ارمان دل

Published on March 23, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 861)      No Comments

Uzma
قسط نمبر 11
رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا
ارے تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟؟عابد صاحب بیڈ پر ٹیک لگاتے ہوئے کہنے لگے۔
کچھ نہیں ہو گا۔۔
اب جبکہ وہ کہہ رہی ہے کہ پیسے دے گی تو حرج ہی کیا ہے بھلا؟؟وہ نرم دلی سے بولی۔
حرج نہیں ۔۔مگر نا انصافی ہےیہ میری بیٹی کے ساتھ۔۔۔!!وہ گہرے دکھ سے بولے۔
پہلے بھیپچیس ہزار لے چکی ہو تم۔۔۔
اب یہ فضول خرچی کیوں؟؟؟
پتہ نہیں کن کن مشکلوں سے وہ کما رہی ہے۔۔۔
کم از کم کچھ تو خیال کرو۔۔۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔
تو کیا جہیز نہ دوں؟؟؟
ساری عمر باتیں سنتی رہے میری صبا؟؟؟؟
ایسا چاہتے ہیں آپ؟؟؟وہ دکھ سے چلائی ۔
دیکھو ثریا ۔۔۔!!!
دو۔۔۔جہیز۔۔۔۔لیکن اتنا نہیں کہ ان لوگوں کا مزید منہ کھلے ۔۔۔!!
وہ اس کو یوں دیکھ کر ذرا سنجیدگی سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے۔
دیکھ لینا ایک دن یہی جہیز مشکلیں کھڑی کرے گا ۔۔
خدارا۔۔۔عقل کرو۔۔۔۔!!وہ سمجھاتے ہوئے دکھی ہو گئے۔
آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ۔۔۔۔!!
صبا۔۔۔آ پ کی بیٹی نہیں۔۔۔!!وہ چلائی۔
دیکھو ۔۔۔ثریا۔۔۔۔!!
بات کو غلط رنگ نہ دو۔۔
میں نے ایسا کب کہا؟؟؟وہ غصہ سے بولے۔
مگر۔۔۔وہ مزید بات کررتے ہوئے بولی۔
آپ کی بے فکری یہی ظاہر کررہی ہے ۔۔۔!
دیکھو۔۔!!وہ غصہ کو کنٹرول کرتے ہوئے بات کرنے لگے۔
میں نے ہمیشہ صبا کو اپنی بیٹی سمجھا ہے۔۔
مگر۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔۔۔۔
مگر؟؟؟مگر کیا؟؟؟وہ انہیں بات مکمل کرنے کے لئے کہنے لگی ۔
تم میری مسکان کو ماں کا پیار نہ دے سکیں۔۔۔۔وہ بات کو واضح طور پر کرنے لگے۔
کیوں ایسا کیا کر دیا میں نے؟؟؟؟وہ غصہ سے بولیں۔
بچپن سے لے کر اب تک۔۔۔۔!
پڑھایا،لکھایا اور ابھی بھی میں۔۔۔!!! وہ مگرمچھ کےآنسو بہانے لگی۔
بس۔۔۔۔
چپ کر جاؤ۔۔۔
تمہارے رونے دھونے کا کوئی اثر نہیں ہونے والا مجھ پر۔۔۔
اور پڑھایا ،لکھایا ؟؟؟وہ طنز کرتے ہوئے اس کی بات دہرانے لگے ۔۔
حویلی سے آنے والے کرایے سے ہی اس کی تعلیم کا خرچہ پورا ہوتا رہا ۔۔
ورنہ تم چاہتی تو۔۔۔۔نوکرانی بنا کر رکھتی اسے۔۔۔وہ واضح طور پر بات کو کرتے ہوئے اس کو سمجھانے لگے۔
اور مت بھولو کہ تم نے جو کچھ بھی کیا صرف اپنی تسکین کی خاطر۔۔
لالچ کی خاطر۔۔۔۔!!وہ غصہ سے بولے۔
لالچ؟؟؟
مجھے کوئی لالچ نہیں۔۔۔وہ روتے ہوئے اچانک چپ سی کر گئی تھی۔
اور یہ چائے پئیں اور سو جایئے ۔وہ بات کو ختم کرتے ہوئے چائے پکڑانے لگی جو کہ ٹرے میں لے کر وہ
کمرےمیں آئی تھی۔
٭٭٭
ثریا کی عابدصاحب سے دوسری شادی ہوئی تھی۔اورثریا کا تعلق سندھ سے تھا۔۔صبا اس کے پہلے شوہر میں سے
اولاد تھی اور مسکان عابد صاحب کی پہلی بیوی میں سے اولاد تھی۔
ثریا کے بیوہ ہونے کے بعد اس کے گھر والوں کو ایسا شخص چاہئیے تھا جو کہ نا صرف ثریا کو بلکہ اس کی بیٹی
کو بھی سہارا دے اور اپنائے۔۔۔
دوسری طرف عابد صاحب کا تعلق پنجاب سے تھا ،ان کی اہلیہ کی وفات کے بعد ان کو مسکان کے لیئے ایسے ساتھ
کی ضرورت تھی جو ماں بن کر اس کو اپنائے ۔بس پھر ان دونوں کی شادی ہو تو گئی مگر ثریا نے مسکان کےساتھ
برا سلوک روا رکھا ۔ لاہور میں پنجاب کی زندگی سے تنگ آتے ہوئے ثریا نے سندھ میں رہنے کا فیصلہ کیا اور
حویلی کو کرایہ داروں کے حوالے کر دیا۔۔دن بہ دن جھگڑے سے نجات کے لئے داد ا،دادی نے بھی عابد صاحب
کو یہی مشورہ دیا کہ کراچی جانا ہی بہتر ہے،کم از کم ثریا کے مزاج میں بہتری تو آئے گی ،مگر بہتری آئی توتھی
وہ بھی مسکان کے ساتھ رویہ صرف مطلب کی حد تک ٹھیک رکھنے لگی۔
صبا تب صرف دس سال کی تھی اور مسکان تقریباََ پانچ ،چھ سال کی۔مگر اسے پنجاب سے انسیت تھی مگر اسے وہی
کرنا پڑا جو ثریا نے چاہا۔
٭٭٭
کچھ ہوا بندوبست؟؟؟ثریا اس سے پوچھتے ہوئے مسکرانے لگی۔۔
جی ۔۔امی ۔۔۔یہ لیجیئے ۔۔۔!بیگ سے ایک پیکٹ نکال کر دیتے ہوئے۔۔۔
جگ جھ جیو۔۔۔
اللہ تمہیں خوش رکھے میری بچی۔۔وہ اسے دعائیں دیتی ہوئی برقع پہننے لگیں۔۔۔!!
میں ذرا چیزیں لے آؤں۔۔۔!!وہ مسکراتے ہوئے بازار کی طرف روانہ ہو گئیں۔
جی۔۔۔!!وہ ثریا سے دعائیں وصول کرتے ہوئے بے حد مطمئن اور خود کو پر سکون محسوس کررہی تھی۔
جی۔۔۔
السلام علیکم ۔۔۔۔۔فون کی بیل بجتے ہی فوراََ ریسیو کرنےلگی۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔!!!جواد مسکرائے جا رہا تھا۔
مجھے مس مسکان آپ سے کچھ کام تھا۔شاطرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہ بولا۔
جی۔۔۔۔سر۔۔۔کہئیے؟؟؟؟وہ سنجیدگی سے بولی۔
آپ مل سکتی ہیں مجھے؟؟؟
جی۔۔۔۔!!مگر سر۔۔۔
سب ٹھیک تو ہے نا؟؟؟وہ پیشانی سے بولی۔
جی۔۔۔۔!!!
میں ویٹ کررہا ہوں آپ کا ۔۔۔وہ گاڑی کو سائیڈ پر لگاتے ہوئے اس کا انتظار کرنے لگا۔
گڑیا ۔۔۔!!فون رکھتے ہی گڑیا کو آواز لگانے لگی۔۔۔
جی۔۔۔۔آئی۔۔۔۔!!دوڑ کر آتے ہوئے وہ بولی۔
میں ذرا مارکیٹ تک جا رہی ہوں۔۔۔!!!
کنڈی لگا ؤ۔۔۔۔!!!
جی۔۔۔۔۔!!آپی نوڈلز لیتے آئیے گا۔۔۔۔!!فرمائش کرتے ہوئے وہ بولی۔
اچھا۔۔۔۔!!لے آؤں گی۔۔۔مسکراتے ہوئے وہ ہنسی۔
٭٭٭
آؤ بیٹھو۔۔۔۔ اسے روڈ پر کھڑا دیکھتے ہوئے گاڑی اس کے قریب لا کر رک گیا۔۔۔
جی۔۔۔ادھر ادھر دیکھنے کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔
کیسی ہیں آپ؟؟؟وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔
جی۔۔۔اللہ کا شکر ہے ۔۔۔۔!!
سر۔۔۔۔خیر تو ہے نا؟؟؟
اس وقت آپ نے ۔۔۔۔!!
اس کی بات کاٹتے ہوئے ۔۔۔
سب خیر ہی ہے۔۔۔!!
جانتی ہیں نا کہ میں نے آپ سےکہا تھا آپ کو میرا ایک کام کرنا ہوگا۔۔۔۔!!شاطرانہ مسکراتے ہوئے۔
جی۔۔۔۔!!!
کہئیے سر۔۔۔۔!!وہ کچھ گھبراتے ہوئے بولی۔
گھبرا کیوں رہی ہیں ؟؟؟؟وہ اس کو پریشان دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
ن۔نن۔۔نہیں تو۔۔۔۔!!ادھر ادھرنظر دوڑاتے ہوئے بمشکل مسکرائی۔
وہ انفیکٹ اس وقت مجھے یہاں آنا کچھ عجیب لگ رہا ہے۔وہ بمشکل مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
اوہ۔۔۔!!!اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے وہ بولا۔
اینی وے ۔۔۔آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔۔۔۔!!!
جی سر۔۔۔!!!وہ گردن ہلاتے ہوئے بولی۔
کام تو مشکل نہیں ہو گا۔۔۔اگر آپ کرنا چاہو تو ہم دونوں کا فائدہ ہو سکتا ہے۔۔وہ بات کی وضاحت کرنے لگا۔۔۔
جی۔۔۔۔!!کہیئے ۔۔۔وہ پوچھنے لگی۔۔
میں نے بڑا نوٹ کیا ہے ارمان کے دل میں آپ کے لئے کافی جگہ بن گئی ہے۔۔۔!!!
بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ آپ نے اپنے کام سے جگہ بنا لی ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔وہ کار ڈرائیوکرتے ہوئے
بولا۔
میں سجھی نہیں سر۔۔۔
آپ کے کام کا اس بات سے کیا تعلق؟؟وہ کشمکش میں مبتلا ہوتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔
بہت گہرا تعلق ہے مس مسکان۔۔۔!!
آپ کو ارمان سے محبت کا ڈرامہ کرنا ہوگا۔۔
اسے اپنی محبت کے جال میں ایسا پھانس دو کہ وہ سب کچھ بھول جائے۔۔۔
یہ کاروبار ۔۔
یہ روپیہ پیسہ سب۔۔وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے بولے جا رہا تھا۔۔۔جبکہ مسکان اس کی بات سننے کے بعد حیران
اور پریشان رہ گئی ۔۔۔بالکل ایسے جیسے کسی نے اسے دور سے پتھر دے مارا ہو۔۔۔
بس ۔۔۔۔اتنا۔۔۔۔۔!!
اور اس میں ہم دونوں کا فائدہ ہوگا۔۔۔وہ گاڑی کو کنارے لگاتا ہوا بولا۔
سر۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟؟
میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔وہ بے چین ہوتے ہوئے بولی۔
بھلا۔۔۔
یہ سب کچھ آپ مجھ سے ہی کیوں چاہتے ہیں۔۔۔
سوری میں نہیں کر سکتی۔۔۔!!
آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔۔۔
میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔وہ غصہ سے آگ بگولا ہوتے ہوئے بولی اور گاڑی کھولتے ہوئے باہر جانے لگی۔
سنو۔۔۔محترمہ۔۔۔۔!!
قیمت دے چکا ہوں تمہیں۔۔۔
اور اصولاََ جو میں کہہ رہا ہوں تم اس کی پابند ہو۔۔۔
وہ غصہ سے کہتے ہوئے آپ سے تم کہنے لگا اور اتنا سنتے ہی مسکان کی آنکھیں باہر کو آگئیں ۔وہ اس کا یہ لہجہ
دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی ۔
آپ زیادتی کررہے ہیں جواد سر۔۔۔۔!!
میں نے جولون لیا آپ کو تین چار ، ماہ تک دے دوں گی۔۔۔۔
اور سوری۔۔۔۔
مجھ سے ایسے کام کی امید لگانا بے کار ہے۔۔۔!وہ غصہ سے کہتے ہوئے گاڑی سے نکل گئی۔

جاری ہے

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes