پاکستان مخالف نعرہ کسی صورت قبول نہیں ؛ ترجمان پاک فوج

Published on September 1, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 465)      No Comments

  index
داعش کے ہمدردوں کو گرفت میں لیا گیا، ان کی افغانستان میں موجودگی بھی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے،
پاکستان میں ان کا سایہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا، کراچی آپریشن کے نتیجے میں دہشتگردی میں 74فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 94، بھتہ خوری میں 95فیصد اور اغوا کی وارداتوں میں 89فیصد کمی واقع ہوئی
پاکستان مردہ باد کے نعرے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں،پاکستان مخالفت بیانات دینے والا شخص برطانوی شہری ہے
چیلنج کو سمجھتے ہوئے پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ پر کام شروع کیا اور تمام کراسنگ پوائنٹس پر گیٹ بنائے جائیں گے،
اور عملہ تعینات کیا جائے گا،پاکستان میں اچھے اور برے طالبان کا کوئی تصور نہیں، ہم نے آپریشن شروع کرنے سے قبل کہا تھا کہ یہ بلاتفریق ہوگا اور بلا رنگ و نسل کارروائی کی جائے گی
زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی استحکام آیا ہے اور باہر سے ہونے والا پروپیگنڈہ وہی لوگ کررہے ہیں،
جنہیں یہاں مسترد کیا جاچکا ہے،پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ہماری قربانیاں بھی یاد رکھیں،
ہم ایک عظیم قوم ہیں اور اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور افواج کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ہے
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹرجنرل کی میڈیا بریفنگ
اسلام آباد(یوا ین پی)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ ہے کہ ضرب عضب کی وجہ سے ملک بھر میں پرتشدد واقعات کی شرح میں کمی آئی اور ہم اسے مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے پر عزم ہیں، داعش کے ہمدردوں کو گرفت میں لیا گیا، ان کی افغانستان میں موجودگی بھی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے پاکستان میں ان کا سایہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا، کراچی آپریشن کے نتیجے میں دہشتگردی میں 74فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 94، بھتہ خوری میں 95فیصد اور اغوا کی وارداتوں میں 89فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ رینجرز کے 30اہلکار شہید اور 89زخمی ہوئے،پاکستان مردہ باد کے نعرے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں،پاکستان مخالفت بیانات دینے والا شخص برطانوی شہری ہے، چیلنج کو سمجھتے ہوئے پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ پر کام شروع کیا اور تمام کراسنگ پوائنٹس پر گیٹ بنائے جائیں گے اور عملہ تعینات کیا جائے گا،پاکستان میں اچھے اور برے طالبان کا کوئی تصور نہیں، ہم نے آپریشن شروع کرنے سے قبل کہا تھا کہ یہ بلاتفریق ہوگا اور بلا رنگ و نسل کارروائی کی جائے گی، زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی استحکام آیا ہے اور باہر سے ہونے والا پروپیگنڈہ وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں یہاں مسترد کیا جاچکا ہے،پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ہماری قربانیاں بھی یاد رکھیں، ہم ایک عظیم قوم ہیں اور اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور افواج کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ہے۔جمعرات کو راولپنڈی میں آئی ایس پی آر کے میڈیا سنٹر میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب بلاتفریق کیا گیا، 15 جون 2014 کو آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور اس آپریشن کے حوالے سے کئی گائیڈ لائنز طے کی گئی تھیں جن میں سے اہم ترین گائیڈلائنز یہ تھیں کہ آپریشن بلاتفریق ہوگا، دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا،شہریوں اور املاک کے نقصان سے بچنے کی کوشش کی جائے گی اور انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے ہماری قربانیاں بھی یاد رکھیں، 2014میں ملک میں ہر وقت دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے، 2014ملک میں صرف آئی ای ڈی کے 311دھماکے ہوئے، اس کے علاوہ بڑے دھماکے 74اور26 خود کش دھماکے ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جون 2014میں کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ہوا، اسی سال ایف سی کے 23جوانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا اور ان کی گردنوں سے فٹبال کھیلا گیا جس کے بعد 15جون 2014کو آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہوا۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باوجوہ کا کہنا تھا کہ جب آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو شمالی وزیرستان دہشت گردی کا گڑھ تھا، وہاں بھتہ وصول کیا جاتا تھا اور کوئی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن ہمارے جوانوں نے قربانیاں دے کر شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کیا، وہاں سے بڑی مقدار میں بارودی مواد قبضے میں لیا، ان کے ٹھکانے تباہ کئے اور وہاں ایک ایک گھر، مسجد اور اسکول کو کلیئر کیا، انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہو چکا ہے اور اب شوال کا علاقہ اب سوئٹزلینڈ اور پیرس جیسا بن چکا ہے، وہاں صرف چلغوزے کی فصل سے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیرستان سے بھاگنے والے دہشت گردوں کا خیبر ایجنسی میں بھی پیچھا کیا۔ فاٹا سے بھی دہشت گردوں کے تمام سلیپر سیل ختم کر دیئے ہیں اور وہاں عوام کی مرضی کے مطابق اصلاحات لائی جا رہی ہیں، ملک سے دہش گردی کے خاتمے کے بعد انتہا پسندی کا بھی خاتمہ کرنا ہے۔ جب آپریشن شروع ہوا تو اس وقت کوئی شمالی وزیرستان جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور یہ علاقہ ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی کا مرکز بنا ہوا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب شمالی وزیرستان میں آپریشن کرکے دتہ خیل تک پہنچے تو وادی کو کلیئر کیا اور جب فوج سرحد کی طرف جارہی تھی تو کچھ دہشتگرد افغانستان سے ہوتے ہوئے خیبر ایجنسی میں چلے گئے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب دہشتگرد خیبر ایجنسی میں اکھٹا ہونا شروع ہوئے تو ہم نے خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے وہاں بھی آپریشن شروع کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگاہ کیا گیا،افغان صدر، افغان فوج اور دیگر حکام کو آگاہ کیا گیا اور درخواست کی گئی کہ سرحد کے دوسری طرف تمام ضروری اقدام کریں اور بھاگ کر وہاں جانے والے دہشتگروں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔عاصم باجوہ نے بتایا کہ آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود اور نفرت انگیز مواد ضبط کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ دہشتگردوں نے اتنا بارود اکھٹا کررکھا تھا کہ اگر اس سے روزانہ پانچ بم بناتے تو 21 سال تک یہ مواد چل سکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیر ستان انتہائی مشکل علاقہ ہے لیکن سردی اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر پاک فوج کے جوانوں نے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس سے بھی زیادہ مشکل خیبر ایجنسی کے علاقے تھے، یہاں برفانی پہاڑیاں تھیں اور یہاں مورچے بنے ہوئے تھے، یہاں ہمارا بہت زیادہ نقصان ہوا۔عاانہوں نے کہا کہ ٹی ڈی پیز ایک بہت بڑا چیلنج تھا، ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، ٹی ڈی پیز کی بحالی کا کام بھی بہت مشکل تھا، اس سال کے آخر تک تمام ٹی ڈی پیزکو واپس بھیجنے کامنصوبہ ہے،وہاں سے آنیوالے لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، ٹی ڈی پیز کی واپسی کاسلسلہ شروع ہوچکا، 66فی صد واپس جاچکے جبکہ 34فیصد ابھی باقی ہیں ۔ اس علاقے میں معاشی ترقی کے لئے سینکڑوں کلومیٹر کے روڈ تعمیر کیے گیے ہیں جو کہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان اکانومک کاریڈور کا کام انجام دیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر ایجنسی میں 900دہشتگرد مارے اور وہاں ہر طرح کا دہشتگرد مارا اور ان کے نیٹ ورک ختم کیے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کامیابیاں ایسے ہی حاصل نہیں کیں، صرف ضرب عضب میں 535شہید 2272زخمی ہوئے۔ضرب عضب کی کامیابیوں کی وجہ سے ملک بھر میں پرتشدد واقعات کی شرح میں کمی آئی اور ہم اسے مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے پر عزم ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور 66 فیصد آئی ڈی پیز واپس جاچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب تک ملک بھر میں 168کومبنگ آپریشنزہوچکے ہیں اور جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے ہم کومبنگ آپریشن کرتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ داعش کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیں گے، داعش نے ہمارے علاقوں میں بھی پہنچنے کی کوشش کی۔10جنوری 2015کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں نے داعش کی بیعت کی اور یہ بیعت افغانستان میں کی گئی اور وہیں سے ویڈیو ریلیز کی گئی، 26جنوری کو مشرق وسطی سے ان کی بیعت قبول ہونے کا پیغام آیا۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر داعش سے تعلق رکھنے والے 309افراد گرفتار کیا جن میں 25غیر ملکی تھے، 157چھوٹے گروپس بھی ملوث تھے، لوگوں کو ہزار ہزار روپے دے کر بھی کا چاکنگ کرائی جاتی تھی اور ان لوگوں کا داعش سے تعلق صرف ہزار روپے کا ہی تھا۔انہوں نے کہا کہ داعش مشرقی وسطی سے دنیا بھر میں پھیلی، داعش نے پاکستان میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا، انہوں نے بتایا کہ حافظ عمر داعش میں پاکستان کا امیر تھا اس نے 15قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شہید کیا اور میڈیا ہاسز پر بھی حملے کیے۔عاصم باجوہ نے کہا کہ داعش اب صرف مشرقی افغانستان کے کچھ علاقوں میں باقی رہ گئی ہے جب کہ پاکستان میں داعش گروپ 25افراد پر مشتمل تھا اور حافظ عمر اس کا کمانڈر تھا، حافظ عمر نے 315افراد کو نشانہ بنایا اور 15سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا، داعش سے تعلق کے الزام میں 309افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے، افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں مداخلت روکنے کے لئے پاک افغان بارڈز کے 18 کراسنگ پوائنٹ پر گیٹ لگائیں گے۔ اچھے اور برے طالبان کا تصور ختم کر کے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق آپریشن کیا گیا۔افغانستان میں داعش سرحد کے قریب چوکیاں بنارہے ہیں لیکن پاکستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے ۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اعلان کیا کہ داعش سمیت کسی دہشت گرد کو پاکستان میں نہیں چھوڑیں گے ۔کراچی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایک ٹیلی فون پر پورا شہر جل جاتا تھا اور 40سے 50افراد کا مرجانا معمولی سی بات تھی لیکن جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری آپریشن کے باعث حالات میں کافی بہتری آ چکی ہے، شہر قائد میں امن کے لئے رینجرز کے جوان قربانیاں دے رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں دہشتگردی میں 74فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 94، بھتہ خوری میں 95فیصد اور اغوا کی وارداتوں میں 89فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ رینجرز کے 30اہلکار شہید اور 89زخمی ہوئے، 22اگست کے حملوں کے مجرموں کو چھوڑیں گے نہیں، 22اگست کے واقعہ پر متحدہ کی ٹاپ لیڈرشپ کو رینجرز ہیڈ کوارٹر بلایا گیا اور ان سے واقعہ میں ملوث افراد سے متعلق پوچھا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش کے ہمدردوں کو بھی گرفت میں لیا گیا اور ان کی افغانستان میں موجودگی بھی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے پاکستان میں ان کا سایہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آنے والے دنوں میں کچھ ایکشن ہوں گے کچھ ہوچکے ہیں، پاکستان مردہ باد کے نعرے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں،پاکستان مخالفت بیانات دینے والا شخص برطانوی شہری ہے۔انہوں نے الطاف حسین کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپ ایک ایسے شخص کی بات کررہے ہیں جو یہاں سے 5ہزار کلو میٹر دور کسی دوسرے ملک میں بیٹھا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر وہ پاکستان مخالف کوئی بات کرتے ہیں تو وہ کسی طرح سے کسی بھی پاکستانی کو قبول نہیں ہوسکتا،آپ یہ بات کررہے ہیں کہ انہوں نے فوج یا کسی اور ادارے کو کچھ کہا، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس شخص نے پاکستان کے خلاف بات کی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ پاکستان میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسے مسترد نہ کیا ہو، حکومت اس کے خلاف ایکشن لے رہی ہے، گرفتار لوگوں سے تحقیقات ہورہی ہیں، سندھ حکومت بھی کارروائیاں کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کی 26سو کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں 18بڑے کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں، دونوں طرف قبائل آباد ہیں، اس چیلنج کو سمجھتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ پر کام شروع کیا اور تمام کراسنگ پوائنٹس پر گیٹ بنائے جائیں گے اور عملہ تعینات کیا جائے گا۔پاکستان میں 30لاکھ افغان مہاجرین ہیں ان ہی میں آکر چھپنے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈنا بھی بڑا چیلنج ہے، ان کی باوقار واپسی کے بعد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی واپسی حکومت کا مسئلہ ہے، ہمارا کام صرف سیکیورٹی کی حد تک محدود ہے، فاٹا کو کلیئر کرنے کے بعد ہم نے بارڈر مینجمنٹ کا کام شروع کیا اور طورخم پر گیٹ کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑی تھی۔انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے دیے گئے بیان پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اچھے اور برے طالبان کا کوئی تصور نہیں، ہم نے آپریشن شروع کرنے سے قبل کہا تھا کہ یہ بلاتفریق ہوگا اور بلا رنگ و نسل کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان سمیت تمام دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور اس حوالے سے بیان درست نہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہا۔بلوچستان کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے بیان کا رد عمل آپ نے بلوچستان میں دیکھ لیا۔انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی استحکام آیا ہے اور فوج نے بحیثیت ادارہ بہت تعاون کیا ہے، باہر سے ہونے والا پروپیگنڈہ وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں یہاں مسترد کیا جاچکا ہے۔بلوچستان میں مثبت چیزیں بھی ہورہی ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہیے، کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد ایک نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان میں ہندوستانی مداخلت ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان 106ارب ڈالر کی قیمت ادا کر چکا ہے، آپریشن ضرب عضب میں اب تک 3500دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ آپریشن کے باعث بے گھر ہونے والے 56فیصد افراد اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا خطرہ ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، دہشت گردوں کے خلاف کام عزم مصمم کی طرح جاری ہے۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی فتنہ بن چکی ہے، تمام ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں، پیرس، برسلز اور امریکا میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے اس لئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے گلوبل ریسپانس ہونا بھی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں اور اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور افواج کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme