تحریر۔۔۔ مہر سلطان محمود
اسے ایک المیہ کہیے یا بدقسمتی کہ ہمارے معاشرے میں معصوم اور ننھے بچوںکے ساتھ جنسی تشدد ، اُن کے ریپ و قتل کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔روک تھام بالکل نہیں ہے ۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ حکومتی تمام تر کوششوں کے باوجود ،زینب الرٹ بل اور اس سے ملتے جلتے بہت سے بل لانے ،بہت سے جنسی بھیڑیوں کو پکڑنے اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے باوجود بھی معاملہ جوں کا توں ہے ۔کنٹرول بالکل نہیں پایا جاسکا۔حکومتی گڈگورننس کے تمام تر دعوﺅں کے باوجود اس حوالے سے ٹھیک ہواکچھ بھی نہیں ۔جدھر دیکھو ،ننھے معصوم بچے جنسی تشدد جیسے ظلم وستم کا شکارنظرآتے ہیں۔ملک کے طول وعرض میں آئے روز اس حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر آتی ہی رہتی ہے اور ایسا کون کمینہ خصلت شخص کرگیا ،کا پتاہی نہیں چلتاہے۔حکومت و اس کے اداروں کو ایسے بدبخت افراد کا پتا لگانے کے لیے بہت مشکلات و مسائل سے گزرنا پڑتا ہے تب جاکر معلوم پڑتاکہ ایسا فعل کون سر انجام دے گیا،اکثرتو پتا ہی نہیں چلتا اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور پکڑ میں ہی نہیں آتے اور یوں اکثر اندھے قتل کا سراغ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتاہے۔ اب تو ہمارے معاشرے کا عالم یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ۔نہ کوئی بچہ نہ کوئی عورت۔ افسوس یہ صورتحال ہمارے لیے باعث شرم اور سوچنے کا مقام ہے کہ ہم بحثیت معاشرہ اور فرد کہاں بھٹکے ہوئے چلے جارہے ہیں ۔اس پر کیا کہوں ،کیا بولوں،بولنے کے لیے رکھا ہی کیا ہے ۔ایک واقعہ پر لکھے کالم کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوتی کہ دوسرا واقعہ ہوجاتاہے ۔واقعات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔اب تو خود پر بھی شرم آتی ہے کہ ہم کیسے معاشرے میں رہ رہے ہیں کہ جہاں افراد کی نہ جان محفوظ،نہ مال محفوظ اور نہ ہی عزت کا کوئی تحفظ ہے ۔لکھتے لکھتے قلم گھس جاتاہے مگر بچوں کے جنسی استحصال ،ان سے ریپ اور قتل میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آتی ہے ۔ویسے تو بہت سے ایشو ہیں جن پر میں قلم اٹھانا چاہتاہوں مگر آج میں اس ضلع قصور پر، جس میں قصور کی ننھی زینب ،حسین خانوالا کے ڈھائی سو کے قریب بچوں سے جنسی زیادتی کے اور چونیاں میںچار کم سن بچوں سے جنسی زیادتی وبعدازاں قتل جیسے شرم ناک واقعات ہوئے ،میں ہی دوبارہ سے لیے چلتاہوں کہ جہاں کی فضاءبچوں سے جنسی درندگی کے حوالے سے ابھی بھی اچھی طرح دھلی نہیں ،خوف و ہراس کی فضاءابھی تھمی نہیں ،بے سکون و بے قرار دلوں کو قرار آیاہی نہیں ہے کہ ایک اور انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوگیا ہے جس کی گھتیاں ابھی سلجھائی جارہی ہیں جس پر ابھی پولیس کی طرف سے تحقیقات جاری ہیں۔ہوا کچھ یوں کہ بھگیل سنگھ گاﺅں کاایک بچہ علی حسن وسیم مدرسہ میں پڑھنے گیا ،واپس نہیں آیا ،کافی تلاش بسیار کے بعد اُس کی لاش کماد کے کھیت سے ملتی ہے ۔متاثرہ بچے کی ماں اپنے بچے کی اِس بہیمانہ موت پر ہلکان ہوئی پڑی ہے۔اُس کا رونا دیکھا نہیں جارہاہے۔آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر نہ ختم ہونے والی اداسی و بے قراری لیے حکام بالا سے فریاد کناں ہے کہ دیکھو ،میرے آنگن کا پھول مجھ سے کون چراکر لے گیا،کس ظالم ،جابر و کمینہ خصلت نے اسے بجھادیاہے۔متاثرہ فیملی اپنا من کا چین اور سکون کھوئے اِس دیس کے چمن کے رکھوالوںکے سامنے ایک سوالیہ نشان بنی اس گندے اور بوسیدہ سسٹم پر ماتم کناں ہے جو اُس کے مدرسہ جاتے بچے کی حفاظت سے بھی یکسر عاری ،اِس کے علاوہ اورکیا کرنا تھا۔افسوس ضلع قصور میں ایسے واقعات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ،رکا اور تھما بالکل نہیں ہے جس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔نئے آنے والے ڈی پی او صہیب اشرف دیکھتے ہیں کہ اس پر کیسے قابو پاتے ہیں۔اس کے علاوہ اب تک کی جوتازہ صورتحال ہے اس کے مطابق تونئے ڈی پی او صاحب کا استقبال آتے ہی تھانہ راجہ جنگ ضلع قصور کی”ہونہار“ پولیس نے راجہ جنگ میںروڈپر کار میں آتے بے گناہ ،معصوم ،معزز بندے بقول اُن کے نہ رکنے پر فائرنگ کرکے ایک کو مار اور دو کو زخمی کرکے کیا ہے جس پرایس ایچ اواور پولیس اہلکاروں پرمقدمات درج کر لیے گئے ہیں اور محکمانہ کارروائی جاری ہے ۔ اس کیس میںایس ایچ او رائے صدی خان ضمانت پر جبکہ باقی شریک اہلکار گرفتار ہیں ۔کار سوار افراد پرفائرنگ ایس ایچ او راجہ جنگ رائے صدی خان کی بدترین نااہلی ،چھچھورے اور نکمے پن کاایک ثبوت ہے۔ پورے ضلع قصور میں ہر تحصیل میںشہرشہر ،گاﺅں گاﺅں،قریہ قریہ ڈکیتی ،راہزنی کی وارداتیں عام ہیں۔ کنٹرول بالکل نہیں ہے ا۔صل مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور بے گناہ ،بے قصور افراد کی پکڑ دھکڑ کرکے فرضی خانہ پوریاں کرکے ،جناب سرکار سے میڈل اور تعریفی سرٹیفیکیٹ ضرور بٹور لیے جاتے ہیں ۔ اب صورتحال اتنی گھمبیر ہوچکی ہے کہ پورے ضلع قصور میں میں سرراہ چلتے ہوئے دن اور رات کے اوقات میں کوئی محفوظ نہیں ہے ۔لوگ سرراہ لٹ رہے ہیں ۔گھروں میں چوریاں اور ڈکیتیاں ہورہی ہیں۔گھروں کے سامنے سے شہریوں کی موٹر سائیکلیں چوری ہو رہی ہیں جبکہ بیچ بازار،سنسان راہوں میں گن پوائنٹ پر چھینی جارہی ہے۔کوٹ رادھاکشن سے ملک عمران طاہرکی موٹر سائیکل ہنڈاCD70 اپلائڈ فار،گھر کے سامنے کھڑی کوئی لے گیاہے ۔جماعت اسلامی کے رہنما زبیراحمد کیانی اپنی موٹر سائیکل سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔قصور سے آئے ایک مہمان لڑکے کی موٹرسائیکل نمبرمظہر کالونی کوٹ رادھاکشن گھر کے دروازے سے چور لے اُڑے ہیں۔راجہ جنگ کے ایک رہائشی جاوید خالداقبال سے موٹر سائیکل پرلفٹ لینے کے بہانے دو افرادراستے میں راجہ جنگ نہر کنارے پر درخت سے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اسلحہ کے زور پر چھبیس ہزار لے اڑے ہیں۔ نجانے کتنے ایسے مختلف چوریوں،ڈکیتیوں کے کیسسززہیں جو آئے روز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔یہ اتنے زیادہ کیسسز ز ہیں کہ ایک لمبی چوڑی ،بہت بڑی ”کرائم لسٹ“ بن جائے گی،جسے میں اخبارات میں محدود جگہ ہونے کے باعث احاطہ تحریر میں نہیں لا رہا۔ مگرپولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،کچھ نہیں کیا گیا،بس وہی روایتی رٹے رٹائے لفظ اور ہمدردی کے دوبول اور تسلی قلب کے لیے خوامخواہ کی فلمیں اور گولیاں،اپنے تئیں بہت سیانے بنتے،لٹی ہوئی عوام کو بے وقوف گردانتے ۔ تھانوں میں صرف صاحب بدلتے ،کرائم کی شرح وہی رہتی ۔ضلع قصور کے تقریباتمام تھانوں کا عالم یہ ہے کہ کسی سائل کا جائز کام بھی بغیر رشوت لیے نہیں ہوتاہے ۔ایس ایچ اوزصاحبان اپنی اصلی کرسی چھوڑے تھانوں کے کونوں کھدروں میں بنے کمروں ،برآمدوں اور کھنڈراتوں میں بیٹھتے ،مال بھی چوکھا بناتے اور کرپشن سے پاک پولیس ادارہ ،پولیس اصلاحات پرزیرلب مسکراتے،عوامی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ایسے میں ضلع قصور میں گڈ گورننس کے دعوے محض ایک دھوکا اور سراب اور اعلیٰ حکام کی آنکھوں میں مسلسل ایک دُھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ضلع قصور میں پولیس کی کارکردگی انتہائی ناقص ،خراب اور مایوس کن ہے۔راقم الحروف کے مطابق ایسے تمام واقعات ہمارے بے حس معاشرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ سارا علاقہ جرائم کی آماجگاہ بن چکاہے ۔ڈاکوﺅں اور چوراچکوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہواہے۔پچھلے دنوں ڈاکوﺅں کے ہاتھوں گولی لگنے سے اے ایس آئی محمد رفیق کی اپنے فرائض منصبی اداکرتے دوبدو لڑائی میںشہادت ہوچکی ہے یقینا ایسی شہادت ہی سرمایہ زندگی اور اِ سی میں ہی قوم کی حیات ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ضلع قصور میں ترجیحی بنیادوں پر امن وامان کی صورتحال کو فوری بہتر بناتے ڈکیتی و راہزنی کی وارداتوںپر مکمل کنٹرول کیا جائے۔