امریکی حکمران اور یہودیت کے آہنی شکنجے

Published on November 5, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 201)      No Comments

تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد وافر وسائل ، افرادی قوت اور جدید عسکری ٹیکنالوجی نے امریکی حکمرانوں کو اس قدر مغرو راور بے لگام بنا دیا ہے کہ پوری دنےا کو اپنا غلام سمجھنے لگے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ اقوام متحدہ کو بھی انہوں نے اپنی باندی بنا لیا ہے جس ملک کو امریکی کرش کرنا چاہیں اقوام متحدہ کو یہ فرض سونپ دیا جاتا ہے اور وہ امریکی احکامات اور فیصلوں کو حتمی سمجھ کر معاملہ ایک دو گیارہ کر دیتی ہے اور جہاں دوسرے کسی ملک کو امریکی تصورات کے خلاف آواز اُٹھانے کی قطعی ہمت و جرات نہیں ہوتی لگتا یوں ہے کہ امریکی شہریوں کا ان معاملات و واقعات میں کوئی عمل دخل اور دوش نہیں کیونکہ حکومتی ایوانوں اور تجارتی و اقتصادی مراکز پر یہودیوں کا مکمل قبضہ اور پہرہ ہے امریکی حکمران یہودیوں کی پالیسیوں کے تابع ہیں اور وہ ایسا کرنے پر قطعی مجبورہیں اس بات کی حقیقت کا ثبوت مصری صدر انور سادات کے ان فقرات سے ملتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب “آپ بیتی©”میں تحریر کیے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شکست کھانے کے بعد جب انہوں نے اپنے علاقے و اگذار کرانے کے لئے اس وقت کے امریکی صدر مسٹر کارٹر سے ذاتی رابطے کیے اور ان سے مدد و تعاون کی اپیل کی تو امریکی صدر نے انتہائی مایوسی کے عالم میں سوچ بچار کے بعد انور سادات کو اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتا کرنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی مسٹر کارٹر نے کہا کہ وہ سرائیل کو ان معاملات میں دباﺅ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ان کی نوکری بھی ان لوگوں کی مرہومِ منت ہے یہی وجہ تھی کہ مصری صدر انور سادات نے مصری عوام کے مفاد میں کیمپ ڈیوڈ ایسے ذلت آمیز سمجھوتے کے سامنے سر جھکا دیا آج تک جتنے بھی مسلمان ملکوں کے درمیان جنگی تصادم یا چھوٹی موٹی نفرتیں یا لڑائیاں جنم لے رہی ہیں اس کے پیچھے یہودیوں کی خفیہ عالمی تنظیموموں کا ہاتھ ہوتا ہے” نیو ورلڈ آرڈر “دراصل امریکی حکمرانوں کی تخلیق نہیں بلکہ یہ یہودی ورلڈ آرڈر ہے جس کی تکمیل یہودی امریکی حکمرانوں کے کندھے پر رکھ کر کرنے کی ناکام جسارت کر رہے ہیں اس تمام حقیقت سے امریکی عوام کی سنجیدہ حلقے اور دانشور بخوبی آگاہ ہیں لیکن وہ بھی بے سُدھ اوربے بس بھیڑ کی طرح خونی بھیڑیے کے سامنے گردنیں جھکائے کسی غیبی امداد کے ظالب بنے بیٹھے ہیں عراق ایران کی آٹھ سالہ جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل کھربوں روپے کے اسلحے کا ضیاع اور مزائیلوں اور بمبوں سے تباہ ہونے والی قیمتی املاک کسی یہودی یا امیرکی کی نہیں تھیں اور پھر کویت پر عراقی قبضے کے ٹوپی ڈرامے کے نتیجے میں یہودی عالمی خفیہ ایجنسی کے ایما پر بغداد کی تباہی و بربادی امریکی شہریوں کی کسی امکانی و منتقی خواہش کی تکمیل نہ تھی بلکہ اسرائیل کو اس علاقے میں محفوظ بنانے کی یہودی عالمی سازش کی ایک کڑی تھی اب عراق اور لیبیا کے بعد ایران پر اقتصادی پابندیوں کا ڈرامہ بھی یہودیوں نے اسلامی انقلاب کے ایٹم بم سے بچنے کے لئے امریکی حکمرانوں کی گردن پر توپ کی نالی رکھ کر چلائی ہے ایران ایک ایسااسلامی ملک ہے جو کبھی طویل عرصہ تک شاہوں کے تسلط میں بُری طرح جکڑا ہوا تھا اور یہاں مغربی ثقافت و تہذیب کی گہری چھاپ چرھ گئی تھی ۔ فسطائی قوتوں کے وہم و گمان میں یہ تصور تک نہ تھا کہ کبھی ایران پرپڑی ہوئی مغربیت کی کھال کسی کٹر مولوی کے ہاتھوں اُتر جا ئے گی اور یہودیت و سامریت مولوی کی چُھری سے ذبح ہوکر اپنی موت آپ مر جائے گی طاغوتی قوتوں کو ایران سے نہیں بلکہ اسلام سے خطرہ ہے ا سلامی بم کے خدشات و شبہات نے ان قوتوں کو متحرک کر رکھا ہے مسلمانوں کے لئے ان قوتوں کا یہ حرکت و عمل کسی پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہئیے کیونکہ تاریخ ایسے واقعات اور سازشوں سے اَ ٹی پڑی ہے قربانی ، صبر ، قناعت اور جہاد مسلمانوں کو اللہ رب قدوس کے نبی ﷺ اور اس کے نواسوں کے صدقے ورثے میں ملا ہے اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا ایران ، عراق ، لیبیا شام ، سوڈان کی عوام یہودیوں کی سازشوں کو مکمل طور پر جان چکے ہیں اس لئے وہ اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور یہودی لابیوں کی طرف سے مختلف صورتوں میں پہنچنے والے ہر نوع کے نقصانات کو خون کے گھونٹ پی کر برداشت کررہے ہیں امریکی حاکم بھی ان مسلمان ممالک کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جو دنیا کے کسی کونے یا علاقے میں مسلمانوں پر ہونے والے غیر انسانی ظلم و ستم اور بر بریت کے خلاف نا صرف آواز بلند کرتے ہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے بھی دکھاتے ہیں اور یہ عمل یہودیوں کے نظریات و افکار سے قطعی متصادم ہیں بوسییا ، چیچنیا، فلسطین اور کشمیر میں جو ہولناک مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور جس بے دردی سے انسانیت کی تذلیل کی جارہی ہے اس پر تو یہودیوں اور امریکی پالیسی ساز اداروں کے اعصاب پر معمولی سی خارش بھی نہیں ہوتی لیکن جب انسانیت کے لیڈروں کے خلاف مزاحمت کے لئے کوئی مسلمان براد رملک سوئی بھی اُٹھاتا ہے تو وہ ان کے سینوں میں نشتر بن کر چبھتے ہیں ان حقائق سے یہ بات قطعی واضح ہوجاتی ہے امریکی حکمران امریکیوں کی خواہشات و نظریات کے قطعی بر وعکس ان کو بنیاد پرستی کا ہوا دکھا کر مسلمانوں کو یہودیوں کا غلام بنانے کی ناکام سعی و کوشش میں مصروف کار ہے اور یہ بات امریکیوں کے اپنے مفاد میں نہیں جاتی اس طرح امریکہ نہ صرف مسلمانوں میں اپنا اعتبار و اعتماد کھو بیٹھا ہے بلکہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں سے نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ بیٹھے گا اور بالآخر نفرت و اعناد کی یہ سلگتی چنگاری آگ بن کر پوری دنیا کے امن و سکون کو مکمل طور پر بھسم کر کے رکھ دے گی امریکیوں کو چاہئیے کہ وہ ان کاروائیوں کے پس پردہ حقائق و عزائم سے آگاہی حاصل کریں اور وہ مسلمان ملک جو جمہوریت کے فروغ اور اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے فرقہ واریت سے ہٹ کر کوشاں ہیں کم از کم ان کے ساتھ تو منصفانہ اور دوستانہ انداز میں معاملات نپٹائے اور ایسی روش و دوغلی پالیسیوں کو اختیا ر نہ کرے جس سے وہ اپنے پاﺅں پر ہی کلہاڑی چلا بیٹھے کیونکہ امریکہ اپنے مفادات کے لئے نہیں بلکہ یہودیت کو محفوظ بنانے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ترش اور غیر منصفا نہ طرز عمل اکتیار کیے ہوئے ہے امریکی حکمران یہ نہ سمجھیں کہ روس مر چکا ہے سوشلزم دفن ہو چکا ہے اور روسی گدا گر بن گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ظلم نا پسند ہے وہ فرعون کو تباہ کرنے کے لئے کسی وقت بھی موسیٰ پیدا کر سکتا ہے اور کسی وقت بھی امام خمینی کی صورت میں کوئی مسلمان اُٹھ کر جہاد کا اعلان کر سکتا ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جرمن سر زمین پھر ہٹلر کو جنم دے کر یہودیوں کے لئے زمین تنگ کر دے پھر امریکی خود کو بچائیں گے یا یہودیوں کو۔ اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئیے ظلم و بربریت کے خاتمے کے لئے سب قوموں کو ایک ہو کر کام کرنا چاہئیے اسی میں سب قوموں کی بقاءہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes