تنازعات کا حل آخر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے؛ سید علی گیلانی

Published on June 10, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 338)      No Comments


سری نگر(یو این پی)کل جماعتی حریت کانفرنس گ کے چیرمین سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ ہم تنازعہ کشمیر کا لوگوں کی خواہشات کے مطابق ایک پُرامن اور پائیدار حل چاہتے ہیں، جبکہ بھارت افہام وتفہیم کے بجائے تشدد اور ملٹری طاقت کے ذریعے سے لوگوں کی آواز کو خاموش کرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یوا ین پی سے انہوں نے کہا کہ تنازعات کا حل آخر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے، البتہ جب تک لوگوں کی بنیادی ڈیمانڈ کو ایڈرس نہیں کیا جاتا، مذاکرات ایک بے معنی عمل ثابت ہوجاتے ہیں اور ان سے کوئی نتیجہ نکالا جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ بیان میں گیلانی نے بھارتی فوجی سربراہ کے اُس بیان کو غیر پیشہ ورانہ اور نامناسب قرار دیا، جس میں موصوف نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی آفیسر صورتحال کی مناسبت سے کسی کو انسانی ڈھال کے طور استعمال کرنے کا فیصلہ انفرادی طور لے سکتا ہے۔ کشمیری آزادی پسند راہنما نے کہا کہ کسی مہذب اور منضبط (Dispelined)فوج کا کمانڈر کسی بھی صورت میں اس طرح کا فتویٰ نہیں دے سکتا ہے۔ یہ ایک سامراجی اور استعماری وطیرہ ہے، جس کی بھارتی فوجی سربراہ نے وکالت کی ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کشمیری قوم کو ایک دشمن کے طور مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ گیلانی صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ اس واقعے کو سرے سے ہی غلط رنگ میں پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے صورتحال قابو سے باہر ہوگئی تھی اور فوجی آفیسر نے مجبور ہوکر ایک نہتے شہری کو جیپ کے ساتھ باندھ دیا۔ جبکہ اس بات کے سینکڑوں لوگ چشم دید گواہ ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ فاروق احمد ڈار بائیک پر سوار اپنے رشتہ داروں کے گھر جارہا تھا اور حالات بالکل پُرسکون تھے۔ گیلانی نے کہا کہ بھارتی فوجی سربراہ اور دوسرے حکام گوبلز کے اصول پر عمل پیرا ہیں کہ جھوٹ اس ڈھٹائی اور تکرار کے ساتھ بولو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے اور اس پر کوئی شک نہ کیا جائے۔ بات چیت کے بارے میں فوجی سربراہ کے تبصرے کہ مذاکرات اور تشدد ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے پر ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ کسی سیاسی عمل میں فوج کا کوئی رول ہوتا ہے اور نہ کسی فوجی کمانڈر کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک سیاسی اِشو پر کوئی رائے زنی کرے۔ انہوں نے البتہ کہا کہ جموں کشمیر میں جو بھی تشدد اور جبروزیادتیاں ہورہی ہیں، وہ بھارتی فوج اور اس کی معاون فورسز کی طرف سے ہورہی ہیں۔ بھارت کی ساڑھے سات لاکھ فوج اور نیم فوجی فورسز ایک نہتی قوم کے خلاف برسرِ جنگ ہیں اور وہ منظم طریقے سے ان کی نسل کُشی کررہی ہیں۔ حریت چیرمین نے اپنے بیان میں کہا کہ فوجی سربراہ اور دوسرے بھارتی حکام کا تشدد کے لیے کشمیریوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مضحکہ خیز اور بے معنیٰ ہے۔ فوج کے مطابق کشمیر میں صرف 200کے لگ بھگ عسکریت پسند سرگرم عمل ہیں اور وہ بھی بھارت کی ہٹ دھرمی اور نشۂ قوت کے نتیجے میں بندوق اٹھانے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ بھارت پچھلی 7دہائیوں سے پُرامن جدوجہد کو نکارتا آرہا ہے اور اس نے کبھی بھی اس کا مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ انہوں نے کشمیر میں 22سال تک رائے شماری کی تحریک چلائی گئی اور ایک سیاسی عمل کے ذریعے سے لوگوں نے اپنے مطالبۂ حقِ خودارادیت کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد 2008 ؁ء، 2010 ؁ء اور 2016 ؁ء میں لاکھوں لوگوں نے کوئی بندوق اٹھائے بغیر سڑکوں پر آکر اپنی بات منوانے کی کوشش کی، البتہ بھارت نے اس کا صرف تشدد کے ذریعے سے جواب دیا۔ گیلانی نے کہا کہ بھارت کے پاس صرف ملٹری پاور ہے اور کشمیر کے حوالے سے اس کے پاس کوئی دلیل اور جواز نہیں ہے، لہٰذا وہ ایک پُرامن سیاسی عمل سے بھاگنے کی راہ پر گامزن ہے۔ وہ کشمیریوں پر بے پناہ مظالم ڈھا کر انہیں تھکانا چاہتا ہے، تاکہ وہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں۔ اس مقصد کے لیے اب بھارتی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے (NIA)کو بھی میدان میں لایا گیا ہے اور اس کے ذریعے سے آزادی پسندوں کو خوف زدہ اور بدنام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ مسٹر راجناتھ سنگھ کے بیان کہ وہ ہر ایک کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں پر تبصرہ کرتے ہوئے گیلانی صاحب نے کہا کہ ایک طرف NIAکے ذریعے ہمارے لیڈروں کے گھروں پر چھاپے ڈالے جارہے ہیں، ان کا سرینگر اور دہلی میں انٹروگیشن کیا جاتا ہے اور دوسری طرف بات چیت کا راگ الاپا جاتا ہے۔ حریت چیرمین نے کہا کہ کنپٹی پر بندوق رکھ کر مذاکرات کی بات کرنا بے معنی ہے اور اس میں کوئی سنجیدگی اور خلوص نہیں ہے۔ یہ عالمی برادری اور بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے اور کشمیر کی سنگین صورتحال پر پردہ ڈالنے کی ایک چال ہے۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题