انتظار کی گھڑیاں

Published on January 14, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 306)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے گذ شتہ روز پاکستان بار کونسل جو ڈیشنل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے دل کھول کر باتیں کیں انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی پلان کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی ہم پردباؤ ڈالنے والا پیدا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد میری اولاد شرمندہ نہ ہو انہوں نے کہا اگر ہم کسی منصوبے کا حصہ ہوتے تو حدیبیہ کا یہ فیصلہ نہ آتا انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی ہے انہوں نے کہا کہ فیصلہ خلاف آنے پر گالیاں نہ دیں یہ نہ کسی پلان کا حصہ ہے نہ بنے گا میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا وکلاء ، ججز عدالتی نظام میں اصلاحات کے لئے تعاون کریں مقننہ ذمہ داری پوری نہیں کرے گی ہمیں آگے آنا پڑے گا انہو ں نے کہا کہ میں اے ڈی آر کا حامی ہوں ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں انہوں نے کہا جہاں بیوہ پنشن کے لئے برسوں دھکے کھاتی رہے یہ کوئی جمہوری نظام نہیں انہوں نے کہا اگر جمہوریت نہیں تو کچھ بھی نہیں فیصلے قانون اور ضمیر کے مطابق کئے جاتے ہیں مبصرین فیصلے پڑھے بغیر تبصرے کرتے ہیں عدلیہ پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے جتنے بھی فیصلے کئے آئین اور قانون کے مطابق کئے ہر جج اپنے ضمیر کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ جس طرح گاؤں میں ایک با با رحمت لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرتا ہے اور اس کو سب مان لیتے ہیں اسی طرح عدلیہ کا ادارہ قوم کا بابا ہے جس کی عزت کرنا ہر بندے کا فرض ہے آپ اپنے بابے کی ساکھ پر شک نہ کریں اور نہ ہی گالیاں دیں بابے پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا ہم دیانتداری سے فیصلے کرتے ہیں اگر کوتاہیاں ہیں تو اس کا ذمہ دار میں ہوں مجھے اس ادارے کو درست کرنے کے لئے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے پلان کہاں سے آگئے کس کو جرأ ت ہے کہ و ہ کہے اس طرح کا فیصلہ دو انہوں نے کہا بالکل علم نہیں تھا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ بھی جمعہ کو آنا تھا یہ میرا ہی فیصلہ تھا کہ کیسوں کے فیصلے ایک ماہ میں کئے جائیں چیف جسٹس نے بہت سی باتیں کیں انہوں نے اس عورت کے کیس کا بھی ذکر کیا جس نے انصاف کے حصول کے لئے اپنی بینائی کھوئی انہوں نے کہا میں ا س خراب سسٹم کا بہت درد محسوس کرتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی ایسا چراغ نہیں ہے کہ اس نظام کو بدل دوں جس معا شرے میں تیرہ سال مالک مکان کو کرایہ دار سے مکان خالی کرانے میں لگ جائیں اس معاشرے میں مقدمہ بازی لعنت کے سوا کچھ نہیں ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں بیٹا ہونا ثابت کرنے کے لئے سالوں مقدمہ لڑنا پڑتا ہے انہوں نے کہا جب تک ہم اس عدالتی نظام کی بنیادوں کو نہیں بدلیں گے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے انہوں نے کہا ہماراکام اصلاحات کرنا نہیں نشاندہی کرنا ہے لوگ انصاف کے لئے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں چیف جسٹس صاحب آپ نے حقیقت بیان کی ہے بڑی عدالتوں میں انصاف کی امید کی جاسکتی ہے جبکہ چھوٹی عدالتوں میں سائل رُل جاتے ہیں کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا غریبوں کا دم گھٹنے لگتا ہے میں خود بھی کئی برسوں سے انصاف کے حصول کے لئے دھکے کھا رہا ہوں میں نے دورانِ ملازمت پنجاب سمال انڈسٹریز کا رپوریشن کی ہاؤ سنگ سو سائٹی کی 1986 میں ممبر شپ حاصل کی ،15-10-1990میں (جے)بلاک میں ساڑھے تین مرلہ کا پلاٹ الاٹ ہوا ۔ 5مرلہ کی بجائے ساڑھے تین مرلہ اراضی کم ہونے کی وجہ سے ملا بعد ازاں پورے جے بلاک پر لمز کی انتظامیہ قابض ہوگئی معلوم ہوا کہ اس سوسائٹی کے عہدیداران نے پورا بلاک اس یو نیورسٹی کو فروخت کر کے رقم ہضم کر لی ہے ہم اس وقت سے اپنے پلاٹ کے حصول کے لئے دھکے کھا رہے ہیں اس ضمن میں میں نے خادم اعلیٰ پنجاب کو بھی درخواستیں لکھیں افسوس کہ اس خادم اعلیٰ نے جواب دینا بھی گوارا نہ کیا پھر کسی نے مشورہ دیا کہ میں رجسٹرارکو آپریٹیو کو اپیل لکھوں لہٰذا 2011میں میں نے ایک تحریری اپیل دائر کی جس کو جون 2014میں رجسٹرار نے ڈپٹی رجسٹرار کی عدالت میں ٹرانسفر کردی تین چار ماہ کے بعد پیسک سوسائٹی کے عہدیداران کو طلب کیا گیا جنہوں نے وعدہ کیا کہ سوسائٹی نے ڈی ایچ اے میں اراضی خرید لی ہے مئی 2015کو پلاٹ آپ کو دے دیا جائے گا افسوس کہ اب 2018آچکا ہے مگر پلاٹ نہ ملا، چیف جسٹس صاحب! آپ خود اندازہ لگالیں چھوٹی عدالتیں کیا گل کھلاتی ہیں سائل مرجاتا ہے اور پھر اس کا بیٹا بھی بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے دکھ اس بات کا کہ ڈپٹی رجسٹرار محمد اقبال سیٹھی نے اپنے فیصلے سے آگاہ بھی نہیں کیا اور پھر رجسٹرار نے بھی کبھی اپنے ماتحت چلنے والی ایسی عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی نہیں لیا کیا یہ افسران حلال کا رزق کھارہے ہیں اس پر بھی یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش نہیں ہونا کیا ان لوگوں کو موت نہیں آنی کیا یہ لوگ کتنے سائلوں کو انتظار میں ماریں گے حیرانی اس بات کی ہے کہ میرے اس کیس کے دوران آٹھ ، دس رجسٹرار تبدیل ہوئے ہیں مگر میں ریٹائرمنٹ کے بعد 67سال کی عمر میں ان عدالتوں کے دروازے پر خجل خوار ہورہا ہوں اس سسٹم کی خرابی سیاسی نظام کی خرابی کی وجہ سے ہے یہ جمہوریت ہے جس کے لئے یہ سب سیاستدان چیختے اور چلاتے ہیں آمریت پر بد ترین جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں یہ اس لئے کہ ان کو دنیا کی ہر نعمت مل رہی ہوتی ہے میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایسی جمہوریت سے آمریت بہتر ہے ما ر شلاء کے دور میں غریبوں کو میرٹ پر نوکریاں ملتی ہیں بجلی ملتی ہے گیس ملتی ہے مٹی کا تیل ، چینی گندم اور گھی ریڑھیوں پر ، گلیوں اور بازاروں میں بکتا ہے جبکہ جمہوریت میں ہر چیز بازار سے غائب ہوجاتی ہے ایسی جمہوریت پر لعنت ہو جو عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہ دے سکے اور جمہوری نمائندے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہوں وہ عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے نمک چھڑکتے ہوں لوٹ مار کر کے قومی خزانے کو بانجھ بنادیتے ہوں ایسے نمائندوں پر بھی لعنت ہو عوام کو اب تو سمجھ آجانی چاہئے کہ ملک کو معرضِ وجود میں آئے 70سال ہو رہے ہیں اور ہم ان نمائندوں کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں ان میں کیا ایسی خوبیاں ہیں جو ہم بے وقوف عوام ان کے گرویدہ بن گئے ہیں اور انکی جائز ناجائز کر توتوں پر فخر کرتے ہیں ان ظالموں کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر ایسے حکمرانوں کے لئے دن رات قصیدے گاتے ہیں جو “ختمِ نبوت”پر کاری ضرب لگاتے ہوئے شرم و حیا کا دامن بھی تار تار کر لیتے ہیں عدالتی نظام تب ہی ٹھیک کام کر سکتا ہے جب عوامی نمائندے نیک اور صالح ہوں گے لٹیرے ، ڈاکو اور بد دیانت عوامی نمائندے صرف لوٹ مار ہی کر سکتے ہیں انہیں عوام سے کوئی غرض نہیں ہوتی چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ مجھے بھی انصاف دلائیں ڈپٹی رجسٹرار اور رجسٹرار کوآپریٹیو لاہور پیجاب سے یہ تو پوچھیں کہ اس کیس کو ابھی اور کتنے برس چلتے رہنا ہے تاکہ میں انتظار کی گھڑیاں دیکھتا رہوں ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Premium WordPress Themes