ہے دعا’’یاد ‘‘مگر حرف دعا یاد نہیں ۔۔۔ساغر صدیقی کی 41ویں برسی منائی گئی

Published on July 20, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 1,467)      No Comments

0
علم و ادب کے موتی اور شاعری کی انمول دولت سے مالامال یہ فقیر زندگی بھر دنیا سے بے نیاز رہا
لاہور (یو این پی) چار دہائیاں پہلے لاہور کی سڑکوں پر ایک مجذوب شاعر نظر آیا کرتا تھا۔ علم و ادب کے موتی اور شاعری کی انمول دولت سے مالامال یہ فقیر زندگی بھر دنیا سے بے نیاز رہا۔ اپنی شاعری کے ساغر سے بنجر ذہنوں کو سیراب کرنے والے ساغر صدیقی نے زندہ دلی میں مشہور خطے پر زندگی ایک جبر مسلسل کی طرح کاٹی۔تفصیلات کے مطابق ساغر صدیقی ایک شاعر جس نے درد کی دولت کو عام کیا۔ لوگ تو مرنے کے بعد قبروں میں اتار دیے جاتے ہیں لیکن ساغر صدیقی نے خود کو مار کر اپنی لاش کو تماشہ بنا دیا تھا۔ وہ اپنی لاش اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے اور سر جھکائے نظر آتا تھا۔لاہور میں لوگ کئی برس تک ایک مجذوب کو دیکھتے رہے جو لاشہ تھا ہمارے معاشرے کی بے اعتنائیوں کا۔ وہ شاید عمر بھرکسی ایسے عشق کی دنیا میں زندہ رہا جو دنیا اس کے لیے آباد ہی نہیں تھی۔ ساغر صدیقی نے زندگی کے آخری کئی سال ایک میلے اور پھٹے ہوئے کمبل میں گزار دیے۔ساغر صایقی کو نشے کی لت نے بہت سارے لوگوں کو شاعر بنا دیا۔ لوگ نشے کی پڑیا یا چند سکوں کے عوض ساغر صدیقی سے اس کا کلام خرید لیا کرتے تھے۔ یونی ویژن نیوز کے مطابق اس درویش شاعر کی لاش انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح انارکلی بازار کے قریب سڑک کے کنارے ملی جسے ان کے جاننے والوں نے میانی صاحب لے جا کر دفنا دیا۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes