کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

Published on December 6, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 566)      No Comments
shafqat

تحریر:شفقت اللہ

ہلاکو خان نے جب معتصم بااللہ کو شکست دینے کے بعد اس کی سلطنت پر بادشاہت قائم کر لی تو اس کے بعد اس نے معتصم با اللہ اور اس کے مقید وزراء کو دعوت پر بلایا ۔دعوت میں بیش بہا اقسام کے کھانوں کے ساتھ سونے کے برتن بھی رکھے اور معتصم با اللہ کو کہا کھاؤ !جب کھانا ختم ہو گیا تو اس نے معتصم با اللہ کو کہا کہ یہ سونے کے برتن بھی کھاؤ جس پر معتصم بااللہ نے حیرت سے ہلاکو خان کو دیکھا اور کہا بھلا برتن میں کیسے کھا سکتا ہوں !تو ہلاکو خان نے کہا جیسے تم نے انسانوں کو اپنے دورحکومت میں کھایا اور اتنا زیادہ خزانہ اکٹھا کیا ہے اسی طرح یا تو اس خزانے سے اپنے فوجیوں کو تلواریں بنوا کر دیتا جس سے وہ میرے ساتھ جنگ کرتے نہیں تو اب تمہیں اسے کھانا پڑے گا ۔ جس کے بعد ہلاکو خان نے معتصم بااللہ اور اس کے وزراء کو قالین میں لپٹا کر چوراہے میں پھینک دیا اور اوپر سے گھوڑے دوڑا دیئے مؤرخین لکھتے ہیں کہ معتصم بااللہ اپنے دور کا نہایت نا قابل اور ظالم حکمران تھا وہ سلطنت کے خزانے کو انجمن افزائش نسل کیلئے استعمال کرتا اور ذات پات اور امیر و غریب کے تعصب کا حامی تھا غریبوں پر بے جا ٹیکس لگا کر ان کا خون چوستا جس کی وجہ سے اس کی رعایا ا س سے بہت مایوس تھی جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب دیا کہ تاتاریوں کے ہاتھوں شکست دلوائی اور عبرت ناک موت دی تاریخ اس طرح کے عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن انسان ہے کہ سبق نہیں سیکھتا ۔پاکستان میں دو طرح کے پاکستان ہیں ایک حکمران کا پاکستان اور ایک محکوموں کا پاکستان حکمرانوں کیلئے پاکستان کسی جنت سے کم نہیں جبکہ محکوموں پر ہر طرح سے عذاب ہی عذاب ہے قانون حکمرانوں کیلئے الگ محکوموں کیلئے الگ حکمرانوں کے بچے بیرون ملک عیش کریں اور محکوموں کے بچے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دو وقت کی روٹی کا انتظار کریں حکمرانوں کی حمایت میں غیر ملکی شہزادے گواہیاں دیں جبکہ محکوموں کیلئے سو پاکستانیوں کی گواہی بھی نا قابل قبول ہے بھوک سے تنگ حال بچوں کیلئے اگر کوئی باپ دو روٹیاں چوری کرے تو وہ سزا کا مستحق جبکہ اربوں روپے دھڑلے سے لوٹنے والے معزز۔پولیس کا نظام ہی دیکھ لیں جس کا کام تو امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا اور بلا تفریق جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے لیکن اس کے برعکس محکمہ پولیس امیر و غریب کے تعصب کی نشانی بنا ہوا ہے محکوموں کو ایک چھوٹی سی درخواست پر کسی ایف آئی آر کے علاوہ گرفتار کر کے حیوانی حوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ حکمرانوں کے خلاف چاہے قتل کے پرچے ہوں ان کی انکوائری نہیں کرتے پاناما کیس کی تحقیقات جس طرح سے ہو رہی ہیں وہ بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے شعبدہ سے کم نہیں لاڑکانہ میں فریال تالپور کی طرف سے کی گئی کرپشن پر کیس کے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے یہ ریمارکس کہ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے لاڑکانہ کی ترقی کے نام پر جتنا پیسہ لوٹا گیا اتنے میں ایک نیا یورپی معیار کا لاڑکانہ نئے سرے سے تعمیر ہو جاتا ۔اخباری تراشوں میں کسی غریب کے خلاف یا کسی حکمران جماعت کے مخالف کے خلاف کوئی خبر لگ جائے تو قانون فی الفور حرکت میں آ کر آناََ فاناََ کیا سے کیا کچھ کر جاتا ہے ایگزیکٹ کمپنی کی مثال آپ کے سامنے ہے جس کا مالک ایک سال کی ذلالت کے بعد با عزت بری ہو گیا جبکہ پاناما لیکس پر ملکی اور غیر ملکی اخبار بھرے پڑے ہیں اور جسٹس کے یہ ریمارکس کہ یہ پکوڑے بیچنے کے کام آتے ہیں مضحکہ سے کم نہیں ۔جتنے بھی کیسز تھے اب تک ان کے بارے میں کیا گرفتاری کی گئی اور کیا ایکشن لیا گیا ؟میٹرو بس میں پڑتا روز کا گھاٹا محکوموں کی گردن میں چبھتی چاقو کی نوک سے کم نہیں نہلے پر دہلا یہ کہ میٹرو ٹرین میں جو روزانہ کا گھاٹا ہو گا وہ الگ !نندی پور پاور پراجیکٹ ،اوگرا سکینڈل ،قائداعظم سولر پارک کا معمہ ابھی تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ کیا کبھی عوام سے لوٹا گیا یہ پیسہ واپس آ پائے گا؟پنجاب کے وزیر قانون ایک روشن مثال ہیں کہ ان کی اپنی پارٹی کے منسٹر عابد شیر علی کے والد رانا ثنا ء اللہ کے قاتل ہونے کی گواہی دیتے ہیں اور وزیرقانون کی جانب سے کئے گئے سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضے قانون کی بالا دستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پیپلز پارٹی نے جو پانچ سالہ دور میں لوٹ مار کی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب وہ باہر جا کر مزے کر رہے ہیں ۔سوئس بینکوں میں جو عوام کا لوٹا گیا پیسہ رکھا گیا جس کی تحقیقات بھی سامنے آئیں اور ایان علی بھی اسی ذمرے میں گرفتار کی گئیں جن پر مقدمہ چلایا گیا آج وہ با عزت اور شریف شہری ہیں انہیں سزا کیوں نہیں دی گئی کہ جب رنگے ہاتھوں گرفتار کی گئی ؟250لوگوں کو زندہ جلانے والے کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں جن میں سے ایک اب جا کے کہیں بنکاک سے پکڑ میں آیا ہے اور وہ بھی ہمارے حساس اداروں کی مرہون منت ہے ورنہ ان سیاست دانوں نے تو کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی ملک کو بیچ کر کھا جانے کی ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ کب یہ قوم اس بربادی کی نیند سے بیدار ہو گی مسند احمد میں ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’جو لوگ ظلم پر خاموش رہتے ہیں وہ بھی ظالم کے مدد گار ہیں اور سزا کے مستحق ‘‘۔لیکن اب وہ وقت قریب آتا دکھائی دیتا ہے کہ ان لوگوں کا بھی وہی قالین میں لپیٹ کر مارنے والی عبرت ناک موت ہو کیونکہ عبدالرحمٰن بھولے کی گرفتاری اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب سہولت کار بھی پکڑے جائیں گے معاشی دہشتگردوں کیلئے اب زمین تنگ ہو جائے گی اور پھر قریب ہے کہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی سامنے آئے گی جو لوگ ریاست کو لوٹ کر پیسہ باہر لے گئے قرضے لے لے کر معاشی دہشتگردی کے متحمل ہوئے قطری شہزادے تو شکار کرنے آئے ہیں اور یہ لوگ انسانوں کا شکار کرتے ہیں ریاست کو کھوکھلا کر رہے ہیں لیکن اب پاکستان اور زیادہ معاشی دہشتگردی کا متحمل نہیں ہو سکتا دو سو پچاس لوگوں کو زندہ جلانے والے اب اور زیادہ نہیں بھاگ سکتے ۔پاکستان میں ترقی کے دعویدار اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ یہ ترقی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک امیر و غریب کا تعصب ختم نہیں کیا جائے گا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو سب کیلئے یکساں لاگو نہیں کئے جاتے ۔ریاستی خزانہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو نہ کہ انجمن افزائش نسل کیلئے بنیادی ضروریات تک رسائی سب کیلئے یکساں ہو ں نہ کہ حکمرانوں کیلئے اور محکوموں کیلئے الگ الگ۔۔۔۔
Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog