ایبٹ آباد میں دن دیہاڑے بنک ڈکیتی

Published on November 23, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 240)      No Comments

\"rsid
ایک روز قبل ماڈل تھانہ میرپور کی حدود میں دن دیہاڑے ڈکیتی کی مسلح واردات میں ڈاکو بنک گارڈ کو زخمی کر کے پچاس لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے ہمارے نمائندوں کے مطابق ڈاکو گنجان آباد علاقہ سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے جبکہ چند ماہ میں ڈکیتی کی ہزارہ میں تیسری واردات تینوں اور تما ہی وارداتیں مختلف مقامات پر الائیڈ بنکوں میں ہی ہو چکی ہیں،واردات کے ارتکاب کیلئے چار مسلح ڈاکو منڈیاں بائی پاس روڈ باڑہ ٹاور کے قریب واقعہ الائیڈ بنک میں داخل ہوئے اور اس دوران بنک کے سیکورٹی گارڈ کو زخمی کر کے اسلحہ چھین لیا اور ساتھ ہی بنک کے عملہ کو واش روم میں بند کر کے بنک میں موجود پچاس لاکھ روپے کیش لے اڑے،جاتے جاتے ڈاکوؤں نے سی سی ٹی وی کیمر ے اور فوٹیج ریکارڈکے کمپیوٹر کو توڑ کر ریکارڈ بھی ساتھ لے گئے وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی ڈی آئی جی ہزارہ اختر حیات گنڈا پور ڈی پی او محمد علی گنڈا پور ایس پی انوسٹی گیشن ڈی ایس پی ہیڈکوارٹر موقع پر پہنچے اور علاقہ کی ناکہ بندی کر کے ڈاکوؤں کی تلاش شروع کر دی ہے عملہ کا کہنا ہے کہ انہیں یرغمال بنا کر بنک کے اندر چار ڈاکو داخل ہوئے جبکہ ایک باہرکھڑا رہا یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈاکو پشتو اور اردو بول رہے تھے،ہزارہ ڈویژن میں قیام امن کو تہہ بالا کرنے کیلئے گزشتہ چند برسوں سے جس طرح جرائم پیشہ عناصر نے اپنی کاروائیوں کا ادھر کا رُخ کر لیا ہے اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ اب آپریشن زدہ علاقوں سے جرائم پیشہ افراد نے ہزارہ ڈویژن ہی کے علاقوں کو گوشہ عافیت تصور کر لیا ہے اور انہوں نے ان ہی علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں،مانسہرہ،ہریپور اور ایبٹ سمیت ہزارہ بھر سے ہمارے نمائندوں کی جانب سے آئے روز افغانیوں اور بیرونی شہروں سے آئے ہوئے مشتبہ افراد سے متعلق ان کی مشکوک کاروائیوں کیساتھ کئی بار خدشات کا بھی اظہار کیا جا چکا ہے،ہماری بھی یہ کوشش رہی ہے کہ قیام امن کے حوالے سے جہاں تک ہوسکے انتظامیہ کے گوش گزار کر کے انہیں حالات سے باخبر رکھا جائے،ماہ محرم میں ہزارہ ڈویژن میں سیکورٹی خدشات بھی موجود تھے مگر جس طرح ڈویژنل انتظامیہ نے ہزارہ ڈویژن میں قیام امن کیلئے جس حکمت عملی کا مظاہرہ کیا وہ لائق تحسین اور ان کی کوششوں کا بھی اعتراف ہے کہ ہزارہ ڈویژن میں ماہ محرم کے پہلے عشرے میں سیکورٹی انتظامات اطمینان بخش رہے،گزشتہ روز ایبٹ آباد میں وقوع پذیر ہونے والے واقعہ میں جس طرح مسلح ڈاکؤں نے ایک نجی اور وہ بھی ایک چھوٹی بنک برانث کے عملہ کو یرغمال بنا کر ایک ایسے وقت میں کاروائی کی جب سہ پہر کے ان اوقات میں مذکورہ شاہراہ مصروف ترین ہو جاتی ہے،بنک کے اندر کثیر رقم کی موجودگی اور دن دیہاڑے اس طرح کی کاروائی اور وہ بھی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر کے قانون کو چیلنج کرنا اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ڈاکوؤں نے واردات کا ارتکاب مکمل پلاننگ کیساتھ کیا اور انہیں یہ بھی خبر لگ گئی کہ بنک میں اتنی رقم موجود ہے،اسی طرح چند روز قبل بھی ہریپور میں بھی الائیڈ بنکوں کو ہی نشانہ بنایا گیا اور ان بنکوں سے بھی اسی طرح رقم لوٹ کر مسلح ڈکیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے،انتظامی سطح پر واردات کا سراغ لگانے والوں کی کوششیں اپنی جگہ مگر اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنک حکام کو جب یہ معلوم ہو چکا کہ ان کے بنک ہی ٹارگٹ ہو رہے ہیں تو انہوں نے اس دوران سیکورٹی کے کیا انتظامات کیے؟بنک ملازمین اور عملہ کو ایک سیکورٹی کمپنی کے معمولی تنخواہ دار گارڈ کو سیکورٹی پر متعین کرنا اور اسے ممکنہ ضروریات سے بھی ہٹ کر محض دیکھ بھال تک ہی محدود رکھنا کیا سیکورٹی اور عملہ کا تحفظ ہے؟ ایسے حالات میں بنک حکام کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کہ کیا محض سی،سی،ٹی وی کیمروں کی تنصیب کر دینا ہی سیکورٹی کے اطمینان بخش اقدامات میں سے ہے جب عملہ کے افراد صرف سیکورٹی کیمروں میں اانے جانے والوں پر نظر ہی رکھ سکتے ہیں مگر کر کچھ بھی نہیں سکتے،دوسری جانب ایسے واقعات کا الزام صرف پولیس یا دیگر سیکورٹی پر مامور عملہ ہی کو دینا بھی غلط ہے کیونکہ ہزارہ ڈویژن میں گزشتہ چند ماہ کے دوران جو انوکھا پن صوبائی حکومت کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے وہ اعٰلی انتظامی افسران کی تعیناتیوں اور تبادلوں کا ہے جب انہیں اپنے پیشہ وارانہ امور سے ہٹ کر تبادلوں اور تعیناتیوں کیلئے بلیک میل کیا جانے لگے تو ان کی توجہ بھی اپنے پیشہ وارانہ امور سے ہٹ جاتی ہے،ہمارے ہاں ویسے بھی کارکردگی کو دیکھا نہیں بلکہ اسے ماپا جاتا ہے اور جو زیادہ خوشامدی ہو اسے اجافی اختیارات بھی مل جاتے ہیں اور اس پر کام کا بوجھ بھی ہلکا کر دیا جاتا ہے جبکہ کام کرنے والوں اور اصول پرستوں کیلئے مسائل کے انبار لگا دیے جاتے ہیں ،پچھلے چند ماہ کے دوران صوبائی سطح پر جرائم کی مجموعی شرح میں صوبائی حکمرانوں کے دعووں کے باوجود اضافہ ہی دیکھنا نصیب ہوا ہے، سنگین نوعیت سے لے کر معمول کے جرائم میں ہونے والا اضافہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر دلالت کرتا ہے،جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے بلاشبہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آچکا ہے، لیکن اس کے علاوہ خواتین کی عصمت دری، راہ چلتے افراد سے گاڑیاں، موبائل ٹیلیفون اور نقدی چھین لینا، دن دہاڑے کم سن بچوں کا اغوا برائے تاوان، تاوان نہ ملنے کی صورت میں ان کا وحشیانہ قتل، اندھے قتل کی وارداتیں، منشیات کی سرعام فروخت، بہتر روزگار کی فراہمی کی آڑ میں انسانی سمگلنگ اور ان سے زندگی بھر کی پونجی ہتھیانے کے واقعات، دن دہاڑے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں، پارکوں سے گاڑیوں کی چوری اور متعدد دوسرے جرائم میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی،شہریوں کا کہنا ہے کہصوبہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئی جرائم سے شہریوں میں نہ صرف جان و مال کے عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے بلکہ حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہو کر رہ گیا ہے،عدم تحفظ اور لاقانونیت میں اضافے کے باعث ملک میں سرمایہ کاری میں نہ صرف زبردست کمی آئی ہے جس نے قومی معیشت پر سخت ناخوشگوار اثرات مرتب کرنے کے علاوہ عام آدمی کی مشکلات و مسائل میں بھی اضافہ کیا بلکہ لوگوں کاسکون برباد ہو گیا ہے اور بیروزگاری، فاقہ کشی اور گرانی سے تنگ آئے ہوئے افراد بیوی بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں،ماہرین کیمطابق پاکستان بھر میں جرائم میں اضافہ کی ایک اہم اوربنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ امن و امان کے ذمہ داراور قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے، نسلی، ذاتی، گروہی اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان، بعض وزراء اور بعض سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام اورسیاستدان اپنے اپنے علاقے میں اپنے من پسند پولیس افسران اور اہلکاروں کی تعیناتی کروا لیتے ہیں اور اس طرح سفارش اور اقربا پروری کی بنیاد پر تعینات ہونے والے پولیس آفیسرز اور اہلکاراپنے آپ کو صرف دفاتر میں بیٹھے رہنے اور اپنے محسنوں کے اشاروں پر پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی تک محدودکرلیتے ہیں، وہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں،خیبر پختونخواہ گزشتہ چند عشروں کے دوران جس طرح بدامنی اور دہشت گردی سے دوچار صوبہ ہے ایسے میں محض زبانی کلامی وعدوں اور یقین دہانیوں سے اصلاح احوال ممکن نظر نہیںآرہی، ان اسباب میں بعض اعلیٰ افسران کے علاوہ بعض سیاسی جماعتوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا جو منظم جرائم پیشہ گروہوں اور جرائم پیشہ افراد کو اپنی سیاسی قوت و مقبولیت بڑھانے کے لئے استعما ل کرتے ہیں، بالخصوص انتخابات کے موقع پر عوام پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ وہ ان کے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیں پھر یہی افراد اور گروہ تھانوں میں اپنی مرضی کے افسر اور اہلکار تعینات کرالیتے ہیں،صورتحال اس حد تک نازک اور تشویشناک ہوچکی ہے کہ جرائم پیشہ افراد اورگروہوں نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں اور عوامی مشکلات و مسائل کا احساس و ادراک کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ قانون کے اعلیٰ حکام سرجوڑ کر بیٹھیں اور سنگین نوعیت کے جرائم میں ہونے والے اضافے کے اسباب و وجوہ کاپتہ چلانے کے بعد ان کے ازالے کی فکر کریں اور اس کے لئے مثبت اورنتیجہ خیز اقدامات اٹھانے میں تاخیر نہ کی جائے، اس لئے کہ ان جرائم پیشہ گروہوں اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد نے عوام اوربالخصوص سفید پوش افراد کا بھی جینا دوبھر کردیاہے ،
یہ حقیقت ہے کہجب تک اس ساری صورتحال کا ازالہ نہیں کیاجاتا اوراس کے لئے وضع کردہ لائحہ عمل کی موثر مانیٹرنگ کااہتمام نہیں کیا جاتا اصلاح احوال ممکن نہیں اوریہ صورتحال حکومت کی بدنامی اور ناقص کارکردگی کاباعث بنے گی،دوسری جانب ہزارہ ڈویشن میں قیام امن کی کوششوں کو چیلنج کرنے والے مذموم عناصر کی سرکوبی کیلئے بھی انتظامیہ کو اپنا محرک اور زمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،جس طرح ہم ابتدا میں ذکر کر چکے ہیں کہ ہزارہ کے تین مختلف مقامات پر ایک ہی نجی بنکوں کی شاخوں میں ہونے والی وارداتوں کا ایسے وقت میں رونما ہونا جب بنکوں میں کثیر رقم کی موجودگی کی اطلاع ڈاکوؤں تک پہنچ جائے تو کہیں نہ کہیں سے شاہد چوروں کیساتھ ملا ہوا دکھائی ملتا ہے،اس لیے وارداتوں کا ارتکاب کرنے والوں کی نہ صرف گرفتاری ضروری ہے بلکہ انہیں نشان عبرت بنا کر ہی اہلیان ہزارہ کو اضطرابی کیفیت سے نکال باہر کیا جا سکتا ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog