ایک مجلس، ایک فیصلہ، ایک ٹارگٹ۔۔۔۔ حضرت علیؓ و حضرت معاویہؓ

Published on May 14, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 207)      No Comments


تحریر۔۔۔ فظ مطیع الرحمان جمال
حضرت عثمان غنیؓ کی شھادت کے بعد صحابہ کرامؓ میں حضرت عثمانؓ کے قصاص پہ اختلافات نے طول پکڑا تو کفر نے اسکو مزید بڑھاوا دینے کیلئے خوب منافقت کا کردار اپنایا اور جلتی پہ خوب تیل چھڑکتے رہے۔۔۔
جب ان سازشوں کا ادراک حضرت علی المرتضٰیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کو ہوا تو باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے مشاورت شروع ہوئی۔۔۔۔
آخر کار حضرت علیؓ و حضرت امیر معاویہؓ کے مابین مشاورت سے دورکنی کمیٹی، شورٰی وجود میں آئی جس پہ اس فیصلہ کا اختیار چھوڑ دیا گیا کہ وقت کا خلیفہ، امیر الم¶منین کون ہوگا۔۔۔
یہ فیصلہ اور کمیٹی یا شورٰی کی تشکیل حضرت علیؓ و حضرت امیر معاویہؓ کی مشاورت و رضامندی سے طے پایا۔۔۔
یہ دو رکنی کمیٹی جسے خلیفہ وقت کے انتخاب کا ٹاسک سونپا گیا جلیل القدر صحابی رسول {صلی اللہ علیہ وسلم} حضرت ابو موسٰی اشعریؓ اور عمرو ابن العاصؓ پہ مشتمل تھی۔۔۔
منافقین اور خارجی اس بات کو اب سمجھ چکے تھے کہ کمیٹی کے فیصلہ کے بعد مسلمان اپنی صفوں میں پھر سے مضبوط تر ہوجائے گے اور انکے تیار کردہ سب منصوبوں پہ پانی پھر جائے گا۔۔۔
لہٰذا ان خارجیوں نے ان دونوں فرقین سے بغاوت کا اعلان کیا اور قتل و غارت، معاشرے میں انتشار پھلانا شروع کردیا۔۔۔
بلاآخر حضرت علیؓ نے ان خارجیوں سے جنگ کا فیصلہ کیا اور نہروان کے مقام پہ جا کر انکا صفایا کیا۔۔۔
نہروان بغداد کے قریب ایک شہر تھا جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی۔۔۔ یہاں یہ باغی قتل و غارت چوری لوٹ مار اور امیرالم¶منین کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔۔۔
انکی کل تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی۔۔۔ جنگ نہروان میں سب کے سب مارے گے۔۔۔ جن میں سے بس دس یا بارہ خارجی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہی میں سے ایک ابن ملجم بھی تھا۔۔۔
اس جنگ کے بعد بھاگنے والے خارجیوں نے مکہ میں ایک مشترکہ ملاقات کی اپنی شکست پہ تبادلہ خیال کیا اور اب فائنل اپنے انتقام کا منصوبہ بنایا۔۔۔ ان خارجیوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں مرکزی شخصیت رکھنے والے عظیم سپاہ سالاروں کو شہید کر دیا جائے تاکہ اپنی شکست کا بدلہ چکا سکے۔۔۔
یہ تین جلیل القدر صحابیؓ
حضرت علی المرتضی
حضرت امیر معاویہؓ
حضرت عمرو بن العاصؓ تھے۔۔۔ حضرت علیؓ کو ابن ملجم، حضرت امیر معاویہؓ کو حجاج بن عبداللہ برک اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو عمرو بن بکر التمیمی نے مارنے کی ذمہ داری لی اور ایک ہی دن ایک ہی وقت نماز فجر مارنے کا فیصلہ کیا اور اپنے سفر پہ نکل پڑے۔۔۔
چنانچہ 26 جنوری 661ءمسجد کوفہ میں نماز فجر کے دوران حالت سجدہ میں ابن ملجم نے اپنے زہر آلود خنجر سے حضرت علی المرتضیٰؓ پہ وار کیا، آپؓ اس وار سے زخمی ہوئے مگر زہر کی وجہ سے تیسرے دن 21 رمضان المبارک 40ھ 28 جنوری 661ءکو آپؓ کی شھادت واقع ہوگئی۔۔۔
آپؓ کی شھادت کے تیسرے روز آپؓ کے صاحبزادے حضرت امام حسنؓ نے خود اپنے ہاتھوں ابن ملجم کو جہنم واصل کیا۔۔۔
حجاج بن عبداللہ برک حضرت امیر معاویہؓ پہ حملہ کرنے سے پہلے ہی گرفتار ہوگیا اور اسے سزا موت دے دی گئی۔۔۔
حضرت علیؓ کی شھادت کے بعد خلافت حضرت امام حسنؓ کو ملی  لوگوں نے انکے ہاتھ پہ بیعت کرنا شروع کردی۔۔۔
خلیفہ بننے کے بعد کوفہ والے مسلسل حضرت امام حسنؓ کو حضرت امیر معاویہؓ سے جنگ کیلئے اکساتے رہے۔۔۔
مگر آپؓ نے اپنی دور اندیش صلاحیت کی وجہ سے  مفاہمت، باہمی صلح اور مسلم صفحوں میں اتحاد کی روح پھونک دی۔۔۔ چناچہ آپؓ کا دور خلافت چھ ماہ تک رہا پھر امام حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پہ بیعت کر لی اور کئی سالوں سے جاری جو دور عثمانیؓ سے شروع ہونی والی  اندرونی خانہ جنگی تھی اس کا خاتمہ ہوا۔۔۔
اس طرح آپؓ نے رسول اللہ کی ایک حدیث کو عملی جامہ پہنایا جس میں رسول اللہ نے حضرت حسن کی طرف اشارہ کرتے فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شائد اس کے ذریعہ اللہ تعالٰی مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes