کرب وبلا کی جنگ Article by Dr.B.A.Khurram

Published on September 9, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 448)      No Comments

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
کرب وبلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی تو فرمایا کہ اے ام سلمہ ابھی اپنے حسین کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کرب وبلا سے آ رہا ہوںجاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انہوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام عالی مقام سےد الشہدا ءحضرت امام حسےن رضی اللہ عنہ کی شہادت باسعادت کا واقعہ کرب وبلا 61ہجری میںدس محرم الحرام میں ظہور ہوا اسے یوم عشور بھی کہا جاتا ہے مُحرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے محرم کے معنی تعظیم کیا گیا اور حرام کے معنی عظمت والاہے اس روز حق اور باطل کی جنگ تھی جس میں باطل ہمیشہ کے لئے مٹ گیاجبکہ حق کا آج بھی بول بالا ہے یزیدی ٹولہ منہ چھپائے پھر رہا ،قربان جائیں امام عالی مقام سےد الشہدا ءحضرت امام حسےن رضی اللہ عنہ کی شہادت کی شان اور غم ابھی تک تازہ ہے روئے زمین پہ اٹھنے والی آزادی کی آواز درحقیقت حسین آواز کی بازگشت ہی تصور کی جائے گی ظلم آخر ظلم ہے جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے مظلوم کی آہ عرش بریں پہ جب جاتی ہے تو پھر ظلم نیست و نابود ہوجاتا ہے کرب وبلا کی جنگ میں اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی فوج نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علی کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے حسین ابن علی (امام حسین) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے ”حسین“ نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسین منی و انا من الحسین یعنی”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“اسلامی سال کا آغاز نو محرم الحرام کے بابرکت مہینہ سے ہوتا ہے اس ماہ میں بہت سی حقیقتیں پنہاں ہیں یوم عاشور میںآسمان اور زمین بنی،حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت باسعادت اسی روزہوئی ان سے جو غلطی ہوئی معافی کا روز بھی یہی تھا حضر ت ا برھیم علیہ ا لسلا م کو خلیل ا للہ کا لقب کا انعام یوم عاشور کو ملاان کے لئے آگ بھی اسی روز گل وگلزار ہوئی،ہولناک طوفان اور سیلاب سے نجات حضر ت نو ح علیہ ا لسلا م کواسی دن ملی،حضر ت یو سف علیہ ا لسلا م کو اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے ملاقات ، قید سے رہائی اور مصر کی حکومت کا ملنا بھی اسی روز ہوا،حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے ظلم سے نجات بھی یوم عاشور کو ہی ملی،تورات کا نزول بھی اسی روز ممکن ہوا، حضر ت ا یو ب علیہ ا لسلا م کو شفایابی اور حضر ت سلیما ن علیہ السلا م کو با د شا ہت کی واپسی کا دن بھی دس محرم الحرام تھاحضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش و دنیا سے اٹھایا جانا بھی اسی روز ہوا ،حضر ت یو نس علیہ ا لسلا م کی قو م کی تو بہ اور مچھلی کے پیٹ سے نجات کا واقعہ اسی روز سرانجام پایا،ہمارے پیارے نبی آقاجی محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کا پہلا نکاح مبارک حضرت خدیجہ سے اسی روز ہوا،امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی دس محرم کو ہوئی دنیا میں پہلی باران رحمت کا ظہور بھی اسی روز ہوا۔ابو قتادہ ؓ کی حدیث کا مفہوم ہے رسول اللہ دس محرم یعنی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اس سے انسان کے گذشتہ سال کے گناہ اللہ معاف فرما دیتا ہے ایک دوسری حدیث میںحضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے رسول اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو پتہ چلا یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی، حریت فکر، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی یزید ی حکومت کے رفقاءنے نواسہ رسول کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے شہید کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال تھی حضرت امام حسن بن علی سے امیر معاویہ نے کسی کو خلیفہ نامزد نہ کرنے کامعاہدہ کیا تھا مگر حضرت امیر معاویہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے شخصی حکومت کا جواز پیدا کرتے ہوئے دین کی خلاف ورزی کی تھی ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے امیر معاویہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا ان حالات میںحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے سفر مکہ اختیار کیا ا ور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لیے روانہ ہوئے سینکڑوں خطوط لکھ کر امام عالی مقام کو کوفہ بلایا گیا لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کرتے ہوئے ساتھ دینے سے انکاری ہو گئے یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا امام عالی مقام حضرت امام حسین اور ان کے پیروکارہمیشہ کے لئے امر ہوگئے شاہ است حسین بادشاہ است حسین، واقعہ کرب و بلا عالم اسلام کے لئے سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ ہے امام حسین نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی یوم عاشور کو حق و باظل کے درمیان جو جنگ ہوئی اس میں یزیدی قوتوں کے بت پاش پاس ہوگئے ۔

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes