ایک سوال

Published on June 27, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 547)      No Comments

Malik
میں نے حال ہی میں ایف۔ ایس۔ سی کی ہے اور اب اللہ کے فضل و کرم سے یو۔ای۔ ٹی پشاور سے انجنیئرنگ کر رہا ہوں تقریبا ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے پشاور سے مانسہرہ دوران سفر ایک شخص سے سلام دعا ہوئی یہ شخص مجھے بات چیت کے انداز سے انتہائی مہذب پڑھا لکھا اور زندگی کے اتار چر اؤ سے حاصل ہونے والے تجربات سے مستفید لگا ۔چونکہ میری عادت ہے کہ میں ایسے لوگوں سے جتنا ممکن ہو سکے سیکھنے کی کوکشش کرتا ہوں لہذا میں نے ان سے اجازت لینے کے بعد سوالات کے انبار لگا دیے جب وہ مجھے سب سوالات کے جوابات انتہائی احسن طریقے سے دے چکے تو آخر میں ایک سوال اس شخص نے بھی مجھ سے کیا اور پھرہوا وہ ہی کہ ’’سو سنار کی ایک لو ہار کی ‘‘میں سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔یقیناًآپ سوچ رہے ہوں گے کہ سوال ریاضی یا فزکس سے متعلق ہو گا جس میں جمع منفی کا حساب کتاب ہو گا تو آپ غلط سوچ رہے ہیں اگر وہ جمع منفی کا سوال کرتا تو میں زیادہ سے زیادہ سات آٹھ منٹ میں جواب دے ہی دیتا مگر اس نے جو سوال کیا اس کا جواب میں سات آٹھ دن سے تلاش کر رہا ہوں ۔۔۔اب آپ بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ بھلا ایسا کیا سوال ہو سکتا ہے ؟۔۔۔۔ یقیناًپہلے تو آپ وہ سوال پڑھ کر خوب ہنسیں گے کہ آیا یہ بھی کوئی سوال تھا جسے بے وقوف ایک ہفتے سے سوچ رہا ہے لیکن جب آپ پورا کالم پڑھ لیں گے تو مجھے اتنا یقین ضرور ہے کہ آپ نے اگر کچھ اور نہ بھی کیا تو کم از کم دوبارہ اس سوال کو پڑھ کر ہنسیں گے نہیں ۔۔۔تو جناب پہلے تو آپ ہنسنے کیلئے تیار ہو جائیں کیونکہ میں سوال بتاتے جا رہا ہوں انکا سوال تھا بیٹا! تم انجنیئرنگ کیوں کر رہے ہو؟؟؟۔۔۔۔۔یقیناًآپ ضرور سوچ رھے ھوں گے کہ آیا یہ کوئی سوال ہے جس کاجواب یہ سات آٹھ دن سے سوچ رہا ہے ۔۔۔آپ کے ذہن میں مختلف سوال گردش کررہے ہوں گے کہ اس نے جواب اسلیے نہیں دیا ہو گا ۔پہلا سوال تو یہ ہو گا کہ انجنیئرنگ کوئی برُا شعبہ ہے تب ۔۔۔ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ شاید میں انجنیئرنگ ہی نہیں کر رہا۔۔۔جھوٹ بول رہا ہوں اور اس شخص سے بھی جھوٹ بولا ہو گا تب ہی جب اس نے سوال کیا تو میں ہچکچا گیا اور جواب نہ دے سکا توب جناب ایسی کوئی بات نہیں ہے نہ تو میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ ہی انجنیئرنگ کوئی برُا شعبہ ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کا ہر طالبعلم انجنیئرنگ میں داخلے کا خوائشمند ہوتا ہے ۔۔یقیناًاب آپ اور زیادہ حیران ہیں کہ میں نے پھر جواب کیوں نہیں دیا ۔۔۔تو جناب میں بتا دیتا ہوں کہ میں نے جواب کیوں نہیں دیا۔۔۔دراصل انہوں نے مجھ سے جو سوال کیا تھا اس کا ملطب تھا کہ میں انجنیئرنگ ہی کیوں کر رہا ہوں ۔۔۔میں ڈاکٹری،صحافت،سیاست وغیرہ کیوں نہیں پڑھا رہا ؟میں انجنیئر ہی کیوں بننا چاہتا ہوں ؟میں ڈاکٹر ،صحافی،استاد،سیاستدان ،عالم وغیر ہ وغیرہ کیوں نہیں بننا چاہتا ؟۔۔۔۔۔تو جناب میں انہیں کوئی بھی جواب دے دیتا ۔۔۔اگر مجھے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا تو میں کوئی بھی جواب دے کر فارمیلٹی پوری کر دیتا انہیں وہ جواب دیتا جو عموماً لوگ دیتے ہیں مثلاً مجھے شوق ہے ،والدین کا شوق ہے یا ملک کی خدمت وغیرہ وغیرہ مگر میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا بلکہ ان کا موبائل نمبر لے لیا اور کچھ وقت مانگ لیا اور وعدہ کیا کہ میں آپ کے سوال کا جواب جلد دوں گا ۔۔۔اب آپ ہنس رہے ہوں گے کہ یہ بھی عجیب انسان ہے………………………. تو سنیے جناب جب اس شخص نے مجھ سے سوال کیا تو میں پانچ سال پیچھے چلا گیا جب میں ساتویں جماعت میں تھا اور ساتویں جماعت کا طالب علم بارہ یا تیرہ سال کا ہوتا ہے مجھے وہ وقت یاد آیا جب ہم سب جماعت والوں کو ایک فارم تھمایا گیا جس میں دو خانے بنے ہوئے تھے ایک میں لکھا تھا پری انجنئرنگ اورہمیں آدھے گھنٹے کا وقت دیا گیا کہ ایک خانہ پرُ کر دیں ( یقیناًآپ میں سے کئی لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کہنا چاہتا ہوں )۔۔۔۔آگے سنیے جناب ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں ہزاروں سکول ہیں ۔۔۔سب پری انجنئرنگ اور پری میڈیکل کروا رہے ہیں ۔۔۔تقریباً سب ہی سکولوں کے سربراہاں تعلیم تعلیم کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے ۔۔۔۔اگر ایک کلاس میں پچاس طالب علم ہیں تو ان میں سے پانچ انجنیئر اورپانچ ڈاکٹر بھی ماشا اللہ سے بنتے ہیں ۔۔اکثریت طالبعلموں کو جا کر میٹرک میں سمجھ آتی ہے کہ وہ پڑھ کیا رہے تھے اور بعض کو تب بھی نہیں آتی ۔۔۔پچاس میں سے چالیس طالبعلم جن میں خدا تعالیٰ نے انجنیئر اور ڈاکٹر کے علاوہ ہزاروں صلاحتیں پیدا کی تھیں ان کے دس بارہ سال قیمتی ہیرا پھیر ی کی نظر ہو جاتے ہیں کیونکہ اگروہ کسی اعلیٰ ادارے میں بھی پڑ ھتے ہوں تو انہیں مجبوراًپری انجنئرنگ یا پری میڈیکل چننا پڑتی ہے ۔۔۔۔جی ہاں جناب ایسا ہی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو میں سوال کرتا ہوں علم کے ٹھیکیداروں سے جب تمام سکولوں میں ایک جیسا ہی پڑھا یا جاتا ہے پچاس میں سے دس طالبعلم تیر جا تے ہیں اورتقریباً چالیس ڈوب جاتے ہیں تو کسی مائی کے لال نے آج تک کوئی ایسا سکول کیوں نہیں کھولا جہاں یہ پتا لگا یا جا سکے کہ اس بچے یا بچی میں کون سی صلاحیتیں موجود ہیں ؟یہ کیا بن پائے گا؟۔۔۔اگرکوئی ایسا سکول ہوتا اورپچاس میں سے پانچ ڈاکٹر ،پانچ انجنیئر،پا نچ بہترین استاد،پانچ بہترین سیاستدان،پانچ بہترین صحافی وغیرہ وغیرہ بن جاتے تو بہتر نہ ہو تا ؟یقیناًاب آپ کے ذہن میں یہ سوال امڈا ہو گاکہ استاد،صحافی،سیاستدان تو بعد میں بھی بنا جا سکتا ہے۔۔۔تو جناب وہ صرف صحافی، صرف سیاستدان ،صرف استاد بنا جا سکتا،بہترین صحافی ،بہترین استاد نہیں ۔۔۔کیونکہ جب دو مختلف بندوں کو جن میں ایک دوسرے سے مختلف صلاحتیں ہیں ان کو آپ ایک جیساہی پڑھا ئیں گے یقیناًایک لازمی ڈوبے گا۔۔۔سوائے ایک فیصد لوگوں کی میں بات نہیں کرتا جو خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ۔۔۔تو میں سوال پوچھتا ہوں مانسہرہ،ایبٹ آبادکے علم دانوں سے کیا میں غلط کہہ رہا ہوں یا ٹھیک ؟ میں سوال پوچھتا ہوں کہ ایک غریب،محنت کش،اور اپنے دل میں علم کی قدر رکھنے ولا شخص جو خود تو بعض و جوہات کی بنا پر نہیں پڑھ سکا تھا اپنے بچے کو بہت بڑا آدمی بنانا چاہتا ہو گا اس کے بیٹے میں استاد،عالم، بزنس مین بننے کی صلاحیتیں موجود ہوں گی آپ کس قاعدے ضابطے کے تحت اس کو پری انجنئرنگ کرواتے رہے ہیں آپ نے اسے پری ٹیچنگ کیوں نہیں کروائی ؟سکولوں کے شہر میں ایسا صرف ایک بھی ایسا سکول کیوں نہیں ہے ؟جہاں بچوں کو پرکھا جا سکے ؟اگر مانسہرہ میں ایک ہزار ایک سکول ہیں تو میرا سوال ہے اس سکول کے بنانے والے سے جس نے ایک ہزار سکول ہوتے ہوئے سکول کھولا کہ اگر مانسہرہ میں ایک ہزار سکول موجود تھے اور ان میں بھی وہی مضمون پڑھائے جاتے ہیں تو اس نے کس سوچ کے تحت سکول کھولا؟کیا اسے بزنس جمانے کا کوئی اور راستہ نہیں ملا تھا؟کیا اس کا ضمیر مطمئن تھا ؟اگر ایک سکول موجود ہے اس سکول کے راستے میں ایک اور سکول بنا دینا تاکہ آدھے بچے میری طرف آجائیں کیا ہماری سوچ یہاں تک ہی پہنچتی ہے ؟میرا سوال ان والدین سے بھی ہے جو اپنے بچوں کو زبردستی ڈاکٹر اورانجنیئر بنانے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں کہ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ آپ کا بیٹا ڈاکٹر بنے گا ؟نعوذ باللہ آپ پر وحی اتری ہے ؟اگر دہشتگردوں نے پشاور میں معصوم بچوں کی تمام صلاحیتیں دو منٹ میں ختم کی ہیں تو آپ آہستہ آہستہ ختم کررہے ہیں ۔۔۔اس کی مثال اپ یوں لے لیں کہ آپ کا بیٹا کراچی والی گاڑی میں بیٹھنا چاہتا ہے اور آپ اسے گلگت والی گاڑی میں زبردستی بیٹھا دیں ۔۔۔میر اسوال ان تمام ساتھیوں سے بھی ہے جو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد دو تین سال سے گھر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا یہ انسانیت کا تقاضا نہیں ہے کہ بندہ خود جس سوراخ سے ڈھنسے دوسرے کو اس سے بچائے؟اگر ہے تو وہ پاؤں پر پاؤں رکھ کر بیٹھنے کے بجائے اس کیخلاف آواز کیوں نہیں اٹھا تے ؟میرا سوال ہے ان استادوں سے کہ جب دنیا کے ہر شعبے میں تبدیلی آرہی ہے اور ہر چیزبہتر سے بہترین کی طرف جارہی ہے تو وہ تعلیم کے شعبے میں تبدیلی لانے کیلئے کوشاں کیوں نہیں ؟بھلا وہ کوشش کریں گے بھی تو کس طرح ؟؟انہوں نے تو خود آج سے تیس چالیس سال پہلے تعلیم حاصل کی تھی وہ موجودہ دور کے تقاضوں کو کیا سمجھیں گے ( جس کا ذکر میں اپنے ایک کالم میں تفصیل سے کر چکا ہوں)آحر میں آج میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اور کسی نے کچھ کیا یا نہ کیا میں خود ایسا سکول لازمی بناؤں گا ۔۔میں ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کروں گا جب فارغ اوقات میں بچوں کو کھلا چھوڑا جائے گا تو وہ بچوں کا بغور جائزہ لیں گے کہ کونسا بچہ کیا کر رہا ہے اور کیا کر سکتا ہے ۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سب بچوں کو پرکھ لیں گے لیکن اتنا ضرور کر دیں گے کہ میرا ضمیر مطمئن ہو جائے گا ۔۔۔۔میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر کالماتی صفحے پر جگہ محدود ہونے کے سبب بہت سی چیزیں کاٹنی پڑیں ۔۔اسی لئے میں نے کالم کیساتھ اپنا موبائل نمبر درج کیا ہے اگر کسی کے ذہن میں کوئی شک یا سوال ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے ۔۔۔اور وہ لوگ جو میری ان باتوں سے اتفاق نہیں کرتے تو براہ مہربانی اس کالم کے جتنے بھی جملوں کے آگے میں نے سوالیہ نشان ڈالے ہیں ان کے جوابات مجھے دے دیں اور اگر وہ ان سوالات کے جوابات مجھے دینا پسند نہیں کرتے تو کم از کم مجھے اتنا ضرور بتا دیں کہ میں اس اجنبی شخص کو کیا جواب دوں ؟جس کے سوال کا جواب ایک ہفتے سے میں سوچ رہا ہوں ؟؟؟؟ میں انجینیرنگ کیوں کر رہاں ہوں؟؟؟؟

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes