مذاکرات ، مشتری ہوشیار باش

Published on February 10, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 408)      No Comments

\"Afsar
ہم اس سے قبل اپنی کالم ’’آؤہم سب مل کر اس آگ کو بجھائیں‘‘ میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کر چکے ہیں اس سے مراد ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو شعوری مسلمان کہتا ہے اور ملک کو اس آگ سے نکالنے کی خواہش رکھتا ہے کو اپنی اپنی جگہ ان مذاکرات کو کامیاب کرانے کی کوشش کرنی چاہیے یہ وہ آگ جس میں ہمارا پورا ملک تباہ ہو چکا ہے ،جس نے ہمیں مہذب دنیا میں بدنام کر دیا ہے ،جس کی وجہ سے ہماری عوام دو مخالف سمتوں میں بٹ چکی ہے، جس نے ہمای بہادرا فواج کو اپنے ہی شہریوں سے جنگ سے دوچار کر دیا ہے یہ تو اللہ کا کرنا ہے جن کی وجہ سے یہ �آگ پاکستان کے طول عرض میں بھڑکی تھی وہ تو مکافات عمل کے تحت گرفت میں ہیں مگر پھر بھی ان مذاکرات کے مخالف لوگ اپنے اپنے پتے پھینک رہے ہیں یہ صحیح ہے کہا کیا ہے کہ مذاکرات سے انتشار پسندوں کی امیدوں پر اُوس پڑ گئی ہے پہلا پتہ امریکی سفارت خانے نے اپنے سیاسی سیل کو متحرک کر کے کیا سیاسی سیل کے افراد نے پاکستانی سیاست دانوں سے ملاقاتیں کیں جس میں سفارت خانے کے پولیٹکل سیکرٹری نے رک والٹر نے بھی سیاست دانوں سے سن گن لینا شروع کر دی ہے ڈرون بھی شمالی وزیرستان پر مڈھ لاتے رہے جس وجہ سے مذکراتی ٹیموں کو بار بار اپنی لوکیشن تبدیل کرنی پڑی ہم سب کومعلوم ہے جب اس سے پہلے مذاکرات کی ڈول ڈالی گئی تھی تو دوست نماء دشمن امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے طالبان کے امیر حکیم اللہ مسعود کو ہلاک کر دیا تھا جس کابدلہ طالبان نے پاکستان میں جوابی کاروائی کر کے لیا تھا جس میں فورسز کے علاوہ بے گناہ شہری بھی شہید ہو گئے تھے کچھ لوگ کہتے ہیں شکر ہے کہ اس دفعہ مصیبت سے بچ کر مذاکراتی ٹیم شمالی وزیرستان سے صحیح سلامت واپس آ گئی دوسرے حملے نظریاتی ہیں مثلاً طالبان کونسی شریعت ہے چاہتے ہیں یہ سلوگن پاکستان میں کئی بار مذہب بیزار، سیکولر اور بیرونی پیچ پر کھیلنے والے کچھ روش خیال کالے انگریز ایسے ہر موقعہ پر عوام میں پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں علما ء حق ان کو ہر وقت ترقی بہ ترقی جواب دیتے رہے ہیں لہٰذا اس پر ہم زیادہ گفتگو نہیں کرتے البتہ ملک کے بہی خواہ حلقے اور علماء طالبان کی بندوق اور خود کش حملے سے شریعت کے نفاذ کے بھی مخالف رہے ہیں اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کل ہی جماعت اسلامی کے سیکرٹری جناب لیاقت بلوچ اپنی پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کر چکے ہیں۔ امن کے خواہ حلقوں نے طالبان کمیٹی کے رکن مولانا عبدلعزیز کی پریس کانفرنس اور شر یعت کے نفاذ کے بغیر مذاکراتی ٹیم سے اور حکومت سے مذاکرات سے علیحدگی پر بھی احتراض کیا گیا ہے اسی قسم کی مثبت سوچ کا طالبان نے بھی مظاہرہ کیا مولانا پہلے بھی لال مسجد حادثہ پر غلط روش سے معاملات کو خراب کرنے کا ایک سبب بنے تھے اور پھر وہ نہ جانے کس کی شہ پر وہ شروع میں ہی ناسمجھی کا مظاہرہ کر رہے ہیں طالبان نے تو لال مسجد اور مدرسہ حفصہ کی بے گناہ شہید بچیوں کی روح کو تقویت پہنچانے کے لیے ان کا نام مذاکراتی ٹیم میں ڈالا تھا مگر مولانا نے اپنے آپ کو اس مذاکراتی عمل کے قا بل صابت نہ کیا اور اپنے طرزِ عمل سے بے گناہ شہید بچیوں کی روح کو بھی تکلیف پہنچائی۔کچھ طالبان مخالف مسلکی دینی جماعتیں اور لکھاری بھی مذاکرات کے مخالف مظاہرے اور ان کے حمایتی کالم بھی لکھ رہے ہیں کاش کہ اس وقت وہ ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو منتقی انجام تک پہنچنے دیتے اور اگر طالبان اپنی روش میں کمی پر تیار نہ ہوتے تو شاید ان کے نکتہ نظر پرکچھ لوگ راضی بھی ہو تے مگر اس وقت ان حضرات کو ملک قوم کی خاطر کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور انتظار کر نا چاہیے۔ انگلش پرنٹ میڈیا پر تو پہلے سے ہی نام نہاد روش خیال قا بض ہیں اور وہ سیاسی اسلام کی مخالفت اپنے بیرونی آقاؤں کوخوش کرنے کی لیے پہلے کی طرح ہمیشہ کرتے رہتے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں الیکٹرانک میڈیا پر بھی ایسے ہی لوگ مسلط ہیں کچھ امریکی فنڈڈ ٹی وی مالکان اورٹی وی اینکر بھی ان کے ساتھ ہیں انہوں نے الٹی کنتی شروع کر دی ہے شرکاء ٹاک شو کو مذاکرات کے خلاف اُکساتے رہے بار بار شاہد اللہ شاہد کے برطانوی اشاعتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو کو ٹی وی پر دیکھاتے رہے کچھ اسڑیجک ڈیپتھ کا راگ الاپتے رہے کہ فوج کو فاٹا میں اس وقت رہنا چاہیے جب تک افغانستان سے امریکی فوج نکل نہیں جاتی ورنہ طالبان فاٹا سے افغان طالبان کی مدد کر کے وہاں طالبان اسلامی حکومت قائم کر دیں گے کیا افغان طالبان کو اپنے ملک میں اپنی مرضی کا نظام قائم نہیں کرنا چاہیے یا دنیا کے دوسرے مسلمان امریکی پٹھو حکمرانوں کی طرح امریکہ کا دم چھلا بننا چاہیے یہ کیسی سوچ ہے اس دفعہ کچھ ٹی وی اینکرز نے اپنی روش سے رجوع بھی کیا ہے اور طالبان کے ساتھ رابطے کا ذکر کرتے رہے اور اُن کا نکتہ نظر بھی پیش کرتے رہے ٹی وی پروگرام میں حکومت اور امریکی کی کارستانیوں ، حکومت اور طالبان کے درمیان پرانے معاہدوں پر غیرجانبداری سے تبصرہ
کیا ہے جو خوش آیند ہے ۔
قارئین! ان ساری مخالفتوں کے باوجود حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کی مخلص کوششوں کی وجہ سے طالبان نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات پر رضاہ مندی ظاہر کر دی ہے جو ایک نیک شگون ہے مگر بھی ہم گذارش کرتے ہیں کہ ہر طرح سے مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے مقامی اور بیرونی ملک دشمن قوتیں اپنی اپنی اسطاعت کے مطابق اب بھی حملہ کر سکتے ہیں آج ہی کراچی میں ایک آستانے پر حملہ کیا گیا جس میں بے گناہ لوگ شہید ہو گئے اور اس مسلک کے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا دشمن کے ہر حربے کو ناکام بنانا ہے اس لیے گزارش ہے کہ مشتری ہوشیارباش رہیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog