ملکی ترقی میں خواتین کا اہم کردار

Published on July 24, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 287)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
جرمنی میں 19.5ملین جوڑوں میں 8.4ملین جوڑوں کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہے۔ شرح پیدائش گھٹ رہی ہے۔ تین یا اس سے زیادہ بچوں والے گھرانوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔جبکہ ایک یا دو بچوں والے گھرانوں کی تعداد زیادہ ہو رہی ہے۔ حکومت کو فروغ خاندان کی اہمیت کا احساس ہے۔ جس کا ثبوت بچے کی پرورش کا الاﺅنس اور بچے کے لئے چھٹیوں کا قانون ہے۔ جس گھرانے میں سے کوئی ایک بچے کی دیکھ بھال کےلئے گھر میں رہتا ہے۔ اسے 18ماہ تک 600مارک ماہانہ الاﺅنس دیاجاتا ہے علاوہ ازیں بچے کی پرورش کے لئے چھٹی بھی دی جاتی ہے۔ 1992ءسے تین سال کی چھٹی دی جارہی ہے۔ اس مدت کے دوران والدین کو نوٹس نہیں دیا جا سکتا ایک اور فائدہ اور رعائت یہ ہے کہ بچے کی پرورش کی مدت (جو1992ءمیں اس کے بعد پیداہونے والے بچوں کے لئے تین سال ہے)اسے والدین کی پنشن کے کلیم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 1992ءسے خاندان کے کسی بیمار فرد کی دیکھ بھال میں صرف ہونے والے وقت پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ جرمنی میں خواتین کو 1918ءسے ووٹ ڈالنے اور انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اگر چہ سیاست میں سرگرمی سے دلچسپی لینے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اب بھی اس شعبے میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے اپنی مجالس عاملہ میں خاتون نمائندوں کی تعداد بڑھانے کی غر ض سے کوٹہ سسٹم شروع کیا ہے۔ 1961ءکے بعد ہر وفاقی حکومت میں کم از کم ایک خاتون وزیر ضرور شامل رہی ہے۔ موجودہ حکومت میں چار خواتین وزارت کے منصب پر فائز ہیں۔ وفاقی پارلیمنٹ کی دو خاتون صدر اسپیکر رہی ہیں۔ اب خواتین اور نوجوانوں کے امور کی ایک الگ وفاقی وزارت ہے۔ جو 1991ءمیں قائم کی گئی تھی۔ تمام علاقائی حکومتوں میں خاتون وزرا ہیں۔ 1250سے زائد بلدیات نے خواتین کے لئے خاص طور سے مساواتی اسامیاں قائم کی ہیں ۔حکومت اپنے یورپی برادری کے ساتھی ممالک کے تعاون کی ترقی کی تنظیم میں خواتین کو یکساں حقوق دلانے کے لئے کام کر رہی ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق میں برابری کے متعلق قانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ خواتین کی موثر ومضبوط تحریک بھی ابھری ہے۔ جو خواتین سے امتیازی سلوک کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ تحریک خواتین کی پہلے سے موجود تنظیموں کے علاوہ ہے۔ اس تنظیم نے مصائب و مشکلات کی شکار بیویوں اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز بھی قائم کئے ہیں ۔ اس وقت ملک میں ایسے مراکز کی تعداد 324ہے۔قانونی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ مقصد جرمنی کے بنیادی قانون میں برابری کا اصول شامل کئے جانے کے 40سال بعد حاصل ہوا ہے۔ اگر چہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ جس میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی گنجائش ہو یا جس کے زریعے خواتین کے لئے کسی خاص کردار کا تعین کیا گیا ہو۔ لیکن اس کے باوجود بعض صورتوں میں خواتین سماجی لحاظ سے نقصان میں ہیں اور انہیں مشکات کا سامنا ہے۔ جس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ حالات کا راور معاشرے کے ڈھانچے کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے۔ اس لئے خواتین کو سحیح معنوں میں عملاً برابری کے حقوق دلانے کے لئے ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کونسل حقوق نسواں کے لئے سرگرم عمل ہے۔ یہ کونسل خواتین انجمنوں کی مرکزی تنظیم ہے۔ اور 47انجمنوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ جن کے ارکان کی مجموئی تعداد تقریباً11ملین ہے۔ہمارے ہاں بھی وقت گزرنے کے ساتھ خواتین کو ہر شعبہ میں اہمیت دی جاتی ہے حتیٰ کہ پولیس ، فوج،اےرفورس جیسے شعبوں میں خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں بری فوج میں ایک لفٹینیٹ جنرل کے عہدے پر ایک خاتون کو ترقی دی گئی ہے۔ امید ہے کہ آہستہ آہستہ خواتین ہر شعبہ میں اپنا خاص مقام بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی جنرل مشرف کے دور میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی گئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ آگے بڑھتا جارہاہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں بھی خواتین کو نمائیاں کردار ملے ہیں ۔ محترمہ بے نظیربھٹووزیراعظم بھی رہ چکی ہیں۔سیاست میں گاہے بگاہے خواتین کی دلچسپی روزبروز بڑھتی جارہی ہے ۔ اور یہ عمل جاری وساری رہنا چاہیے۔ مرد کے شانہ بشانہ عورت کا آگے بڑھناملکی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اب ہمیں منافقت کے پردے چاک کر دینے چاہئیں ۔ جرمن میں بھی عورت کی حکمرانی ہے اور نیوزیلینڈمیں بھی خاتون سربراہ ہے جو مساوات کی دلدادہ ہیں اور انصاف کی فراہمی اس کی پہلی ترجیع ہوتی ہے۔وہ مسلمانوں سے بہت زیادہ پیار کرتی ہیں ۔اور انہیں اپنے ملک کا محب وطن شہری گردانتی ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog