افلاس اور بھوک نے جانیں نگل لیں

Published on March 13, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 553)      No Comments

\"i102\"
سندھ کے ضلع تھرپارکر میں قحط سالی کا آغاز جنوری 2014 کے درمیان میں ہوایہ سلسلہ شروع ہوا اور اموات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب تک28 1 زندگیوں کے چراغ غل ہوچکے ہیں جن میں کثیر تعداد نوزائیدہ بچوں اور چند سالہ چھوٹے پچوں کی ہے۔تھرپارکر کے کچھ علاقہ جات میں یہ قحط پچھلے کئی برسوں سے بدستور اضافہ پا رہا ہے۔حکومتِ سندھ کی طرف سے فنڈز جاری کیے گئے اناج کی بوریاں بھیجنے کا اعلان بھی ہو امگر یہ اناج روانہ تو ہوئی مگر متاثرین تک پہنچ نہ سکی اور گوداموں میں سڑتی رہیں۔جبکہ ڈسڑکٹ تھر پارکر کے نواحی علاقوں میں لوگ اور جانور یکساں کھاتے پیتے رہے ہم شروع سے ہی اس بات پر شکر ادا کرتے رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوتا ۔مگرایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں پانی کی شدید قلت ہے ،تھرپارکر میں بہت کم بوندا باندی ہوئی اور بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی کمی کا سامنا ہوا۔زمین بنجر ہوگئی فصلیں زیرِآب نہ آسکیں اور اس طرح یہ قدرتی آفت آن پڑی بجائے کے اس کا سدِباب کیا جاتا اس پر توجہ ہی نہ دی گئی اور لاپرواہی اور بے حسی کی کھلی داستان اب سے پانچ روز قبل میڈیا نے کھول دی اور چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ضعیف وزیرِاعلیٰ کو احکامات صادر کیے ٹوئٹر پر ٹوئٹز کیں کہ جلد ایکشن لے لیا جائے گا۔بزرگ وزیرِاعلیٰ متاثرہ علاقے میں خود تو پہنچ گئے مگر اناج کی بوریاں وہاں مزید تاخیر کے بعد ہی پہنچیں۔پنجاب حکومت کی تشہیر کرتے ہوئے سندھ کی حکومت نے بھی سندھ فیسٹیول منعقد کروایا جس میں ناقص انتظامات اور ٹوٹے ہوئے ریسنگ ٹریک نے شرکاء کی زندگیوں کو خطرہ لاحق کیا۔محترم صوبائی وزیرِاعلیٰ میڈیا کو کچھ بتانے سے قاصر رہے اور اس بات پر زور دیا ’’سائیں سب اچھا ہے‘‘ تاہم دو دن پہلے وزیرِاعظم نواز شریف سمیت کئی مخیر افراد وہاں پہنچ گئے اس سے پہلے وزیرِاعظم نے امداد کے لیے ہیلی کاپٹر بھی مہیاء کیے اور سماجی حضرات نے بھی سامان ارسال کیا۔ بجائے صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے وفاق نے جانوں کی قدروقیمت کا احساس کیا اور فوری طور پر ممکنہ مدد کی۔ملک ریاض حسین اور خواجہ غریب نواز کا جذبہ عطیہ بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ہزاروں خاندان اجڑ گئے مویشی بھی بوجہ بھوک اور پیاس جاں بحق ہوگئے پر ابھی تک کیے گئے انتظامات ناکافی ہیں۔ڈسٹرکٹ تھر پارکر میں کئی ہیلتھ یونٹس بھی شٹ ڈاوُن ہوگئے جس کی تصدیق محکمہ صحت نے کی۔مختلف وباوُں نے فروغ پایا لوگ نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے،قمرزمان کائرہ نے فرمایا کہ لاپرواہی سے انکار نہیں ہے ذمہ داران کے خلاف کاروائی ضرور ہوگی ۔مگر جناب کائرہ صاحب نے اس بات کا تعین نہیں کیا کہ یہ کیسی غفلت اور بے حسی ہے جو کہ اتنے زیادہ افراد کے قتل کی وجہ بنی افسران کو معطل کرنے کے پیچھے مقصد کاروائی کرنا تھا یا مجرمان کوفرار کروا دینا ہے؟۔اس سے پہلے تھر میں قیمتی ورثاء مور وبا کا شکار ہو کرمرتے چلے گئے اورحکومتِ سندھ بروقت ویکسینیشن میں ناکام رہی،ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں مرگئی ۔اب یہ غذائی قلت انسان کو بُری طرح متاثر کیے ہوئے ہے اور روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔تھرپارکر مٹھی میں جب اہم شخصیات کے قدم پڑے تو اسپتال انتظامیہ بخلاگئی اور اسپتالوں کے دروازے لاک کردئیے گئے اور باہر ہی اوپی ڈی مرکز قائم کردیا۔ریگستان کی تپتی ہوئی زمین مسلسل بھوک اگلتی رہی اورننہی جانیں غذائی قلت کے باعث مرجھاتی رہیں۔ضلع کے تقریبا 3000 دیہات ایسے ہیں جہاں نہ ہی طبی امداد پہنچ سکی نہ ہی غذائی کئی لوگ ایسے ہی جو اسلام نگر اور مٹھی کی جانب مسافت طے کرنے کی ہمت باقی نہیں رکھتے اور حیوانات کے ساتھ ہی ایک تلاب میں پانی پیتے دکھائی دیتے ہیں۔ہم بھی کس قسم کے لوگ ہیں جب کوئی واقع پیش آجائے یا تو ہمدردی کے احساس میں رونے لگ جاتے ہیں یا پھر ایک دوسرے سے اس ایشو پر بات کر کے دل کو تسلی دیتے ہیں اپنی ذاتی حیثیت سے کچھ کر گزرنے کو اہمیت نہیں دیتے کہ ہمارے اس قدر قلیل ھدیہ دینے سے کیا ان لوگوں کی حالتِ زار تبدیل ہوگی یہ ہی سوچ جانے انجانے میں ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ ہم بے حسی کی چادر اوڑھ لیں۔لاھور کے پوش علاقے میں ماں کے ہاتھوں دو بچوں کے قتل کو سیاسی رنگ دینے کی بہت کوشش کی گئی مگر آخر میں پتا یہ چلا کہ اس خاتون کی نفسیاتی حالت ہی درست نہ تھی کیونکہ اس کے سسرالیوں کی طرف سے اس پر بہت ظلم وستم کیے گئے تھے انکے گھر میں دو مہنگی گاڑیاں کھڑی تھیں اور نیچے کرائے پر دی گئی دوکانوں سے کرایہ بھی آتا تھا۔سندھ میں گرانی کے جائے موقع پر جب لوگ بلک بلک کر مر رہے تھے تو حکومتِ سندھ کی جانب سے مہنگے ترین لذیذ کھانے کا انتظام اس بات کو واضح کیے ہوئے تھا کہ حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کو ن مرے یا کون جیئے انہیں بس اپنے کھانے سے مطلب ہے۔’’جو گراں تھے سیئنہ خاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر،جنہیں زندگی کا شعو ر تھا انہیں بے زری نے مٹا دیا‘‘ ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes