ٖفنی تعلیم اور سائنسی و صنعتی تحقیق کا فقدان

Published on October 16, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 408)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
ٹی وی چینل بول کے ایجوکیشن پروگرام میں سابق وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطا الرحمٰن مدعو تھے انہوں نے ملک عزیز میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے فنی تعلیم اور صنعتی ترقی پر تفصیلی گفتگو کی انہوں نے کہا کہ یورپ ، چین ، ہانگ کانگ ، تائیوان ، سنگا پور اور کوریا نے فنی تعلیم پر کافی توجہ دی ہے انہوں نے کہا کہ کوریا کی سیاسی ، معاشی اور اقتصادی حالت ہم سے بھی زیادہ دگر گوں تھی مگر وہاں کے سربراہ نے چند سالوں میں کوریا کی کایا پلٹ کے رکھ دی انہوں نے کہا جس ملک کے حکمران ملک سے مخلص ہوتے ہیں وہاں ترقی کے امور کبھی نہیں رُکتے اور نہ ہی کوئی سیاسی طور پر روک سکتا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں فنی تعلیم کے فروغ کے لئے بہت سے دعوے کئے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ فنی تعلیم کا فروغ صنعتی انقلاب کی اساس ہوا کرتا ہے جن ممالک میں فنی تعلیم کی ترقی کے لئے عملی کام کیا گیا وہاں آج صنعتی انقلاب نہ صرف آچکا ہے بلکہ وہ ملک ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بن چکا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے فنی تعلیمی اداروں میں نہ ہی پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ انسٹرکٹرز ہیں اور نہ ہی مناسب تربیت کے لئے فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں انہوں نے حکومت وقت سے کہا ہے کہ وہ چاہیں تو میری صلاحیتوں سے استفادہ لے سکتے ہیں اور میں بلا معاوضہ کام کرنے کے لئے حاضر ہوں انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں نہ صرف فنی تعلیم کے فروغ کے لئے عملی طور پر کام ہوا بلکہ الیکٹرونکس کے شعبے میں انقلاب برپا ہوا انہوں نے کہا کہ جب تک متعلقہ شعبے پر خصوصی توجہ نہیں دی جاتی صنعتی ترقی ناممکن ہے یہ پہلا ٹی وی چینل ہے جس نے فنی تعلیم اور صنعتی ترقی کے موضوع پر ڈاکٹر عطا الرحمٰن کو مدعو کیا ہے ورنہ ملک عزیز میں سینکڑوں ٹی وی چینل ہیں جہاں کبھی ایسا پروگرام ترتیب دیا گیا ہو بلا شبہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن ایک نامور سائینسدان ہیں اور ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں یہ بھی سچی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں فنی تعلیم اور صنعتی معاملات کو ترجیح دی گئی ہمارے قومی اخبارات میں بھی زیادہ تر سیاسی مضامین کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ سائنس ، ٹیکنالوجی ، صنعتی و سائینسی تحقیق کے مضامین کو کوریج دینے سے گریز کیا جاتا ہے ایک طویل عرصہ سے سائنس ، ٹیکنا لوجی اور صنعتی معاملات میرے موضو عات رہتے ہیں اور کوشش کرتا ہوں کہ ہر اخبار کو ارسال کروں مگر افسوس کہ چند اخبارات میرے مضامین کو شائع کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جگہ دیتے ہیں میں انکا مشکور ہوں اور ایسے اخبارات کے ایڈیٹروں کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں روزنامہ مشرق ، اعروز ، نوائے وقت کا سنڈے میگزین ، روزنامہ پاکستان لاہور عملی سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کراچی نے میرے مضامین کو خصوصی جگہ دی ہے صرف ماہنامہ عملی سائنس ہے جو میگزین کے ساتھ بینک کا چیک بھی ارسال کرتا رہاہے حالانکہ میں نے کبھی کسی جریدے سے معاوضہ نہیں لیا اور جدید قسم کے فیچر اور مضامین لکھ کر بذریعہ ڈاک بھیجا کرتا تھا وہ دور لالچی نہیں تھا اور نہ ہی مجھے ان سے کوئی شکایت رہی آج کے دور میں جو کچھ ہورہا ہے بہتر ہے کہ اس باب کو نہ چھیڑا جائے سائنس ،ٹیکنالوجی اور صنعتی و سائنسی تحقیق پر نہ صرف ٹی وی چینلوں پر بلکہ اخبارات میں بھی زیادہ سے زیادہ مواد چھاپا جائے یورپین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی سائینسی و صنعتی تحقیق پر مقالہ جات تحریر کئے جائیں اور ٹی وی چینلوں پر زیادہ سے زیادہ مزاکرات اور ٹاک شوز منعقد کئے جائیں 1970کی دہائی میں ریڈیو پاکستان پر ایسے کئی ایک مذاکرے میں نے خود اپنے کانوں سے سنے ہیں ڈاکٹر عبدالاسلام ایسے موضوعات پر تفصیلی بحث کیا کرتے تھے جس سے ہمارے جیسے ٹوٹے پھوٹے لکھاری مستفید ہوا کرتے تھے میں حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر میگزین شائع کرنے کا اہتمام کرے اور میڈیا کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوعات پر مربوط مضامین شائع کرنے کا انتظام کریں آج کے جدید دور میں لٹریچر حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا نیٹ پر دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے پھر ہم کیوں نہ استفادہ کریں اور نئی نسل کو نئی سے نئی تحقیق بارے آگاہ کریں ہر ضلع میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی لائبریری اور میوزیم کے اجراء کو یقینی بنائیں سائنس کلب ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہونا ضروری ہے اس سلسلے میں حکومت خود این جی اوز کی تشکیل کا ذمہ لے اور اس میں سماجی ورکروں کو شامل کرے جو ان کی کارکردگی کو چار چاند لگائیں یہ کام مقامی انڈسٹری کے اشتراک سے بھی ہوسکتا ہے ان کو یہ ٹاسک سونپ دیا جائے کہ وہ صنعتی و سائینسی تحقیق کے امور میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں اور اسے زیاد ہ سے زیادہ وسائل فراہم کریں جرمن میں ایسے ادارے صدیوں سے فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ہمارے ہاں بھی ایسے ادارے بن سکتے ہیں اور نئی نسل کو سہولتیں فراہم کر کے انکی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے افسوس کہ ٹیوٹا پنجاب نے اپنے بورڈ آف مینجمنٹ تو بنا رکھے ہیں مگر ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان آج بھی واضح نظر آرہا ہے ان بورڈز نے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا بلکہ ممبران اور عہدیداران نے ان اداروں سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے “چینل بول “کے مہمان ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور میں بھی تحریری طور پر ٹیوٹا کو اپنی خدمات پیش کرچکا ہوں سات سال ہونے کو ہیں میری درخواست کا جواب تک نہیں آیا یہ ہے پنجاب گورنمنٹ کے اہم ادارے کا رویہ جسے بلا معاوضہ خدمت گاروں کی ضرورت نہیں بلکہ لاکھوں روپے ماہانہ لینے والوں کو ترجیح دی جارہی ہے ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy