Auto Draft

Published on March 12, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 940)      No Comments

ارمان ِدل ۔۔۔

Uzmaرائٹر ۔۔۔ عظمی صبا

 قسط نمبر10

Be confident۔۔۔ Hope for good performance  

پریذنٹیشن  سے پہلے ارمان اسے مسکراتے ہوئے پر اعتماد دیکھ رہا تھا اور اس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔۔۔ ۔مسکراتے ہوئے جواب دینے لگی۔

۔۔۔۔! I will try my best

جی ۔۔۔۔سر۔۔۔!!!

 ایکسکیوزمی۔۔۔! انشراح نے بات کرنے سے پہلے اجازت لی۔

جی۔۔۔مس انشراح۔۔۔۔!!مسکراتے ہوئے اس سے بولا۔

  میں سوچ رہی تھی کہ اگر سروسز   کو بہتر طور پیش کیا جائے تو ہوٹل کی پبلیسٹی کے ساتھ ساتھ انویسٹمنٹ  میں بھی اضافہ ہو گا ۔۔۔

وہ اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

یہ تو ٹھیک کہ رہی ہیں آپ ۔۔۔

   پریزنٹیشن سے مس مسکان ایک اچھا ماحول فراہم کریں گی۔   کنوینس کرنا ہی ہمارا ٹارگٹ ہے۔۔اور مجھے امید ہے کہ آج کی بس کسٹمرز کو

انشراح سے بات کرتے ہوئے  مسکان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔۔۔!!!

جی سر۔۔۔!!

آئیڈیا ہے ۔۔۔!! میرے پاس بہت بہترین 

ہوٹل نہ صرف   رہنے کے لئے بلکہ ہر تقریب  کے لئے بھی موزوں رہے گا۔۔!!اپنی بات سے اسے حیران کرنے لگی۔۔۔!!

اوہ۔۔۔ رئیلی

It’s very good idea۔۔۔!

چلیں۔۔۔!آدھے گھنٹے بعد ملاقات ہوتی ہے  کانفرنس روم میں۔۔۔!

آپ فریش ہو جائیے ۔۔!!!

گھبرائیے گا مت۔۔۔۔!!اسے اعتماد سے نیک تمنائیں دینے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔۔

جی۔۔۔!مسکراتے ہوئے دونوں وہاں سے چلی گئیں۔

٭٭٭٭

دیکھ لو آج  بھی۔۔۔!!سیڑھیوں سے اترتے ہوئے۔

بھائی نے 3 بجے کا کہا تھا مگر۔۔۔!! شاہ میر منہ بسورتے ہوئے حیا سے باتیں کرنے لگا ۔

شامی۔۔۔!!

اٹھو  ہم  دونوں  ہی چلتے ہیں۔۔۔!

کرتے ہوئے  Relax انہیں 5 بجے لے لیں گے نا۔۔۔!! اسے

5 بجے؟؟؟

ابھی کیوں نہیں۔۔۔!!وہ اسے ابھی جانے کے لئے کہنے لگا۔

اوہ! ہو۔۔۔۔پاگل۔۔۔

  میٹنگ ہے بہت اہم ۔۔۔!!! اسے اطلاع دیتے ہوئے  آج

تمہیں کیسے پتہ چلا۔۔۔وہ زچ ہو کر پوچھنے لگا۔۔

اوہ۔۔۔ہو۔۔۔!!

تایا جان نے بتایا۔۔۔!زچ ہو کر  کہنے لگی۔

پاپا نے!!!!کب؟؟؟ وہ مزید تفتیش کرنے لگا۔

اوہ۔۔

شامی ۔۔۔!!وہ زچ ہو کر اس کا نام لینے لگی۔

وہ بھی آفس ہی گئے ہیں نا ابھی۔۔۔!!!

کب گئے ہیں  وہ آفس ؟؟؟؟ وو اسے زچ ہوتا دیکھ کر   مزید سوال کرنے لگا۔

اوہ!!!گاڈ۔۔۔!!!

شاہ میر تمہارے آنے سے پہلے ہی  گئے ہیں۔۔۔

اب چپ کر جاؤ۔۔۔!!

دماغ خراب کر دیا  ہے تم نے تو۔۔۔!زچ ہو کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے آن کر کے دیکھنے لگی۔۔!!جبکہ شاپ میر اسے تنگ کرنے کے بعد کھلکھلا کر ہنسا۔

٭٭٭٭

مسکان ساری پریزنٹیشن پر اعتمادی سے دے رہی تھی اور ساتھ ساتھ   کلائنٹ کو ہنساتی بھی رہی تھی  جبکہ ارمان اس کے   پروجیکٹ اور  کانفیڈنس کو دیکھ کر دل ہی دل  میں

 سراہ رہا تھا۔

Thanks to all of you for listening me for long time

Thanks for your precious time۔۔۔۔۔۔!

مسکان مسکراتے ہوئے کانفرنس روم  میں بیٹھے پینل  سے  گفتگو کررہی تھی اور حسن صاحب اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ  رہ سکے۔۔۔۔ 

٭٭٭٭

ویل ڈن ۔۔پریذنٹیشن کے  بعد ارمان اسے سراہتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔

تھینک یو سر ۔۔۔۔!!وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے  مسکرائی۔

یہ لیجیئے ۔۔۔۔!!اسے خاکی رنگ کا لفافہ  پکڑاتے ہوئے

جی؟؟یہ۔۔۔۔یہ کیا ہے سر۔۔۔۔!وہ پکڑتے ہوئے ہچکچا رہی تھی۔

Congratulation for your promotion

مسکراتے ہوئے اسے خوشخبری سنا رہا تھا اور کل سے ہم آپ کو الگ روم دیں گے۔۔۔۔

مطلب آپ اور انشراح دونوں الگ الگ کام کریں گے۔۔۔۔!!

وہ اسے مسکراتے ہوئے ساری تفصیل بتا رہا تھا۔۔۔۔!

جی۔۔۔!!لفافہ پکڑتے ہوئے وہ تشکر سے اسے دیکھنے لگی۔

آجاؤ بھئی۔۔۔۔!! وہ ابھی اس سے  بات کررہا تھا کہ اسے دروازے پر دستک محسوس ہوئی ۔۔۔شکیل کو اندر آنے کے لئے کہنے لگا۔۔۔

اوہ! ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے آپ دونوں کو۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے شرارتی نظر  وں سے ایک جھلک مسکان پر ڈالنے کے بعد ارمان سے کہنے لگا۔۔

اچھا ۔۔۔سر۔۔۔۔ شکریہ۔۔۔!! وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ،باہر جانے ہی لگی تھی کہ شکیل نے پیچھے سے آواز دی  ۔

مس مسکان۔۔۔!!

ویل ڈن ۔۔۔!!بہت اعلیٰ  ۔۔۔!!!

آپ دیکھنے سے بالکل بھی اتنی انٹیلیجنٹ نہیں لگتیں۔

 وہ مسکراتے ہوئے اسے داد دے رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ شرارتی انداز میں انفارمل ہونے لگا ۔

جی۔۔۔وہ مڑی اور اس کو یوں مسکراتا دیکھ کر خاموشی سے  دھیمی سی مسکراہٹ دینے کے بعد وہاں سے چلی گئی۔

یہ کیا حرکت ہے شکیل۔۔۔!!وہ شکیل  کی طرف متوجہ  ہوتے ہوئے   اس سے پوچھنے لگا۔

کیا حرکت ۔۔؟؟ وہ ہنستے ہوئے اسی سے  ہی اس کا سوال پوچھنے لگا۔

یار۔۔۔۔یہ لڑکی ایسی ویسی نہیں۔۔۔۔!!

تمہاری ٹینا،مینا،نازیہ،شازیہ جیسی۔۔۔۔!!وہ مسکراتے ہوئے اس پر طنز کررہا تھا۔۔

تو پلیز۔۔۔۔

 زیادہ انفارمل ہونے  کی ضرورت نہیں ۔۔۔اسے باز رہنے کےلئے کہنے لگا۔ 

اوہ!ہو۔۔۔!!

تمہیں کیسے پتہ ہے۔۔۔!شکی نظروں سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہوئے  وہ ہنسا۔

کہیں۔۔۔۔!!خدشہ بیان کرتے ہوئے وہ نظروں ہی نظروں میں  اسے بہت کچھ سمجھا گیا۔

کچھ نہیں ہے ایسا ویسا۔۔۔اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ الجھا۔بکواس بند کرو۔۔

بیٹھو۔۔۔!اسے بیٹھنے لے لئے کہتے ہوئے اس نے اشارہ کیا۔

اوہ!!!! وہ کرسی پر بیٹھتے ہی  پھر سے بغور اس کی طرف دیکھنے لگا۔

مجھے دیکھنے سے کام نہیں ہونے والا۔۔۔

 یہ فائلز لے جانا۔۔فائینل کر کے لے آؤ۔۔۔!اسے کام دیتے ہوئے بڑے رعب سے کہتے ہوئے مسکرانے لگا۔

دوست ہوں تو ایسے ۔۔۔۔

 ایک منٹ بھی فری نہ بیٹھنے دینا۔وہ منہ بسورتے ہوئے فائلز کو اٹھاتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔

٭٭٭

۔۔۔ May I come in sir?

وہ جواد سے اجازت  لیتے ہوئے اس کے روم میں جانے لگی۔

جی۔۔۔

آئیے ۔۔۔!! وہ مسکراتے ہوئے اسے خوش آمدید کہنے لگا۔۔۔

مبارک ہو آپکو۔۔!!!

کل کی پرفامنس  تو بہت دھواں دار تھی ۔۔۔۔

زبردست ۔۔۔!!داد دیتے ہوئے وہ ہنسا ۔

جی۔۔۔۔شکریہ سر۔۔

سر یہ ۔۔۔!!وہ روپے اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔

یہ کیا؟؟؟وہ چونکا۔۔۔

یہ پیسے ۔۔۔!!جو میں نے آپ سے لئے تھے۔۔

آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔!!!

ارے اس کی کوئی ضرورت نہیں مس مسکان۔۔۔۔!!!

  اور ویسے بھی اب تو آپ پرمانینٹ ایمپلائی بن گئی ہیں یہاں کی۔۔۔! ! وہ انکار کرتے ہوئےاس سے مسکراتے ہوئے بات کرنے لگا۔ 

نہیں سر۔۔۔!!وہ زبردستی روپے اس کے ٹیبل پر رکھ آئی۔۔

مس مسکان۔۔۔!!!اس نے اسے واپس  جاتا دیکھ کر پیچھے سے آواز لگائی۔

جی۔۔۔!!وہ مڑی۔۔

لگتا ہے آپ نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔!!وہ اپنے رویے کو ذہن میں لاتے ہوئے اس سے کہنے لگا۔۔

اس دن ڈسٹرب تھا کسی وجہ سے۔۔۔بس۔۔۔وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولا۔

 اٹس اوکے ۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرائی ۔

ام م م م م  ۔۔۔گڈ۔۔

تو پھر فرینڈز ؟؟؟؟؟ اسے دوستی  کی پیشکش  کرتے ہوئے وہ مسکرانے لگا۔۔۔۔!!جبکہ وہ صرف ہلکا سا مسکرادی۔

 نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی نا میں۔

آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک مجھے کہیے گا۔۔۔!!!وہ اس کو پیشکش کرتے ہوئے مسکرانے لگا۔

 جی۔۔۔۔وہ خاموشی سے مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی

ارے آگئی تم ۔۔۔!!وہ ہار میں موتی  پروتے ہوئے  اس کو آتا دیکھ کر  پوچھنے لگے۔

جی۔۔۔۔!!!

یہ لیجیئے مٹھائی کھائیے۔۔!!مٹھائی کا ڈبہ سامنے کرتے ہوئے وہ مسکرائی۔

مٹھائی؟؟؟خیر تو ہےنا؟؟؟ کس خوشی میں؟؟؟وہ ہار کے دھاگوں کو گرہ لگاتے ہوئےایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔

 جی۔۔۔۔ میری پروموشن ہو گئی ہے ۔۔!!مٹھائی ان کے منہ میں ڈالتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی۔ 

   پروموشن ۔۔۔ ثریا فوراَََ سے سنتے ہی کمرے سے باہرآتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔ 

  جی امی۔۔۔۔اورسیلری پینتیس ہزار روپے۔۔۔۔!! 

ایڈوانس میں دئیے ہیں۔۔۔۔لفافہ بیگ سے نکالتے ہوئے

واہ۔۔۔۔!!آپی۔۔۔۔۔

بہت بہت مبارک ہو۔۔گڑیا نے فوراََ سے مٹھائی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔

 آپ بھی لیں نا! وہ صبا ،ثریاا اور دادا دادی سب کامنہ میٹھا کروا تے ہوئے اپنی پروموشن پر بہت پرجوش تھی۔ 

یہ تو اللہ کا کرم ہے!مسکان بیٹی!!

اور تمہاری محنت کا ہی نتیجہ ہے۔۔!!دادی اسے سراہتے ہوئے اس کا گال تھپتھپانے لگیں جبکہ دادا جان سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے شمار دعائیں دینے لگے۔

ہاں!

اماں۔۔۔مٹھائی  کھاتےہوئے ساتھ ساتھ باتیں کرنے لگیں ۔

اللہ وسیلے بنانے والا ہے۔۔۔!!!

یہ پیسے اب صبا کی شادی پہ کام آئیں گے۔۔۔مسکراتے ہوئے مطلبی گفتگو کرتے ہوئے مسکان کی طرف دیکھنے لگیں ۔

لاؤ۔۔۔!!اس سے روپے کا پیکٹ پکڑتے ہوئے    وہ بولی ۔

جی۔۔۔!!اس کے چہرے پر چھائی مسکراہٹ اچانک غائب ہو گئی  ،اور باقی سب گھر والے  ثریا کے ایسے رویے پر ہنستے ہنستے اچاانک حیران ہو کر  رہ گئے۔

ثریا۔۔۔!!عابد صاحب اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے۔

یہ پیسے اس کی محنت کے ہیں۔۔۔

بھلا۔۔!!

اجی آ پ کو کیا؟؟عابد صاحب کی بات کاٹتے ہوئے بولیں ۔

جب اسے دیتے ہوئے دقت نہیں ہورہی؟ ؟؟مسکان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے دیکھنے لگیں اور عابد صاحب سے باتیں کرنے لگیں۔

“تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟” پیکٹ کھوتے ہوئے۔

ارے یہ تو پچیس ہزار ہیں۔۔۔۔۔پیسے گنتے ہوئے مسکان سے پوچھنے لگیں

جی۔۔۔وہ۔۔۔۔۔بمشکل بات کرتے ہوئے مسکرانے لگی۔

    وہ۔۔۔۔دس ہزار لون لیا تھا وہ  واپس  کیا ۔تو۔۔۔۔۔بات کرتے کرتے  مسکان رک سی گئی۔

اوہ! اچھا۔۔۔۔ ذہن پر زور ڈالتے ہوئے ۔

ٹھیک ہے ۔۔۔!!اس کی طرف دیکھ کر ثریا مسکرانے لگی جبکہ سب گھر والے  اس کی اس حرکت اور رویے کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہوگئے ۔

٭٭٭

چائے۔۔۔ثناء بیڈروم میں جواد کے لیے چائے لے کر آتے ہوئے اسے پیش کرنے لگی۔

ٹیبل پر رکھ دو۔۔۔وہ لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا ۔

جی۔۔۔!چائے رکھتے ہوئے ایک نظر اس پر ڈالنے لگی

جواد۔۔۔!!

ہاں۔۔۔!!کام کرتے ہوئے اس کو جواب دینے لگا۔

مجھے کچھ بات کرنا تھی آپ سے۔۔۔وہ ذرا ہچکچاتے ہوئے  بات کرنے لگی۔۔

ہاں !بولو!!!ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئےوہ جواب دینے لگا

جواد ۔۔۔

ہم کب تک یہاں رہیں گے؟؟وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے کہنے لگی۔

کیا مطلب تمہارا۔۔۔وہ کام کرتے کرتے چونکا۔۔

مطلب یہ کی جواد ۔۔۔!!

اچھا نہیں لگتا کہ ہم یہاں بوجھ بنے رہیں۔۔۔۔وہ ڈر یسنگ کے سامنے کھڑی ہو کر کنگھی کرنے لگی۔

ثناء۔۔۔

کسی نے کچھ کہا ہے تم سے؟؟؟لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئےوہ چائے کا کپ  پاس پڑے ٹیبل  سے اٹھاتے ہوئے پوچھ رہا تھا

نہیں۔۔۔۔

کہا تو نہیں۔۔۔۔

لیکن ہمیں ابھی سے اپنے گھر کے بارے میں سوچنا  چاہئیے ،وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی۔۔

اوہ!ہو!!!ثناء۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولا۔

تم اور تمہارے یہ  لیکچر ۔۔۔۔!!!

مگر جواد۔۔۔۔

اگر۔۔۔مگر۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

جب یہاں کوئی مسئلہ نہیں تو کیوں فضول کی بحث کر رہی ہو۔۔۔وہ بات کو ختم کرتے ہوئے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ رہا تھا۔

جبکہ ثناء اس کی بات پر خاموش ہو گئی  تھی۔۔۔اسے میکے میں یوں رہنا پسند نہیں تھا جب جب جواد سے بات کرتی اس کا ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملتا۔۔۔جس سے وہ سوائے خاموش ہونے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

٭٭٭٭

مبارک ہو تمہیں ۔۔۔

اب مجھے بھول نہ جانا۔۔۔!انشراح افسردہ ہوتے ہوئے مسکان سے کہنے لگی۔۔۔

بھولوں گی کیوں بھلا۔۔۔

اور ویسے بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں۔۔

کوئی بھی بات ہو بلا جھجھک بلا لینا۔۔۔!!

ہاں۔۔!!افسردہ ہوتے ہوئے ۔۔

اچھا!!!اب منہ تو نہ لٹکاؤ۔۔۔!!!

ٹھیک ہےتم کہتی ہو تو میں ارمان سر سے بول آتی ہوں کہ مجھے۔۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔بات کاٹتے ہوئے انشراح مسکرائی ۔

ایسا کب کہا میں نے۔۔۔۔وہ مسکرا دی۔

۔۔۔That’s very good

 ویسے بھی لنچ تو ساتھ ہی کریں گے ناروزانہ؟؟؟ وہ انشراح کو مسکراتا دیکھ کر بولی۔

ہاں!!!جواباَََ انشراح گردن ہلا کر بولنے لگی۔

٭٭٭

بعض  اوقات ہم کتنا غلط سوچ لیتے ہیں ان لوگوں گے بارے میں جو ہمارے خیر خواہ ہوتے ہیں۔۔۔شاید میں نے بھی جواد سر  کے بارے میں غلط رائے قائم کرلی تھی۔۔۔آج  کے زمانے میں تو لوگ اپنوں سے پرائے بننے میں دیر نہیں لگاتے ۔۔۔احساس۔۔۔!!ایسا لگتا ہے احساس مر چکا ہے ۔پینتیس ہزار میں سے صرف پانچ سو میرے حصے میں آئے ۔۔۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔۔۔۔!!!

 وہ رات کی تاریکی میں چھت پر کھڑی گہری سوچوں میں مگن تھی۔اسی اثناء میں اس کے فو ن پر بیل ہوئی۔ 

السام علیکم ۔۔۔!!سوچوں سے آزاد ہوتے ہوئے۔

وعلیکم السلام۔۔۔

کہاں بزی ہو آج کل؟؟سرمد پرجوش ہوتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔۔۔

کہیں نہیں۔۔۔۔

آگئی یاد آپ کو میری۔۔۔وہ گلہ کرتی ہوئی بولی۔

ہاں تو۔۔۔

تم نے تو جیسے یاد کرکے ریکارڈ قائم کر دیا۔۔۔وہ اسے تنگ کرتے ہوئے بولا۔

اچھا۔۔۔اب تنگ نہ کریں مجھے۔۔۔!!وہ زچ ہو کر بولی۔

لو تنگ کررہا ہوں میں ؟؟؟؟

کمال کرتی ہو۔۔۔تم گلے کرو۔۔اور میں اتنا بھی نہ کروں۔۔۔!!وہ مزید تنگ کرتے ہوئے  بولا۔

اچھا۔۔۔!

بس۔۔۔۔۔!!وہ اسے تنگ کرنے سے منع کرتے ہوئے کہنے لگی۔

ام م م م م۔۔۔

اور سناؤ۔۔۔۔

کیسی جا رہی ہے جاب۔۔۔۔!!!

 زویا بتا رہی تھی کہ تمہاری   پروموشن ہوئی ہے۔۔۔

تم نے بتایا ہی نہیں۔۔۔مبارک ہو بہت بہت ۔۔۔وہ پرجوش ہوتے ہوئے کہنے لگا۔

آپ تنگ کرنے سے باز آجائیں تو کچھ بتاؤں نا؟؟؟؟وہ گلہ کرتے ہوئے  بولی۔۔۔

اچھا۔۔۔اب بتا دو۔۔۔وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔

ہاں ۔۔۔وہ مسکرائی اور اسے ساری بات بتانے لگی۔

٭٭٭

آخر کیسے پورے کروں میں خرچےَََ

پچیس ہزار میں اب شادی تو ہونے سے رہی۔۔۔ثریا واویلا مچاتے ہوئے بولی۔

دیکھو ثریا۔۔۔!

اس وقت کیوں شور مچا رہی ہو؟؟عابد صاحب اس کو خاموش رہنے کے لئے کہہ رہے تھے۔

کیوں نا مچاؤں شور؟؟؟؟

آپ کے دو سو روپے سے اب گھر تو چلنے سے رہا۔۔۔۔۔

توشادی کیسے ہو گی۔وہ غصہ سے  بولیں۔

ایک ہفتہ وہ گیاہے۔۔۔!

کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔۔!!وہ غصہ پر غصہ کرتے ہوئے اونچا اونچا بولیں۔

اچھا سرمد بھائی۔۔

بعد میں بات کرتی ہوں ۔۔۔اسے ثریا کے بولنے کی آوازیں محسوس ہوئیں تو فوراََ فون بند کرتے ہی نیچے آگئی۔

اور ۔۔۔مہنگائی۔۔۔۔

کمبخت ۔۔۔سمجھ نہیں آتی کچھ بھی۔۔۔

درزن نے بھی دس ہزار روپے کا بل بنا دیا ۔۔۔

اف ف ف ف ف ف۔۔۔۔۔!!!

آپ کو تو جیسے فکر ہی نہیں ہے۔۔۔وہ عابد صاحب سے غصہ ہو کر بولیں۔

ثریا۔۔۔!
ہوش کے ناخن لو۔۔۔

یہ کون سا وقت ہے ۔۔۔کہ واویلا مچاؤ۔۔۔دادی اسے ڈانٹتےہوئے چپ رہنے کا کہہ رہی تھیں۔

اماں!آپ تو چپ ہی رہیئے۔۔۔!!وہ مسکان کو سیڑھیوں سے اترتا ہوا دیکھ کر دادی سے باتیں کرنے لگیں۔۔۔

امی کیا ہوا؟؟

سب خیر تو ہے۔۔۔گڑیا ہاتھ میں ناول پکڑے  فوراََ باہر آتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔!!

ہونا کیا ہے؟؟؟؟تیری ماں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔دادی منہ بسورتے ہوئے بولیں۔

جا گڑیا ۔۔۔

تو اند ر جا کر ناول پڑھ۔۔۔وہ گڑیا کو اندر جانے کا کہہ رہی تھیں۔

تیری ماں پاگل ہوگئی ہے۔۔۔۔!دادی مزید بولیں تو گڑیا چپ سادھ کر اندر چلی گئی۔

اماں!!

آپ کو تو فکر ہے ہی نہیں نا!!

گڑیا کے ابا۔۔۔۔!

اب کیا کرناہے بتایئے مجھے؟؟؟

کہاں سے انتظام ہو گا ٹی وی،فریج،اے سی اور پتہ نہیں کیا کیا؟؟؟

میرے پاس تو کمیٹی کے صرف پچاس ہزار ہیں ۔۔

آخر۔۔۔!!وہ عابد صاحب سے اب قدرے نرم دلی سے بات کرنے لگیں۔

امی۔۔۔!مسکا ن اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

پریشان نہ ہوںآپ  پلیز   ۔۔!!وہ اسے دلاسہ دیتے ہوئے بولی۔

ارے کیسے پریشان نہ ہوں؟؟

میرا تو سوچ سوچ کر دل بیٹھا جا رہا ہے ۔۔۔

کہیں اس رشتے سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔۔۔!!وہ مجبور ہوتے ہوئے بولیں۔

امی۔۔۔۔!!وہ پریشانی سے بولی۔

کتنے چاہیئں پیسے؟؟؟

مگر تم؟؟؟کیسے؟؟؟؟؟؟وہ حیرانگی سے بولیں۔

امی۔۔۔!

آپ بتائیے تو؟؟؟

 میں لون  لے لوں گی۔۔۔!

آپ بس فکر نہ کریں۔۔۔وہ احساس مندی سے بولی۔

ایک لاکھ روپے۔۔۔!!وہ مجبور ہوتے ہوئے بولیں۔

ٹھیک ہے۔۔۔!

کل تک مل جائیں گے۔۔

اب پریشان نہ ہوئیے گا۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے ثریا کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔

مگر مسکان۔۔۔۔عابد صاحب بات کرنے ہی لگے  تھے کہ ثریا ان کو گھورتے ہوئے منہ بسورنے لگی۔

بس۔۔۔!ان کی بات کاٹتے ہوئے وہ بولی۔

اب مسئلہ کیا ہے؟

اب یہ اگر مگر نہ کریں آپ۔۔۔!وہ مسکراتے ہوئے مسکان کی طرف دیکھنے کگی جبکہ عابد صاحب چاہ کر بھی کچھ بول نہ سکے ۔

جاری ہے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题