انصاف کا حصول

Published on July 24, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 857)      No Comments

Saleem
تحریر ۔۔۔ حاجی محمد سلیم
مہذب دنیا نے اچھا کام کرنے والے کی جانچ کے پیمانے طے کر رکھے ہیں۔لیکن ہمارے معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنے والے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دنیا کی روایت ہے کہ کسی قابل ستائش عمل کے لیے لوگوں کے دل میں ایک فرد سے متعلق تحسین کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔جو شخص اپنے فرئض کی ادائیگی کی جدوجہد میں ہوتا ہے اس کے لیے ذہنی مریضوں کی منفی سوچ کوئی معنی نہیں رکھتی ۔وہ ایسی ٹیڑھی سوچ سے بے نیاز اپنی ڈگر پر منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔ٹانگ کھینچنے والے احساس برتری کا شکار ہوتے ہیںیہی احساس بعض اوقات انسان کو نفسیاتی مریض بھی بنا دیتا ہے ۔میرا ایسے مفکر فلاسفرعلم ودانش کے دعوے داروں سے ہمیشہ فکری اختلاف رہا ہے ۔ہمارے معاشرے میں ایسے بڑے صاحب علم مفکر کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔اور معاشرے کا اپنا الگ ماحول بھی ہوتا ہے ۔جو مختلف اوقات میں بدلتا رہتا ہے ۔لیکن ایسے دہنی مریضوں پر معاشرے کی یہ تبدیلی اثر انداز نہیں ہوتی ان کا فلسفہ کوئی تبدیلی محسوس کیے بغیر ایک ہی پٹڑی پر چلے جاتا ہے کسی کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھ کر دلی طور پر جیلسی کا ابال انھیں اوچھے پن پر مجبور کردیتا ہے ۔ معاشرے کے اندر موجود خامیوں کو اجاگر کرنا جتنا آسان ہے اس کا خاتمہ کرنا اس سے زیادہ مشکل کام ہے ہم تنقید برائے اصلاح تو کرتے ہیں ہی لیکن تنقید برائے تنقید کرنے سے بھی گریزنہیں کرتے اور یہ تنقید کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ معاشرے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے اگر ہم اپنے گرد ونواح میں نظر ڈالیں تو ہر شخص دوسرے پر تنقید کرتا ہوا نظر آئے گا کوئی معاشرتی برائیوں کا ذمہ دار سیاست دان کو ٹھہرائے گا تو کوئی بیوروکریٹس کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے وہ اس سسٹم سے بغاوت کرنے کا اشارہ تو دے رہے ہوتے ہیں لیکن وقت آنے پر گم ہو جاتے ہیں اپنے گریبان میں دیکھنا گوارہ نہیں کرتے کہ ہم نے معاشرے میں کیامثبت کردار ادا کیا ہے خیر تیسری دنیا کا یہ محکمہ پولیس واحد محکمہ ہے جس پر اعتماد کرنامشکل ہی نہیں ناممکن بن چکا ہے۔ کبھی کراچی کاپس اور کبھی پنجاب پولیس گردی کی وجہ سے اس محکمہ کو بھرپور انداز میں بدنام کیا جا چکا ہے ۔جبکہ اس میں چند مفاد پرست عناصر ہی ہیں جو سیاست کاآلہ کار بن کر اپنی ساری برادری کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگانے میں کردار ادا کرتے ہیں جس کی سزا 24گھنٹے اپنے فرئض ادا کرنے والے فرض شناس افسران کو بھی بھگتنا پڑتی ہے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو فرائض کی بجاآوری کے لیے کسی قسم کے سیاسی دباؤسے بالا تر ہوکر عام آدمی کی مشکلات کے حل کے لیے سرگرداں رہتے ہیں مگر ہمارے اندر کرپشن کا عفریت اس قدر پھیل چکا ہے کہ یہ فرض شناس ،پرہیزگار اور متقی افسران بھی مجبور ہو کر سسٹم سے بغاوت نہیں کر سکتے اور اس بوسیدہ سسٹم کی نظر ہو جاتے ہیں مگرحق کے راستے پہ چلنے والوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہیکہ وہ اکثر تنہارہ جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر خیبر پختون خواہ میں پولیس سسٹم میں تبدیلی آچکی ہے مگر پنجاب پولیس سیاست دانوں کے زرخرید غلام بن کر رہ گئی ہے سیاسی قزاق اپنی منشاء کے مطابق جیسے چاہیں استعمال کرتے ہیں عام آدمی انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے سیاست دان اپنے سیاسی حریفوں کو دبانے کے لیے پولیس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اپنے مفادت کے حصول کے لیے پنجاب پولیس کے دامن کو بھی داغدارکرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ جس کا خمیازہ فرض شناس پولیس افسران کو بھگتنا پڑتا ہے یہ سسٹم تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک سیاسی مداخلت کا خاتمہ نہ کیا جائے پنجاب کے تھانوں میں تین سے چار لاکھ کی لاگت سے قائم کئے جانے والے وی آئی پی فرنٹ ڈسک جن کا کام صرف درخوست گزار سے درخواست وصول کرنا ہے ان ڈیسکوں کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے لیکن شائد اس کااصل مقصد عوام کو پولیس ملازمین کی تلخی سے بچانا بھی ہے دراصل سپاہی سے لے کر تفتیشی تک کو کوئی دوسری مخلوق تصور کیا جاتا ہے جن پرانسانی حقوق لاگو نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو ان پر ڈھائے جانے والے محکمانہ مظالم نظر آتے ہیں 24گھنٹے ڈیوٹی کرنیوالے یہ ملازم کسی بھی تہوار یا اپنوں کے دکھ درد سے بے نیاز جانوروں سے بدتر تھانوں کی رہائش میں گزارا کرنے پر مجبور ہیں ۔جن کی عزت نفس کسی بھی لمحے مجروح کردی جاتی ہے یا تو بااثر شخصیت ہو یا اعلیٰ افسر وہ یس سر کہنے پر مجبور ہوتا ہے مہذب معاشرے میں کسی کی عزت نفس مجروح کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہوتا ۔میری نظر میں اسکی سب سے بڑی وجہ سہولیات کا فقدان بھی ہے اس محکمہ کا اصل ورکر ایک سپاہی ہوتا ہے تنخواہ اٹھارہ ہزار سے چوبیس ہزار تک ہے جو کہ بہت مہنگاہی کے اس دور میں بہت کم ہے اور دوسرا جب سپاہی تھکا ہارا ڈیوٹی سے واپس آتا ہے تو اس کے لئے نہ میس کا انتظام ہے اور نہ ہی دھوبی میسر ہے اس لئے سارے کام اسے خود سے کرنے پڑتے ہیں جو کہ ایک تکلیف دہ امر ہے اس کے علاوہ جب کوئی تفتیشی کسی بھی کیس کی تفتیش شروع کرتا ہے تونقل رپٹ، گاڑی اور کھانا کے اخراجات اسے اپنی جیبخود سے ادا کرنے پڑتے ہیں کیونکہ کے اخراجات اور کلیم کے لئے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ چالان جاتے ہی اکاؤنٹ میں جمع ہوتے اور تنخواہ کے ساتھ کلیم کلیئر ہوتے مگر انتظار کی اس کوفت سے بچنے کے لئے تفتیشی یا تو کلیم جمع ہی نہیں کرتے یا مدعی کے اخراجات پر تفتیش کا عمل شروع کرتے ہیں جو محکمہ کی کارکردگی کے لئے بدنامی کا باعث ہے اس کے علاوہ پکٹ سسٹم بھی کرپشن کا باعث بنتا ہے کیونکہ ناکہ سسٹم پولیس کے لئے بدنامی کا باعث بنتا ہے دوسرا پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان بھی اس محکمہ کی بدنامی کا سبب بنتا ہے اس لئے لمبی لمبی توندوں والی چند کالی بھیڑیں سیاسی لٹیروں کے اعلٰی کار بن کر بے لگام ہو جاتے ہیں اور اپنے آقاؤں کے حکم پر ہر جائز اور ناجائز کام سے اجتناب نہیں کرتے ۔ پولیس کے اندر اس سیاسی مداخلت کا بھی بہت بڑا نقصان ہے جو فرض شناس افسران کے حوصلے پست کردیتا ہے اور انکی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اورانصاف کا حصول عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے بلکہ ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے ہوں گئے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Themes