی نفرت ہو گئی ہے ۔ برائے مہربانی ذرا جلدی کیجئے چھوٹی بچی بھوک سے نڈھال ہو رہی ہوگی مجھے جا کر اُن کیلئے کچھ دانے پانے کا انتظام بھی کرنا ہے۔
مجھے اُس غریب شاگردِ اوّل کی آپ بیتی سنکر ذرا بھی رنج نہ ہوا کیونکہ اب میں کروڑوں کا رازداں تھا ۔میں نے ٹھنڈی سانس لی اور لمبا سا ڈکار لیکر اپنا لیکچر شروع کیا ’’سنو!جنگل کے نظام کا آغاز ہوچکا ہے۔یہ جانوروں کا ہی کام ہے کہ ایک دوسرے کو نوچ کھاتے ہیں سب کو اپنے پیٹ کی فکر ہوتی ہے۔جانور عزت نام کی بھی کِسی ڈش سے واقف نہیں اور جہاں جانور رہتے ہیں اُسے جنگل کہا جاتا ہے اور اگر جنگل میں سہی سلامت رہنا ہے تو شیر کو صبح ،شام سلام ٹھوکنا ہوگا ۔میں بھی کہا بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کی طرح جنگل کا قصہ لے کر بیٹھ گیا بات در اصل یہ ہے کہ بڑا حاکم یعنی وڈا نواب وہ ہوتا ہے جو آنکھیں بند کر کے نہ صرف جاگ رہا ہو بلکہ ملک بھر کو چلانے کا کامیاب ترین تجربہ بھی کرے۔ اب آتے ہیں چھوٹے حاکم یعنی چھوٹے نواب کی طرف میں جانتا ہوں کہ تم انتہائی درجے کے غریب اور میرے نام کی طرح مجبور ترین انسان ہو اِسی لیے پہلے یہ مشورہ دیتا چلوں کہ تمہیں سب سے پہلے اپنی بیوی کے زیور بیچنے ہونگے اور اگرزیور نہیں ہیں تو کِسی دوست یار کو چھری پھیرنی ہوگی لبِ لباب یہ کہ تمہیں بس کِسی بھی طرح آٹھ ،دس لاکھ کا بندو بست کرنا ہے اِن پیسوں سے تم سپلائی کا کام کرو اور جب چاہے مال کو چُھپا کر شاٹ فال ظاہرکر کے اپنی مرضی سے من چاہی قیمت وصول کرو ۔پھر مزید پیسہ جمع کر کے گودام بناؤ اور اُن میں اناج کی ذخیرہ اندوزی کرو اور پھر تمہارے وڈے حاکم تمہیں سپورٹ کریں گے اور قیمتوں میں جیسے ہی اضافہ کریں تم گوداموں کے منہ کھول دینا کہ کِسی کے کام آنا اُسے اللہ پاک کے دیے ہوئے رزق کی فراہمی کرنا انتہائی اجرو ثواب کا فعل ہے ۔اِس کے علاوہ اگر کہی کِسی شہر میں کرفیو لگ جائے تو وہاں اپنی موبائل شاپ کا پیہ گھماؤ اور چار گنا قیمت وصول کرو ۔جب تم مگر مچھ بن جاؤ تو پیڑول کا بھی ذخیرہ کرو کہ یہ بھی بڑے اجرو ثواب کا کام ہے جب کبھی ملک میں پیڑول کی قلت ہو اور تمہارے آدم زاد بھائی روزی روٹی کمانے کیلئے سفر کے منتظر ہوں تو اُن پر پیٹرول نچھاور کردودھیان رہے کوئی چنگاری نہ لگائے ،تمہارے آدم زاد بھائی خوش ہو کر اصل قیمت سے بڑھ کر تمہیں مال وزرسے نوازیں گے ۔ صرف سپلائی کا کام کرو ،کبھی سپلائی بند کرو اور کبھی سپلائی کھولو (نوٹ :اِسے نیٹو سپلائی ہر گِز نہ سمجھا جائے )اِس سپلائی کا تعلق برائے راست انسانی زندگی سے ہو کہ جِس کے بِنا جینا محال ہو جائے اور عوام اپنے بچے بیچ کر بھی تمہاری سپلائی حاصل کرنے کیلئے پیسے جمع کرکے تمہارے تہہ خانوں میں نوٹوں کی تہہ در تہہ لگاتے جائیں ۔لو آپ بن گئے چھوٹے حکمران اب جاؤ اور جاکر غریبوں کی سانسوں تک پہ حکومت کرو اِس بات کی بھر پور گارنٹی ہے کہ حکومت (بڑے حاکم) تمہارا بھر پور ساتھ دے گی۔ایک آخری نصیحت رحم نام کے پرندے کو ہمیشہ کیلئے آزاد کردینا تو جلد از جلد کامیاب ہوجاؤ گے۔اچانک چونک کر گھڑی کی جانب دیکھا تو صبح کے نو بج رہے تھے میرے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ٹمٹمانے لگی کیونکہ مجھ پر یہ راز افشاں ہوچکا تھا کہ ’’مجبور ترین خان ‘‘ میری گزشتہ رات کے خواب کا ایک بے جان کریکٹر تھا ۔

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy