پتھر نامہ

Published on November 19, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 708)      No Comments

arifتحریر عباس عارفی،عارف والا
اگر ہم ملکی اور معاشرتی حالات پر نظر ڈالیں تو ہفت پیکر استاد اور ادیب ڈاکٹر پروفیسر اکرم عتیقؔ (گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج، وہاڑی) جن کا تعلق عارف والاکی سر زمین سے ہے کی تین پتھریلی غزلیں نہ صرف پڑھنے والوں کی انقلابی روح بیدار کرتی ہیں بلکہ موجودہ حکمران اور معاشرہ کے بے حس طبقہ کے منہ پر تمانچہ بھی مارنے کی کوشش کرتی ہیں۔آج اگر ہم غور کریں تو ہم بالکل بے حس ہو چکے ہیں۔ہماری روحیں مردہ ہو چکی ہیں۔ہماری صفیں ٹوٹ چکی ہیں۔ہم بھوسہ بھرے ہوئے لوگ بن چکے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم پتھر کے زمانے میں گھوم پھر رہے ہیں۔مسائل سے گھرے اس مسائلستان میں اگر کوئی اپنے حق کے لیئے آواز بلند کرتا ہے تو اس کی زبان کو گتھی سے کھینچنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے اور اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم وبربریت اور نا انصافی پر چیختا ہے اور ارباب اختیار کے دربار میں زنجیر عدل کو جنبش دیتاہے تو اس کی آواز اور آہ و پکارپتھروں سے ٹکرا کر اسی کے پاس واپس آ جاتی ہے۔ جن لوگوں نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنا ہے اور اداروں کے مسائل کو منظر عام پر لانا ہے نوٹوں کی چمک دمک سے ان کی آنکھیں چندھیا چکی ہیں اور وہ اپنے منصب کو بھول چکے ہیں۔ڈاکٹر پروفیسر اکرم عتیق ؔ معاشرے کی نمائندگی کرتے ہوئے نہ صرف موجودہ حکمران طبقہ پر کڑی تنقید کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں رہنے والے افراد کی بے حسی پر بھی طنزکرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں بحر حال اکرم عتیق نے اپنے اس ’’ پتھر نامہ‘‘ کے ذریعہ عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے آپ احباب کے ذوق کی نظر کر رہا ہوں۔
سر بہ سر سنگ ہو بہ ہو پتھر
چلتے پھرتے ہیں چار سو پتھر
گھر سے نکلیں تو کس طرف جائیں
نظر آتے ہیں کو بہ کو پتھر
کتنے شیشوں کو توڑنے کے بعد
ہو کے بیٹھے ہیں قبلہ رو پتھر
وہ تھا چپ چاپ اور میں گم سم
یعنی پتھر کے رو برو پتھر
اک طرف دل ہے دوسری جانب
ایک سے ایک خوب رو پتھر
جو وفا کی تلاش میں نکلا
ہو گئی اس کی جستجو پتھر
مجھ کو شیشہ سمجھ کے کھا نہ فریب
ہے یہ بہتر کہ تو نہ چھو پتھر
ایک شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں
ایک میں اور ایک تو پتھر
پھول ہاتھوں میں تحفتاََ لے کر
ملنے آئے ہیں تند خو پتھر
پتھرو بس کرو نہ برسو اب
ہو چکے ہیں لہو لہو پتھر
پھوڑ کر خود عتیقؔ سر اپنا
کر دئیے ہم نے سرخرو پتھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کام کے ہیں نہ کاج کے پتھر
ہم فقط احتجاج کے پتھر
داستاں درد کی سنا نہ ہمیں
ہم ہیں ظالم سماج کے پتھر
ہے چمک اپنی گرچہ ہیروں سی
اصل میں ہم ہیں آج کے پتھر
ہر گھڑی ٹھوکروں پہ رہتے ہیں
تخت کے ہیں نہ تاج کے پتھر
حاکم وقت نے خرید لیئے
شہر میں احتجاج کے پتھر
پھوڑئیے اے عتیقؔ سر ان سے
ہیں مسیحا علاج کے پتھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسردہ تھے اور نہ پشیمان تھے پتھر
خود اپنے ہی نقصان سے انجان تھے پتھر
وہ شہر جو میرے لیئے کوفے کی طرح تھا
اس شہر جفا کار کے انسان تھے پتھر
گلیوں میں نظر آتے ہیں اب گھومتے پرتے
پتھر کے زمانے میں تو بے جان تھے پتھر
لوٹا ہوں سفر سے تو بس یاد ہے اتنا
شیشے سے بنے شہر کی پہچان تھے پتھر
کیا بات عتیق ؔ ان سے کوئی عدل کی کرتا
اس مجلس انصاف کے ارکان تھے پتھر
شاعر:ڈاکٹر پروفیسر اکرم عتیقؔ

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes