آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں، پارلیمنٹ سے باہر کی کارروائی استحقا ق کا حق نہیں رکھتی، سپریم کورٹ

Published on January 17, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 328)      No Comments

اسلام آباد (یواین پی ) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل(بدھ) تک ملتوی کر دی۔Panama
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل آج چوتھے روز بھی جاری تھے جنہیں سننے کے بعد عدالت نے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔ اگلی سماعت پر بھی وزیر اعظم کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔
وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ میں وزیر اعظم کا نہیں نوازشریف کا وکیل ہوں ، ججز میرا انتظار کر رہے ہیں ، مناسب نہیں کہ انہیں انتظار کراﺅں ۔ ”میں آپ لوگوں سے لڑ نہیں سکتا “۔ جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان کیا معجزہ ہے ؟ کیوں وکلاءآج پیش نہیں ہوئے تو مخدوم علی خان نے جوا ب دیا کہ جناب وکلاءوالا کل کا معاملہ ہے ۔ جناب وکلاءنے آج پھر ہمیں روکا اور اٹارنی جنرل آفس میں لے گئے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈی جی اور سیکرٹری ہاﺅسنگ کو بلایا ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز آپ نے پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ ہوسکنے کا ذکر کیا تھا ، نیوزی لینڈ کی اسمبلی کی کارروائی کو بطور شواہد پیش کرنے کا کہا گیا ۔ نیوزی لینڈ کے ارکان اسمبلی نے فلو ر پر تقریر اور میڈیا پر کہا اپنی بات پر قائم ہیں ۔ عدالت نے قرار دیا پارلیمنٹ میں تقریر ارکان کیخلاف بطور ثبوت استعمال ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ برطانوی عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیںہو گا ۔ آئین کے آرٹیکل 68کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آتا ۔
سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ، شیخ رشید ، جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی ، نعیم بخاری ، نعیم الحق ، وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ، طلال چودھری ، دانیال عزیز سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔
وزیر اعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 68اور 204ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں ۔صدر ، وزیر اعظم اور گورنر کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے ، وزیر اعظم کو استثنیٰ امور مملکت چلانے پر ہوتا ہے ۔ انہوں نے چوہد ری ظہور الٰہی کیس کا حوالہ بھی دیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ظہور الٰہی کیس میں وزیر اعظم نے تقریر اسمبلی میں نہیں کی تھی ۔ ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دینے سے متفق نہیں جس پر وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 66کے بجائے 248کے تحت استثنیٰ مانگا ہے ۔ آرٹیکل 19کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے تو بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کیس آرٹیکل 19کے زمرے میں نہیں آتا ۔”آپنے دلائل کوکیس تک محدود رکھیں “۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 19اظہار رائے کا حق دیتا ہے ، آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ بھارت میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہوتی تاہم بھارت میں جج کو ہٹانے کیلئے ایوانوں سے قرار داد کی منظوری ضرور ی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بھارت میں بحث جاری ہے کہ احتساب کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل بنائی جائے ۔ پارلیمنٹ کو ججز کا اختیار دینا غیر محفوظ ہو گا ۔
اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا جس کے بعد دلائل جاری رکھتے ہوئے مخدوم علی خان نے کہا وزیر اعظم نے تقریر میں کوئی غلط بیانی نہیں کی ۔وزیر اعظم آرٹیکل 66کے تحت حاصل حق مانگ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم تقریر پر کیسے نااہل ہو سکتے ہیں ، وزیرا عظم پارلیمنٹ سے باہر تقریر کریں تو 248کا استثنیٰ مانگیں گے ۔تقریر بطور شہادت پیش نہ کرنے کے عدالتی فیصلوں کے حوالے موجود ہیں ، تقریر کو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دنیا بھر کی پارلیمان میں ارکان کے آپس میں جھگڑے ہوتے ہیں ، کیا ان جھگڑوں کو بھی عدالت میں لایا جا سکتا ہے ؟ انہو ں نے ریمارکس دیے کہ ایسے حوالے ہیں کہ عدالت پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لے سکتی ہے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے وزیر اعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ پر الزام ہے کہ آپ کی تقریر حقائق کے مطابق نہیں ۔”الزام یہ بھی ہے کہ تقریر اور دستاویزات کے موقف میں بھی تضاد ہے “۔
انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ والد اور بچوں کے بیانات میں بھی فرق ہے جس پر مخدو م علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 66کا اطلاق ہو گا تو کوئی تضاد نہیں ہو گا تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پارلیمنٹ سے باہر کی کارروائی استحقا ق کا حق نہیں رکھتی ۔
وزیر اعظم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم کے قوم سے خطاب پر آرٹیکل 66کا اطلاق نہیں ہوتا ۔دونوں تقاریر میں تضاد ہے ، پارلیمنٹ کی تقریر پر آرٹیکل 66لگے گا تو تضاد ختم ہو جائے گا .انہوں نے وزیر عظم کی تقریر کا اقتباس بھی پڑھ کر سنایا. اس پر عدالت نے کہا کہ قانون کی تشریح کرتے ہیں تو اراکین پارلیمنٹ کی تقاریر ہمارے سامنے رکھی جاتی ہیں ۔ پارلیمنٹ ہی نہیں وزیر اعظم کا قوم سے خطاب کا بھی سوال ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیرا عظم کی نااہلی کیلئے انکے صادق و امین اور راست گو نہ ہونے کا تعین ہو نا چاہئے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے ۔اگر تشریح کی غرض سے تقریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خلاف ورزی نہیں ہو گی ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا آرٹیکل 66صرف پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ دینے سے متعلق ہے؟ صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ قوم سے کئے گئے خطاب کا بھی سوال ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا مخدوم صاحب کیا بچے سچ بول رہے ہیں یا والد ؟ تو وکیل نے جواب دیا کئی مواقع پر عدالت نے قانون کی تشریح کیلئے بھی تقاریر کا جائزہ نہیں لیا ۔ عدالت کے سامنے وزیر اعظم نہیں رکن اسمبلی کے نااہل ہونے کا سوال ہے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 66کا استحقاق انفرادی نہیں اجتماعی ہے ۔ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے روبرو استحقاق کا سوال نہیں ہے ۔ عدالت ایک معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم کے وکیل نے کہا انکے موکل نے قوم سے خطاب میں کوئی غلط بیانی نہیں کی اس مقصد کے لئے عدالت کو قانون کا سہارا لینا ہو گا ۔وکیل کے دلائل کے بعد عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题