ارمان دل

Published on May 15, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 1,033)      No Comments

Uzma
رائٹڑ ۔۔۔ عظمی صبا
قسط14
زندگی نے مجھے کیسے موڑ پرلا کھڑا کر دیا۔۔۔!
اگر بات نہ مانوں تو سوتیلے پن کا طعنہ ۔۔۔!
اور اگر مان لوں تو خوشامد اتنی کہ جی چاہتا ہے زمین کھلے اور اس میں سما جاؤں۔۔۔۔
زندگی کی دوڑ اللہ کے ہاتھ میں توہے۔۔۔مگر یہ اللہ تعالی مجھ ہی سے کیوں چاہتے ہیں؟؟
ہر بار۔۔۔ہر بار میں ہی قربانی دیتی ہوں۔۔۔اور بدلے میں صرف اذیت ہی کیوں ملتی ہے؟؟؟
کیوں؟؟؟؟
جب چاہیں وہ اس ڈور کو گرہ لگا دیں او رجب چاہیں تب کاٹ دیں ۔۔۔۔۔!
کیوں اللہ نے میری زندگی کی ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں رکھی؟؟؟کیا میرا خوشیوں پہ کوئی حق نہیں؟؟
محبت کا ڈرامہ کرنا ۔۔۔
کیا یہی میرے لئے ہے؟؟؟
اب راستہ بھی تو کوئی نہیں بچا میرے لئے؟؟
سوائے اس کی بات ماننے کو۔۔۔!!وہ اشک بار ہوتے ہوئے اپنے دل کا حال ڈائری پر تحریر کر رہی تھی۔۔۔
٭٭٭
جواد۔۔۔!!اس کو جگاتے ہوئے
اٹھ جائیے۔۔۔!!
فریش ہو جائیے ۔۔۔!! چائے کا کپ پاس پڑی میز پر رکھتے ہوئے ۔
ہاں!!!اچھا۔۔۔۔آنکھیں ملتا ہوا بمشکل اٹھ کر بیٹھا گیا۔
رات کو فون بج رہا تھا آپ کا۔۔۔1!
فون؟؟؟کس کا تھاََ؟؟؟؟پریشان ہوکر اس سے پوچھتے ہوئے۔
پتہ نہیں ۔۔۔دیکھا نہیں میں نے۔۔
آپ چیک کر لیجئیے گا۔۔۔!!
ام م م ۔۔۔اس نے آنکھیں ملتے ہوئے موبائل کو آن کر کے دیکھا ۔
اس نے رات کے تین بجے فون کیوں کیا؟؟؟خود سے کہتے ہوئے ۔۔
خیریت ہے نا جواد؟؟ فکر مندی سے پوچھنے لگی۔
ہاں ۔۔خیر ہی ہے ۔۔۔
گاؤں سے چچا کا فون تھا ۔۔۔
چچی بیمار ہیں بہت۔۔۔۔شاید اسی لئے کیا ہو۔۔۔
خیر ۔۔۔میں پتہ کرتا ہوں ۔۔۔!بات کو بدلتے ہوئے اسے بتانے لگا۔
اچھا ۔۔۔۔رسما کو تیار کر دو۔۔
میں فریش ہو کر آتا ہوں ۔۔۔مسکراتے ہوئےا س سے کہنے لگا ۔۔
جی۔۔۔۔!!وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔۔
لگتا ہے مان گئی ۔۔۔!!دل میں کہتے ہوئے اس کو فون ملانےلگا۔
کہو کیا بات ہے؟؟؟
کیوں فون کیا تھا تم نے؟؟؟و ہ ذرا اکڑ کر بات کرتے ہوئے بولا۔
وہ۔۔۔
سر۔۔۔۔مجھے آپ کی شرط منظور ہے ۔۔۔1!وہ دل پر پتھر رکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔
لیکن ۔۔۔!!وہ کہتے کہتے رکی۔
لیکن؟؟؟ لیکن کیا؟؟؟؟ وہ اس کی بات کو پورا جاننے کے لیے بولا۔
مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔۔۔!!
ہاں۔۔۔!!
کیوں نہیں ۔۔۔!!
ضرور ۔۔!!وہ فاتحانہ مسکراہٹ دیتے ہوئے کہنے لگا جبکہ مسکان اندر ہی اندر سےکٹ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭
پیسے دیتے ہی کیسے اماں کے دل میں میرے لئے محبت پیدا ہوگئی؟؟؟شام کے پہر میں وہ کبوتروں کو باجرہ ڈالتے
ہوئےسوچنے لگی۔
ایسا لگتا ہے جیسے محبت کوخریدا ہو میں نے۔۔۔۔
اور مجھے کسی نے۔۔۔!!!وہ سرد آہ بھرتے ہوئےخشک آنسو لئے سوچنے لگی۔۔۔
میں بھی اب پرندوں کی طرح قید ہو گئی ہوں اب۔۔۔
واقعی آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔۔۔۔وہ یہ سوچتے ہوئے باجرہ کی پلیٹ ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے پرندوں کا پنجرہ
کھولنے لگی۔
بیٹی یہ کیا کررہی ہو تم؟؟؟اسے پرندوں کو اڑاتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگے۔۔۔!!
کچھ نہیں دادا جان۔۔۔۔۔۔!!!!
دیکھیئے نا!آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔۔۔۔!!
کتنا خوش ہیں نا یہ پرندے۔۔۔!پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں کو سنتے ہوئے پرجوش ہوئی۔
بیٹی ۔۔۔۔وہ تو سب ٹھیک ہے مگر۔۔۔!!
اگر مگر ۔۔کچھ نہیں دادا جان ۔۔۔!!وہ داداجان کہتے ہیں نا۔۔۔۔
آزادی کی قدر تب ہی ہوتی ہے جب انسان قید میں ہو۔۔
شاید میرے علاوہ ان کا درد بھی تو کوئی نہیں سمجھ سکتا نا!وہ گہرے سنجیدہ لہجہ میں کہہ رہی تھی جب کہ دادا
جان اس کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔۔۔!!
دادا جان!!!
یہ کیا؟؟
یہ واپس کیوں آرہے ہیں؟؟؟ وہ پرندوں کو واپس آتا دیکھ کر دادا جان سے پوچھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں چمک
سی آگئی ۔
تم نے میری بچی یہ تو سناہے۔۔
آزادی کی قدر تب ہوتی ہے جب انسان قید میں ہو ،مگر شاید ہی نہیں جانتی کہ ہر ایک کو اپنے ٹھکانے سے بہت
محبت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اس سے محبت ہوتی ہے جو رات دن اس کا خیال رکھتے ہیں۔"یعنی کہ تم"۔۔۔وہ
مسکراتے ہوئے اسے سمجھا رہے تھے جس پر وہ مسکراتے ہوئےچمک اٹھی ۔
چند لمحوں کے لیے تو یہ پرندے دوست ہوا میں سانس لینے کے لئے چلے تو گئے مگر تمہاری محبت ان کو کھینچ
لائی ہے ۔۔۔۔!!وہ دادا جان کی بات سنتے ہوئے پرجوش ہو رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی تھی۔وہ
کبوتروں کو پکڑتے ہوئے ان کو پیار کرنے لگی۔
٭٭٭
اچھا دادی۔
دعا کیجیئے گا آج۔۔۔
سب کا م بہتری سے ہو جائیں۔۔۔مسکان چادی کے دن کالے جوڑے میں ملبوس ہلکے پنک کلر کے میک اپ کیئے تیار
تھی۔۔۔
آمین۔۔۔آمین۔۔۔وہ دلی دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگیں۔
صبا ہو گئی تیار ؟؟؟
جی۔۔۔۔!وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
کیسی لگ رہی ہوں میں؟؟؟گڑیا نیلے لباس میں ملبوس بھاگتے ہوئے آرہی تھی۔
آرام سے آرام سے۔۔۔!!!
گر نہ جانا۔۔۔!!دادی اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔
بہت ہی خوبصورت۔۔۔ہمیشہ کی طرح۔۔۔!وہ اس کی تعریف کرتے ہوئے مسکرائی ۔۔
ارے بھئی لڑکیو۔۔۔!
ادھر آؤ۔۔۔!!وہ اونچی آواز سے بولتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔
مہمانوں کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔ثریا تیزی سے بولی۔
نکاح ہونے والا ہے ۔۔۔!!
اور تم لوگوں کی باتیں ہی ختم نہیں ہو رہیں ۔۔۔وہ غصہ کرتے ہوئے بولی۔
بس۔۔آہی رہے ہیں امی۔۔۔۔وہ بمشکل مسکراتے ہوئے ان کا غصہ والا لہجہ دیکھ کر پریشان ہو گئی۔۔۔
یہ زویا کہاں ہے؟؟؟؟
آئی نہیں ابھی تک؟؟ثریا زویا کے بارے میں پوچھتے ہوئے ٹیبل پر مٹھائی کی پلیٹ اٹھانے لگی۔
پتہ نہیں۔۔۔ میں فون کر کے پوچھتے ہوں۔۔۔مسکان جلدی سے فون ملانے لگی۔
٭٭٭
صبا میرون لباس میں ملبوس جیولری پہنے اور میک اپ کیے بیڈ پر بیٹھی مسکرا رہی تھی۔۔۔یہ وہ دن تھا جس کا اس
نے دل میں ارمان جاگنے کے بعد ہر پل انتظار کیا تھا۔
بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ آ پی۔۔۔۔گڑیا اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
ہاں ۔۔۔واقعی۔۔۔۔!!زویا روم میں داخل ہوتے ہوئے کہنے لگی۔
آگئی تم۔۔۔
مل گئی فرصت؟؟مسکان اس سے گلہ کرتے ہوئے بولی۔
اب تمہارے گلے شروع ہوگئے۔۔۔۔
فکر نہ کرو تمہاری شادی پہ دس دن پہلے ہی آ جاؤں گی۔۔۔وہ اسے تنگ کرتے ہوئے بولی۔
اچھا۔۔۔۔چپ رہو تم تو۔۔۔۔۔!!!وہ اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
ارے واہ۔۔۔۔۔صبا۔۔۔!!
کتنا جچ رہا ہے نا!یہ رنگ آپ پہ۔۔۔
ہے نا مسکان۔۔۔۔۔وہ صبا سے کہتے ہوئے مسکان کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔
ہاں۔۔۔!!وہ مسکراتے ہوئے زویا سے کہنے لگی۔
آئیے !مولوی صاحب ۔۔۔!!بابا جان اور دادا جان مولوی صاحب کو کمرے میں لے کر آتے ہوئے کہنے لگے۔کمرے میں
موجود تمام لڑکیوں نے اپنا اپنا سر ڈھانپا اور صبا کے سر پر بھی چادر اوڑھا دی۔۔۔!!
٭٭٭
مبارک ہو۔۔۔۔!!
مبارک ہو۔۔۔۔!!نکاح کے فوراَََ بعد ہی بابا جان اور دادا جان باہر موجود لوگوں سے مبارک باد وصول کرتے ہوئے بہت
خوش تھے۔۔۔سبھی مطمئن اور پر سکون تھے اور سب سے بڑھ کر ثریا بہت خوش تھی۔
مسکان۔۔۔۔!!!نکاح کے بعد صبا مسکا ن کو اپنے پاس رکنے کا کہتے ہوئے بلانے لگی۔۔
جی۔۔۔۔!!!وہ زویا اور گڑیا کے ساتھ واپس جاتے ہوئے مڑی۔
مجھے کچھ تم سے بات کرنی ہے۔۔۔بیٹھو۔۔۔۔!!!وہ مسکراتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لئے کہہ رہی تھی۔
ا م م م۔۔۔وہ ایک نظر زویا کی طرف دیکھ کر دوسری نظر گڑیا کی طرف ڈالی۔۔۔۔
تم دونوں جاؤ۔۔۔۔!!!
میں آتی ہوں۔۔۔۔ان دونوں سے مسکراتے ہوئے کہہ کر صبا کے پاس بیٹھ گئی۔
کیا ہوا؟؟؟مسکراتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔
مسکان۔۔۔۔!!!
مجھے معاف کر دینا۔۔۔اگر کبھی میری وجہ سے تمہیں۔۔۔۔!!!
وہ بات کرتے کرتے آنکھ بھر آئی ۔
صبا؟؟؟ٹوکتے ہوئے وہ اسے منع کرنے لگی۔
کچھ نہیں ہوا کبھی آپ کی وجہ سے۔۔۔۔۔!!!
پلیز۔۔۔۔!!!!
آج کے دن رونا دوھونا نہیں بلکہ ہنسنا ہنسانا ہونا چاہیئے نا؟
وہ مسکراتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔
ہاں۔۔۔۔!!!وہ دھیما سا مسکرائی مگر صبا کا دل اندر ہی اندر پریشان ہو رہا تھا۔
تم کتنا پیار کرتی ہو نا ہم سے۔۔۔۔!!!
اور امی سے بھی۔۔۔۔۔
مگر امی۔۔۔۔!!!وہ تاسف سے کہتے کہتے رک گئی۔۔۔جس پر مسکان بھی افسردہ سی ہو گئی۔
امی بھی بہت پیار کرتی ہیں مجھ سے۔۔۔۔!!!
بس !وہ واضح نہیں کرواتیں۔۔۔۔وہ بمشکل ہنستے ہوئے بات کا رخ بدل رہی تھی۔
اور دیکھ لینا۔۔۔
وہ دن دور نہیں جب وہ بھی سب کے سامنے اپنائیں گی مجھے۔۔۔
وہ مسکراتے مسکراتے سنہری خواب بننے لگی ۔
انشاءاللہ۔۔۔۔صبا اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔
اچھا۔۔۔۔آپ اب ذرا ان کے بارے میں سپنے بنیں۔۔۔
میں تب تک باہر مہمانوں میں جاتی ہوں۔وہ مسکراتے اس کو شرارتی انداز میں تنگ کرنے لگی اور پھر اٹھ کر باہر
آگئی۔
٭٭٭

جاری ہے

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog