تکبر،حسد اور معاشرہ

Published on May 28, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 462)      No Comments

تحریر۔صبا ء معراج ،تلہ گنگ
جوں جوں انسان ترقی کرتا ہوئے بلندی پر جاتا ہے تو اس میں تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں جس طرح وہ پستی پر کھڑا ہوتا ہے تو اسے اپنا آپ بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔مگر جب وہی بندہ پستی سے بلندی پر جاتا ہے تو اسے پوری دنیا کیڑے کی طرح نظر آتی ہے۔اور اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ سب کو اپنے پاوں کے نیچے روند کر کامیابی حاصل کر لے۔درحقیقت یہ کامیابی نہیں بلکہ نچلے درجے کی درندگی اور حیوانیت ہے۔اور اس حیوانیت کو وہ بخوشی قبول بھی کرتا ہے۔بظاہر لفظ تنقید بہت چھوٹا نظر آتا ہے مگر جب اس میں غرور و تکبر کا عنصر شامل ہو جاتا ہے تو یہ تکلیف کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ انسان کو برائی پر مائل کرتا ہے۔انسان کے اندر تکبر، بڑائی،برتری اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنا اور ان لوگوں کے اوپر روعب جھاڑنا جو ہمیں کمزور لگیں کیونکہ ظاہر ہے کہ اپنے سے زیادہ قابل بندے سے کوئی مقابلہ نہیں کرتا کیونکہ وہ تھپڑ کی صورت میں واپس آتا ہے۔غرور اور تکبر انسان کی صفت نہیں کیونکہ انسان کا نہ تو اپنے اوپر اختیار ہے اور نہ ہی اپنی زندگی اور موت پر اختیار ہے اور اپنی مرضی سے کچھ کر بھی نہیں سکتاکیونکہ انسان مٹی سے بنا ہے اور اس کی اوقات بھی مٹی ہے اور آخر کار اسی مٹی ہی میں مل جانا ہے۔انسان خطا کا پتلا ہے اور وہ مکمل نہیں ہوسکتا لہذا تکبر انسان کی شان نہیں بلکہ اللہ کی صفات باری میں سے ہے۔اگر ہمارا لباس کوئی دوسرا پہن لے جو ہم سے کم تر ہو تو ہمیں انتہائی برا لگتا ہے اسی طرح اللہ فرماتا ہے۔”تکبر اللہ کا لباس ہے”جب خالق کا لباس مخلوق اوڑھ لے تو خالق کو کتنا برا لگتا ہے۔ایک اور جگہ فرمایا گیاوہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس میں رائی برابر بھی غرور ہو گا”حسد اور تکبر دونوں کا آپس میں کافی گہرا تعلق ہے کیونکہ دونوں بیماریوں کا مریض دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔کسی دوسرے کے ساتھ اپنا مقابلہ کر کے جلنا کڑھنا دوسرے کو نقصان پہنچانا سب حسد کے زمرے میں آتا ہے اسی طرح دوسرے کو کمتر اور پاؤں کی دھول سمجھ کر اسے اذیت اور تکلیف دینا تکبر کے زمرے میں آتا ہے۔حسد اور تکبر دونوں جب آپس میں ملتے ہیں تو انسان گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔کیونکہ حقوق اللہ کی تو معافی مل سکتی ہے مگر حقوق العباد کی کوئی معافی نہیں اور تکبر اور حسد دونوں میں انسان کو ہی تکلیف دی جاتی ہے۔دوسروں کو حقارت سے دیکھنا۔ان کو کمتر سمجھنا ان کے جذبات و احساسات کی قدر نہ کرنا۔ان کی روح کو اپنے لفظوں کے تیروں سے زخمی کرنا ان گناہوں کے زمرے میں آتا ہے۔تکبر نے ہی عزازیل جس کی عبادتوں کا شمار نہ تھا۔روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں اس نے سجدہ نہیں کیا تھا لیکن اس کی ساری عبادات ضائع ہو گئیں اور ابلیس بن گیا صرف تکبر کی وجہ سے۔تکبر انسان کے اخلاق پر دھبہ ہے کیونکہ تکبر بد اخلاقی کی جڑ ہے۔تکبر کی وجہ سے انسان اپنے لفظوں کے تیروں سے دوسروں کی روح کو زخمی کر دیتا ہے اور خود کو بڑا دکھاتے دکھاتے لوگوں کی نظروں میں بہت چھوٹا ہو جاتا ہے۔’’بعض اوقات انسان اپنی برتری ثابت کرنے کے زعم میں مبتلا ہو کر ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جس سے وہ دوسروں کا دل چیر ڈالتا ہے۔وہ الفاظ نہیں خنجر ہوتے ہیں جو اس انسان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے اسے اپنے اس ظلم کا پتا بھی نہیں چلتا”وہ سوچے بغیر دوسروں کو اتنا کم تر سمجھتا ہے کہ وہ سر ں کو کیڑوں کی طرح روند کر اپنے آپ کو کامیاب انسان سمجھتا ہے لیکن یہ کہاں کی کامیابی جس میں اللہ کی مخلوق کو تکلیف دی جائے۔قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائیں گے کہ اے میرے بندے میں بیمار تھا تونے میری عیادت نہیں کی۔اے میرے بندے مجھے کپڑوں کی ضرورت تھی تونے مجھے لباس نہیں دیا۔اے میرے بندے میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔تو انسان کہے گا یااللہ تو تو رب ہے۔تو ان سب چیزوں سے پاک ہے۔تو خالق ہے۔تو مالک ہے۔تو اللہ تعالی فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا۔میرا فلاں بندہ بیلباس تھا۔میرا فلاں بندہ بیمار تھا۔مخلوق کی مدد کرنا گویا اللہ تعالی اپنی مدد قرار دیتا ہے۔حالانکہ اللہ تو مالک ہے اسے ان مادی چیزوں کی ضرورت نہیں۔پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ کی مخلوق کو اپنے تکبر اور حسد کی وجہ سے تکلیف دیں اور اللہ تعالی ہم سے اس بارے میں پوچھ گچھ نہ کریں اور اللہ تعالی تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے بیشک اللہ تعالی کسی نفس پر ظلم نہیں کرتا”اگر ہم تکبر میں آکے کسی دوسرے کے دل کو چیر بھی دیں اور وہ کچھ نہ بولے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واقعی ہم سے کم تر ہے نہیں بلکہ اس نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہوتا ہے اور اس کے دل کی سرگوشی اللہ تعالی سنتا ہے اور جب کبھی ہم مصیبت میں مبتلا ہوں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کو تکلیف نہیں دی نہ ہی کسی کا حق مارا ہے لیکن درحقیقت ہمیں ہمارا تکبر برباد کر رہا ہوتا ہے۔کیونکہ سوچے سمجھے بغیر بولے گئے الفاظ کسی کے دل کی اور روح کی دنیا اجاڑ دیتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ ’’زبان کا زخم تلوار سے گہرا گھاو دیتا ہے “اور ویسے بھی ہمیشہ میٹھے بول بولنے چاہئیں تا کہ جب واپس لینے پڑیں تو کڑوے نہ لگیں کیونکہ ہر چیز کو اپنے ٹھکانے سے محبت ہوتی ہے۔تکبر انسان کو نہیں جچتا کیونکہ تکبر اکڑ ہے اور اکڑنا مردے کی پہچان ہے۔اور پھلدار درخت ہمییشہ جھکا ہوا ہوتا ہے اور ایسا درخت جو نہ پھل دے اور نہ سایہ وہ اکڑا ہوا ہوتا ہے اور ایسا درخت صرف ایندھن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اور جو قابل انسان ہو گا اس میں عاجزی ہوگی۔اللہ تعالی نے ہر انسان کو ہر کام میں ماہر نہیں بنایا بلکہ ہر ایک کو کسی نہ کسی کام میں ماہر بنایا ہے جیساکہ کہاوت مشہور ہے ’’جس کاکام اسی کو ساجھے”تو پھر اگر درزی کو کہا جائے کہ تم گھر تعمیر کرو وہ نہیں کر سکے گا حالانکہ کپڑے سینا بھی ایک فن ہے اور گھر تعمیر کرنا بھی فن ہے مگر دونوں فنوں کے فنکار مختلف ہیں جب انساں معاشرتی حیوان ھے تو غرور کس بات کا۔تکبر۔غرور اور حسد یہ چیزیں انسان کو گرا دیتی ہیں انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی برباد کررہا ہوتا ہے۔ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جو ہمارے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں تو ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے پاس جو ہے وہ ہمارے پاس نہ ہو۔دوسروں کو چھوٹا سمجھنا ہمیں چھوٹا کر دیتا ہے۔انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالی نہ تو ناانصافی کرتا ہے اور نہ ہی وعدہ خلافی اور نہ ہی ہمارا نصیب کسی اور کو دیتا ہے اور نہ ہی کسی اور کا نصیب ہمیں دیتا ہے پھر کیوں تکبر اور حسد سے خود کو بھی اذیت دیں اور دوسرے معصوم انسانوں کے جذبات و احساسات کو بھی کرچی کرچی کریں جو ان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی زخمی کر دیں۔انسان پیدا ہونا ہمارا فیصلہ نہیں ہوتا مگر اپنے اندر انسانیت اجاگر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اللہ کی مان کر انسان بنتے ہیں یا ابلیس کی مان کر حیوان بنتے ہیں۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题