قائد اعظم محمد علی جناح۔۔۔ تاریخ ساز شخصیت

Published on September 12, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 607)      No Comments


تحریر: مرزا روحیل بیگ
قائد اعظم محمد علی جناح بر صغیر کی عظیم ترین شخصیتوں میں سے تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہنما تھے۔ اور کروڑوں مسلمان ان کے ہونٹوں کی جنبش کے منتظر رہتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اپنی ذات میں جیتا جاگتا پاکستان تھے۔ پاکستان خون کی طرح ان کے دل و دماغ میں دوڑتا تھا۔ بانی پاکستان کے چند اوصاف کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اصول پرستی قائد اعظم محمد علی جناح کا وصف تھا اصول پرستی وہ وصف ہے جو انسان کو عوام سے نکال کر لیڈر بناتا ہے۔ اصول ان اعصاب کی مانند ہیں جو قدموں کو ڈگمگانے سے روکتے ہیں۔ بانی پاکستان کا ایک اور وصف جرات و بے باکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق گوئی کے موقع پر آدمی بلا جھجک حق بات کہہ دے۔ بانی پاکستان انتھک محنتی تھے۔ وہ دن رات کام کرتے اور قوم کی منزل کے راستے تراشتے رہے۔ انہوں نے اپنے لیئے ایک ہدف مقرر کیا اور اس کے لیئے بیماری اور ناتوانی کے باوجود دن رات جدو جہد کرتے رہے۔ بانی پاکستان کا ایک اور وصف جہاں بینی تھا۔ وہ قومی اور عالمی واقعات پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ قائد اعظم کی شخصیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی تعلیمات پر یقین محکم رکھنے کے حوالے سے ایک اعزاز کی بجا طور پر مستحق تھی۔ قائد اعظم نے حیدر آباد دکن میں 11 جولائی 1946 کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” اس وقت بر صغیر میں ہندو مسلمان کی جنگ ہو رہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کون فتح یاب ہو گا۔ غیب کا علم خدا کو ہے مگر میں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں کہہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری رہبر مان کر صبر اور رضا خداوندی پر کاربند رہیں، اور ارشاد خداوندی کو فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ”۔ آزادی کے ابتدائی زمانے میں ملک کو ہر جانب سے خطرات درپیش تھے۔ قائد اعظم ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کے خواہش مند تھے۔ 23 جنوری 1948 کو کراچی میں پاک بحریہ کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا۔ ” کمزور اور نہتا ہونا دوسروں کو جارحانہ اقدام کی دعوت دیتا ہے۔ امن عالم کو برقرار رکھنے کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہمیں کمزور سمجھتے ہوئے ڈرانے، دھمکانے، یا حملہ کرنے کی نیت رکھتے ہیں، ان لوگوں کے دل سے یہ خام خیال دور کر دیں۔ قائد اعظم نے 72 سال کی عمر پائی اور 11 ستمبر 1948 کو انتقال کر گئے۔ زیارت میں قیام کے دوران قائد اعظم کا بلڈ پریشر خاصا گر گیا اور پیروں پر ورم آ گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ کو زیارت سے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔ قائد اعظم کے معالج کرنل الہی بخش نے اپنی کتاب میں لکھا” پانچ ہفتہ کی تسلی بخش صحت کے بعد 3 ستمبر کو آپ کی حرارت بڑھ گئی۔ حرارت کا یوں اچانک بڑھ جانا تشویش ناک تھا۔ چنانچہ ہم نے بڑی احتیاط سے ان کا معائنہ کیا لیکن پھر بھی بخار کی وجہ دریافت نہ کر سکے۔ ” 9 ستمبر کو کرنل الہی بخش نے معائنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا۔ مگر محترمہ فاطمہ جناح نے امید کا دامن نہ چھوڑا۔ 10 ستمبر کو ڈاکٹروں کے مشورہ پر محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم کو کراچی لے جانے پر آمادہ ہو گیءں۔ چنانچہ 11 ستمبر کو آپ کا طیارہ سوا چار بجے ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔ قائد اعظم کو ایک اسٹریچر پر لٹا کر بذریعہ ایمبولینس گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔ قریب ساڑھے نو بجے رات آپ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ چند منٹ کے بعد کرنل الہی بخش اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے۔ اس وقت قائد اعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبض کی رفتار بھی غیر مسلسل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انجیکشن لگایا مگر حالت بگڑتی چلی گئی۔ دس بجکر پچیس منٹ پر اسلامیان پاکستان کا ناخدا، عزم و استقلال اور ذہانت کا پیکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے داغ مفارقت دے گیا۔ 11 ستمبر 1948 کو ہر پاکستانی کی آنکھ اشکبار تھی۔ ایسے میں ممتاز عالم دین شبیر احمد عثمانی نے تاریخی الفاظ میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس نے جنوبی ایشیا میں مسلمانان ہند کی بربادی اور مایوسی کو فتح میں بدل دیا ہو۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد قائد کا پاکستان ایک خواب بنا رہا۔ لیکن امید کے چراغ روشن ہیں۔ گھپ اندھیرے میں کہیں نہ کہیں جگنو دمک رہے ہیں۔ ہم روشنی کے منتظر ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress主题