خوف

Published on March 31, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 599)      No Comments

index
خوف۔۔۔کس سے ؟ ملک کے رکھوالوں سے یعنی پولیس سے ۔۔۔۔جی ہاں !جس فورس کوعوام کی جان ومال ،عزت و آبرو کا محافظ گردانا جاتا ہے اس فورس سے ڈر خطرہ ہے۔ایک سوال تو ذہن میں آتا ہے کہ آخر پولیس کا محکمہ تو بذات خود عوام کی جان ومال کا تحفظ کرتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پولیس کا محکمہ صرف غریب عوام کو ڈرانے دھمکانے کا کام سرانجام دے رہا ہے کیا پولیس عوام کی حکمران ہے خادم نہیں۔۔۔۔؟
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پولیس عوام کو ڈرانے دھمکانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی عزت نفس کی حفاظت کرتی ہے اس کے برعکس ہماری پولیس پرامن عوام کی محافظ اور خادم ہونے کا صرف دعویٰ کرتی ہے عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ہمارے ہاں شہری پولیس کو دیکھ کر خوف و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے بنیاد الزام لگا کرتھانے میں بندکردیا جائے ،پولیس کا تھانے کے اندر جسمانی تشدد کرنے کا ایک ایسا خوف ہے جو عام آدمی پر ہر وقت طاری رہتا ہے یہ خوف نہ صرف غریب آدمی میں ہے بلکہ ہر شہری جو جرائم پیشہ نہیں ہے لیکن دولت اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ان پر غالب رہتا ہے ایسے لوگ ہمیشہ پولیس سے دور بھاگتے ہیں بے شک ان کے سامنے ہی کسی مجرم نے جرم کیا ہواور وہ چشم دید گواہ بھی ہو لیکن پولیس کی کاروائیوں سے بچنے کے لیے یہ لوگ راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور چپ سادھ لیتے ہیں کچھ لوگ پولیس کے رویے سے خوف زدہ ہونے کی بناء پر اپنی ذات برادری کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھتے ہیں کہ آڑھے وقت میں یہ لوگ کام آسکیں ایسے لوگ ہی اپنی ذات برادری میں اگر کوئی سیاست کے میدان میں ہے تواس کو ہرممکن کامیاب کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔چاہے وہ اس کا اہل ہو یا نہ ہو ایسے سب لوگوں کی خاندان کے ہمراہ تمام ووٹ ایسے شخص کے لیے ہوتے ہیں جو تھانہ کچہری سے ان کو بچا لیتا ہے ۔ایک اٹھارویں گریٹ کا آفیسر جس کو اس مقام پر پہنچتے پہنچتے برسوں گزر گئے اور ایک نا اہل سیاست دان کیا فرق رہ جاتا ہے کہ ان کے پاس ایک جیسے اختیارات ہوتے ہیں ہمارے معاشرے میں بہت سے معصوم لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کا چنا ہوا سیاسی لیڈر مالی معاملات میں کتنا بددیانت ہے وہ تو اس امید پر ایسے ناہل لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے پولیس ان بے گناہ لوگوں پر ہاتھ نہ ڈال سکے اور اس کے برعکس کسی اچھے کردار اور مخلص شخص کو سیاست میں کامیاب نہیں کرواتے ،علاقے کے لو گ ایسے قابل شخص کی ذاتی طور پر عزت تو کرتے ہیں لیکن ان کے خیال میں ایسا شخص مشکل وقت میں ان کی مدد نہیں کر سکے گاکیونکہ ان کی پہنچ پولیس تک ممکن نہیں ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر قانون کوسختی سے لاگو کیا جائے تو پولیس بلاوجہ کسی شخص پر جسمانی تشدد نہ کر سکے ۔اگر یہ ہو جائے تو ہماری ملکی سیاست پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو نگے ۔ پھر دیانت دار اور اہل لوگ ہی اسمبلیوں تک پہنچ پائیں گے ہم میں سے بہت سے لوگو ں کو ترقی یافتہ ممالک کا ہر نظام اچھا لگتا ہے اور ایسے ممالک کی عوام کی خوشحالی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی پولیس سہی معنوں میں عوام کی خدمت کرتی ہے اور وہاں عوام خواہ مخواہ کی دہشت اور خوف سے آزاد ہے ایسے ملکوں میں عوام کی عزت نفس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، اور ان کی عدالتیں اور قانون عوام کی جان ومال کی محافظ ہوتی ہیں ۔
لیکن افسوس در افسوس۔۔۔۔ہماری پولیس بھی منہ زور ہے اور ہمارے سیاست دان بھی ۔۔۔۔۔۔یہاں سیاست دان کا راج چلتا ہے جد ھر چاہیں گے جیسے چاہیں گے پولیس کا استعمال کر لیں گے بغیر تحقیق کیے خواہ مخواہ شہریوں سے سخت لہجے میں بات کرنا تو ان کا شیوہ ہی بن گیا ہے ۔ بغیر ثبوت کے تھانے میں کم از کم آدمی کوخوب ہراساں کیا جاتا ہے جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔ہمارے ہاں شریف شہری اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ظلم اور ناانصافی کے خلاف پولیس کے پاس داد رسی کے لیے جانا پسند نہیں کر تے چونکہ پولیس کا رویہ مظلوم کی داد رسی کے بجائے پہلے سے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے صرف ان کی جیب پر نظر ہوتی ہے اگر کوئی مقدمہ درج کروانے والا پولیس کی خدمت کرے تو اس کا مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے ۔
ہمارے ملک کے پولیس سٹیشن کا حال دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پولیس کا رویہ کیسا ہو گا؟ اور نہ جانے کیا کیا جرم ایک عام آدمی کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے ہوں گے یہ بات کہنا ضروی ہے کہ اگر کوئی فرد پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو کافی عرصہ تک اس کو جیل میں ہی سڑنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے اہل خانہ کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ ضمانت کروا سکیں اس صورت حال سے بچنے کے لیے کچھ غریب لوگ علامہ کے وڈیروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی سر پر بیٹھا لیتے ہیں کہ کم از کم وہ اپنے اثرورسوخ سے پولیس سے جان تو چھڑوا لیتے ہیں ۔جب تک ہمارے معاشرے سے ناانصافی ،رشوت اور شاہی راج ختم نہیں ہونگے تب تک بہت سے لوگ ایسی مصیبتوں کا سامنا کرتے رہیں گے اور بہت سے بے گناہ لوگ ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے پولیس اتنا طاقتورنہ ہونے دیا جائے کہ وہ بغیر کسی ثبوت یا وجہ کے کسی بھی شہری کوتھانے میں بلوا سکے یاان کو ڈرادھمکا سکے۔ہر شہری کو آزادی سے اور اپنی حد میں رہ کر جینے کا پورا حق ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ معاشرے میں اچھے اور برے،نیکوں بد ہر طر ح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ہماری پولیس کو چاہیے کہ وہ عوام کی محافظ بنے نہ کہ ان کی دل آزاری کا باعث :۔ایک اچھا دیانت دار اور باکردار پولیس آفیسر کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتااور نہ لوگوں کو ہراساں کرتا ہے ۔ہمیں اچھے محنتی اورسچے حب الوطن پولیس آٖفیسر کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پولیس کا رویہ درست ہوگاتو ملک میں امن و امان کی صورت بھی برقرار رہے گی۔۔۔۔۔ذرا سو چیئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes