ارمان ِدل

Published on March 4, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 735)      No Comments

Uzma
قسط نمبر 3
رائٹر ۔۔۔عظمی صبا
شکیل تم نہیں سدھرو گے۔۔وہ ہنستے ہوئے گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔۔۔!!
اوہ!!!!چیلنج۔۔۔!!ہنستے ہوئے شکیل اس کی بات کو چیلنج کے طور پہ لیتے ہوئے بولا
نہیں بابا۔۔
نجانےایسے کتنے چیلنج ہار چکے ہو تم۔۔ارمان نے مسکراتے ہوئے اسے طنزیہ طور پر جواب دیا۔
ہائے۔۔۔۔یار۔۔۔۔۔۔۔دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے قہقہہ لگا کر ہنستے لگا۔د ل نہیں لگتا نا میرا حسیناؤں کے بغیر۔۔اس نے ایک
اور قہقہہ لگاتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
بکواس نہیں کرو ۔۔۔!!!مسکراتے ہوئے ارمان نےاسےمنہ بند کرنے کا اشارہ کیا۔
ارمان ! یار ۔۔۔۔تم بھی نا ۔۔۔۔!
لو۔۔
دیکھو۔۔آگیا تمہاری بھابی کا فون۔۔۔۔۔
شرارتی انداز میں فون پہ رنگ ہوتا دیکھ کر ریسیو کرنے لگا۔
نجانے کتنی بھابھیاں ہوں گی میری۔۔۔اس نےطنزیہ مسکراہٹ دیتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ کو بڑھا دیا۔
اچھا ۔۔ چپ۔۔۔ چپ۔۔۔اسے فوراََخاموش رہنے کے لیے اشارہ کرکے فون ریسیو کرنے لگا۔
ہیلو مائی ڈئیر نازیہ۔۔۔۔!!
کیسی ہو؟؟؟؟اسے ایسی محبت کا ڈرامہ کرتا ہوئے دیکھ کر ارمان زچ ہو کرہ گیا اور منہ ہی منہ میں کچھ نہ کچھ
بڑبڑانے لگا۔
سرمد بھائی کہاں ہیں آپ؟؟؟فون کو بائیں کان سو لگاتے ہوئے وہ بولی۔
میں لاہور۔۔۔!!
لاہور۔۔۔؟؟؟پریشانی سے دریافت کرتے ہوئے وہ بولی۔
ہاں !چھ مہینےکے لیے ادھر ٹریننگ کے لیے ہوں۔۔۔!!
چھ مہینے۔۔۔!!!اس بات پر تو وہ بہت حیران ہوگئی تھی۔
سرمد بھائی۔۔۔۔۔
بہت برے ہیں آپ۔۔
مجھے بتائے بغیر۔۔۔!افسردہ ہوتے ہوئے وہ بیٹھ گئی۔
جائیے۔۔۔۔مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔۔۔منہ پھلا تے ہوئے فون بند کرنے لگی۔۔
سرمد سر پکڑ کر رہ گیا۔۔
رکو۔۔۔تو۔۔۔
مسکان۔۔۔!اس کی طرف سے جواب نا پا کر اس کو پکارنے لگا۔
جی۔۔! افسردہ ہوتے ہوئے نا چاہ کر بھی جواب دے دیا۔
یار۔۔۔۔۔آتا رہوں گا نا۔۔۔اسکو سمجھاتے ہوئے وہ بولا۔
کیا بات ہے!!کوئی پریشانی ہےکیا؟؟وہ اس سے دریافت کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولا۔
سرمد بھائی۔۔۔!وہ افسردہ سی اشک بار ہو کر ساری بات بتاتی چلی گئی جو ثریا اس سے کہہ کرگئی تھیں۔۔۔
لو۔۔!!اس کی بات سنتے ہی وہ ہنسنے لگا۔۔مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے یہ تو۔۔۔۔
پگلی۔۔۔۔!!
میں سمجھا۔۔پتہ نہیں کیا ہو گیا ۔۔
کرنی چاہیے جاب بھئی۔۔۔۔!!
تم کہو تو میں بات کروں؟؟؟فائلز کو ترتیب دیتے ہوئے اس سے بات کررہا تھا۔
ہاں!!!
نہیں۔۔ نہیں۔۔۔۔!
میں خود بات کرتی ہوں۔۔
مگر کیا یہ ٹھیک رہے گا کیا؟؟وہ سوالیہ طور پر پوچھنے لگی۔
ہاں !بھئی حرج ہی کیا ہےبھلا اس میں۔۔!!!وہ اسے سمجھاتے ہوئے ریلیکس ہونے کے لیے کہنے لگا۔
مگر میں اکیلی کیسے۔۔۔۔!!!پریشان ہوتے ہوئے وہ رک رک بولی۔
اوہ !!ہو!!! اس کی بات کاٹتے ہوئے سرمد تاسف سے بولا۔
یہ زویا کب کام آئے گی بھلا۔۔!!اس نے آئیڈیا دیا۔
زویا۔۔۔!!
کی تھی اس سے بات ۔۔!!
ایڈریس دے دیا ایک جگہ کا۔۔۔!!!!
کہ میں وہا ںجا کر پتہ کروں۔۔!
اب میں اکیلی کیسے ۔۔۔۔!!پریشانی سے اپنی ساری بات اس تک پہنچا رہی تھی۔۔
تو اس کو کیا تکلیف ہے؟؟؟؟وہ غصہ سے بولا۔
کیوں نہیں جا سکتی وہ تمہارے ساتھ۔۔۔!!!
پریکٹس چل رہی ہے اس کی۔۔!!!
میں کیا کروں میں۔۔۔۔۔!!! افسردہ ہوتے ہوئے وہ منہ پھلانے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ بزی آپ لاہور چلے گئے۔۔۔۔۔۔اور وہ پریکٹس میں
مجھے تو آپ لوگوں نے اکیلا ہی چھوڈ دیا ہےنا۔۔۔!اب کی بار افسردہ ہوتے ہوئے فون ہی کاٹ دیا۔
مسکان۔۔۔!!!!
ایسی بات نہیں۔۔۔ مسکان۔۔۔۔۔!!!اس کی بات سننے سے پہلے وہ اس کا فون کاٹ چکی تھی
اگر تم کہو تو اگر تم کہو تو فیمیلز کےانٹرویومیں لے لوں؟؟؟
شکیل مسکراتے ہوئے خوش مزاجی سے پوچھ رہا تھا۔
شکیل ۔۔۔
سدھر جاؤ تم۔۔۔زچ ہوکر اسے سدھرنے کے لیے اشارۃََسمجھا رہا ہا تھا۔
لو۔۔۔!
بھلا کیا برا کہہ دیا۔۔۔!!
قسم سے۔۔
تم میں تو لگتا ہے فیلنگز نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔۔اس نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
ٹآئم ویسٹ نہ کرو میرا۔۔۔!
جاؤ۔۔۔ یہ فائلز لے جاؤ۔۔! بیلنس کرو انہیں۔۔۔اسے فائلز دیتے ہوئے جانے کا اشارہ کیا۔
جی۔۔۔!
جی۔۔۔جواد بھائی۔۔۔اس نے پاس پڑے فون پررنگ ہوتے ہی فون اٹھاتے ہی بات کی۔۔
دو مشینوں کی ضرورت ہے یہاں۔۔۔!ہوٹل میں کچھ کام رکا ہوا ہے،جواد نے اطلاع دی۔
جی۔۔!
میں آرڈر دیتا ہوں ۔۔۔!!اور فون رکھنےکے بعد کام میں مصروف ہو گیا۔
بس سکینہ۔۔۔!!!
بے فکر رہو۔۔
میری صبا کے نصیب بہت جلد چمک جائیں گے۔۔ثریا دوراندیشی سے بولی۔
مگر ۔۔سنوآپا۔۔۔
حاجرہ آپا کہہ رہیں تھیں ذرا جہیز اچھی قسم کا دیں۔۔
خاندان والوں کے سامنے عزت کا سوال ہے نا!!پان منہ میں ڈالتے ہوئے سکینہ شاطر عورتوں جیسی گفتگو کرہی تھی۔۔
بے فکر رہو سکینہ۔۔۔!
گھربھر دوں گی ان کا سامان سے۔۔!مسکراتے مسکراتےچند لمحوں کے لیے سنجیدہ ہوگئی تھی۔۔۔شاید سوچ رہی تھی کہ
جہیزآئے گا کہاں سے۔۔؟؟؟
کیا ہوا۔۔؟؟؟
کس سوچ میں پڑ گئی ؟؟سکینہ نے اسے ہلا کر پوچھا۔
ارے۔۔۔
ن۔نن۔۔۔نہیں کچھ نہیں۔۔۔!وہ زبردستی مسکرائی۔
میں تو آپا ۔۔
شادی پہ دس کلو مٹھائی ،دس ہزار نقداور ایک جوڑاضرور لوں گی۔۔اپنی ڈیمانڈ بتاتے ہوئے اس نے منہ میں پان ڈالا۔
ہاں!! بھئی۔۔۔!!!
کیوں نہیں۔۔۔!!!ثریا نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
میں جانتی ہوںبابامیری ہی خوشی کو اہمیت دیں گے۔۔مگر امی کے منہ سے بیٹی کا لفظ سن کر تو ایک لمحے کے لیے
جیسے دنیا رک سی گئی ہے۔۔۔!مگر صرف ضرورتوں کے لیے ہی میں بیٹی۔۔۔!وہ رات کی تاریکی میں اپنی ڈائری
پرساری باتیں لکھ رہی تھی۔۔۔
نجانے صبح کیا ہو گا۔۔۔!کل پہلی دفعہ میں اکیلی دنیا کا مقابلہ کرنے نکلوں گی۔۔۔۔سرمد بھائی اور زویا۔۔بہت مس کروں
گی میں آپ دونوں کو۔۔۔!!!نجانے آپ لوگ نہ ہوتے تو میں یونیورسٹی میں پڑھ بھی پاتی کہ نہیں۔۔۔!!آہ بھرتے ہوئے وہ
لیمپ کی روشنی میں ٹیبل پر ڈائری رکھے کرسی پر بیٹھے لکھ رہی تھی۔۔!یا اللہ ۔۔۔۔ میری مدد فرمانا۔۔۔!!
آج مجھے میری امی کی شدت سے یاد آئی۔۔!!
دل کی باتیں۔۔۔!نجانے کس سےشئیرکروں۔۔۔
مگر میری ڈائری ۔۔!تو مجھے وہ آنچل دینا جہاں میں اپنے سارے ٖ غم بانٹ سکوں۔۔۔!!آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے وہ ٖٖ
ڈائری پر سب تحریر کرنے کے بعد اسے بند کرکے اٹھ کھڑی ہوئی اور سونے کے لیے بیڈ پر آگئی جہاں صبا اور

گڑیا پہلے سے ہی سو رہیں تھیں۔۔۔
جاری ہے

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress主题