اسلامی یونیورسٹی کی کاوشیں رنگ لائیں، دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تشکیل دے دیا گیا

Published on January 17, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 253)      No Comments

خود کش حملے اورنفاذ شریعت کے نام پر ریاست کے خلاف مسلح تصادم حرام ہے؛علماء کا فتویٰ
طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا فساد فی الارض ہے، جہاد صرف ریاست کا اختیار ہے، فتویٰ
انتہا پسندی، تشدد، فرقہ پرستی اور لسانی تعصبات جیسے عوامل کا قلع قمع ضروری ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین
اسلام آباد (یوا ین پی) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی کی کاوشوں سے تمام مسالک کے علماء کے دستخطوں سے تیار کر دہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ کی تقریب رونمائی منگل کے روز ایوان صدر میں صدر مملکت ممنون حسین کی سربراہی میں منعقد ہوئی جبکہ اس متفقہ فتویٰ پر ۹۲۸۱ علماء نے دستخط کیے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی اسلامی شریعت کی رْو سے ممنوع ہے اور خود کش حملے حرام ہیں جبکہ ان کے مرتکب اسلام کی رْو سے باغی ہیں، پاکستان کی حکومت یا افواج کے خلاف مسلح کاروائیاں بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ شرعاً بالکل حرام ہیں۔یو ا ین پی کے مطابق ایوان صدر میں منعقد ہ اس تقریب میں صدر مملکت کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ ، احسن اقبال، وفاقی وزیر خارجہ، خواجہ محمد آصف، قائد ایوان ، سینیٹر راجہ محمد ظفر الحق، چیئر مین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان، چیئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی ، سربراہ ادارہ تحقیقات اسلامی، ڈاکٹر ضیاء الحق سمیت پانچوں وفاق کے مدارس کے سربراہان ، مفتیان، دانشور، اساتذہ اور میڈیا کی نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔جاری متفقہ فتوی و اعلامیہ میں کہا گیا کہ طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنافساد فی الارض کے مترادف ہے اور دینی شعائر اور نعروں کو نجی عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنا قرآن و سنت کی رو سے درست نہیں۔ ’’ پیغام پاکستان‘‘ کی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہادکا وہ پہلو جس میں جنگ و قتال شامل ہیں ، اس کو شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے اور سرزمین پاکستان اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت ہے جسے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔ علماء و مفتیان دین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اسلامی ریاست میں پر امن طریقے سے رہنے والے غیر مسلموں کو قتل کرنا جائز نہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہے اور اسلام کی رْو سے خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی پاسداری مردوں کے لیے لازم ہے۔ متفقہ فتوی میں یہ بھی درج ہے کہ مسلح بغاوت میں شرکت یا اس کی حمایت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی کھلی نا فرمانی ہے۔ مفقہ فتویٰ و اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مختلف مسالک کا نظریاتی اختلاف ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس اختلاف کو علمی اور نظریاتی حدود میں رکھنا واجب ہے۔ متفقہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء مشائخ سمیت تمام طبقات ریاست اور افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس ضمن میں پوری قوم ان سے غیرمشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔ دستاویز میں درج ہے کہ پر امن بقائے باہمی کا فروغ ، پر امن معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے، اس لیے اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت ، مساوات، برداشت اور امن و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ضروری ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری اپنے تہواروں اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔صدر مملکت ممنون حسین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کی روشنی میں تشکیل کردہ یہ قومی بیانیہ ہمیں قومی تعمیر کے مراحل تیز رفتاری سے طے کرنے میں مدد دے گا۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی، تشدد، فرقہ پرستی اور لسانی تعصبات جیسے عوامل قوم کو تقسیم کر رہے ہیں جن کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وحدت فکر کے ذریعے ہی وحدت عمل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اسلامی یونیورسٹی و ادارہ تحقیقات اسلامی اس عظیم فریضہ پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ تخریبی فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے تعمیری فکر اور دینی بیانیہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ’’ پیغام پاکستان‘‘ کی رونمائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس بیانیہ کی بھرپور تشہیر کی جائے گی تا کہ یہ ملک کے چپے چپے اور پوری دنیا تک پہنچ جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ قومی بیانیہ کی ترویج اشاعت میں پاکستانی سفارتخانے اہم کردار ادا کریں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اس قومی بیانیہ کو پاکستان کی شناخت ہونا چاہیے اور آج اس کی رونمائی کر کے ہم نے یہ باور کر ا دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ملک کے تمام طبقات متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور اسلام میں تضاد ہے کیوں کہ اسلام عمل کا دین ہے اور دہشت گردی تباہی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پوری قوم سول اور ملٹری اداروں کی پشت پر کھڑی ہے تا کہ دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ وفاقی وزیر داخلہ انجینئر احسن اقبال نے کہا کہ امن و استحکام کے بغیر ترقی نا ممکن ہے اور دوسروں پر سازشوں کے الزامات لگانے کے بجائے ہمیں خود احتسابی کو اپنانا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ ’’ پیغام پاکستان‘‘ کی تشکیل اور رونمائی ایک تاریخی عمل ہے جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گری کو ختم کرنے کے لیے متحد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سزا دینے اور کسی بھی قوت کے خلاف اعلان جنگ کرنے کا اختیار صرف اور صرف ریاست کا حق ہے۔ تقریب سے قائد ایوان سینیٹر راجہ محمد ظفر الحق نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ متشدد سوچ اور دہشت گردی کے خلاف اس بیانیہ کی اشد ضرورت تھی لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات کا کردار کلیدی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اوراس بیانیے کو ملک سمیت دنیا بھر کے کونے کونے تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ صدر پاکستان نے قومی ضرورتوں کی بنیاد پر اسلامی یونیورسٹی کو ادارہ تحقیقات اسلامی کے ذریعے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملکر قومی بیانیہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی جسے جامعہ نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے اہم نکات کا ذکر کیا اور کہا کہ قومی استحکام اور ترقی کے لیے اس بیانیہ کی تشکیل ایک مسلسل عمل ہے جو قومی تقاضوں کی بنیا د پر آگے بڑھتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پیغام پاکستان‘‘ کی ترویج و اشاعت کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس ضمن میں’’دختران وطن‘‘،’’ بین المسالک ہم آہنگی‘‘، ’’بھائی چارہ ‘‘، ’’بین المسالک مکالمہ ‘‘جیسے پراجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں۔ تقریب سے مولانا فضل الرحمان سمیت پانچوں وفاق کے مدارس کے سربراہان نے بھی خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم عالمی برادری کو یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ پاکستان پر امن ملک ہے اور اس کے امن کو سبو تاڑ کرنے والوں کی قبیح سازشیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھاکہ بین المذاہب مکالمہ عصرِ حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ قبل ازیں ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر محمد ضیاء الحق نے ’’پیغام پاکستان‘‘ کی تشکیل کے مراحل اور اس ضمن میں ادارے کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد و دیگر اداروں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes