یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

Published on April 11, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 249)      No Comments

تحریر۔۔۔جاوید مہر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
اور دیکھو رات کے سناٹے دار اندھیرے میں رجیم بدل دی گٸی۔
افتخار عارف نے کہا۔
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا
درختوں پر ثمر آنے سے پہلے آۓ تھے پھول
پھلوں کے بعد کیا ہوگا پتہ کرنا پڑے گا۔
پچھلے 72 گھنٹے ایک اعصابی امتحان تھا جس میں سے ہر محبِ وطن گزرا۔ دعا یہی تھی کہ میرا ملک نقصان کی طرف نہ چلا جاۓ۔ کوٸی خانہ جنگی نہ ہو جاۓ۔ اللہ کا شکر ہے کہ خدشات ٹل گٸے اور ایک محبِ وطن کو دوسرے محبِ وطن سیاستدانوں نے محبِ وطن قاضیوں کے حب الوطنی سے سرشار فیصلہ کی روشنی میں گھر بھیج دیا۔ مقامِ شکر ہے کہ ہارا وہ جس کے پاس ہارنے کے لیے کچھ نہیں تھا ورنہ خوامخواہ مقامِ افسوس ہوتا۔
فرانس کا گیرٹ ولڈرز جو گستاخانہ مقابلے کروا رہا تھا اس کا ایک ٹویٹ نظروں سے گزرا۔ موصوف نے برملا اظہار
کیا کہ:
پی ٹی آٸی کے صدر اور اسلامی انتہا پسند عمران خان کو باہر نکال دیا گیا۔ یہ اچھا چھٹکارہ ہے۔ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا تھا اور آزادی، جمہوریت اور ہندوستان کا دشمن تھا۔
اور انڈیا کے میڈیا کو تو لگتا تھا کوٸی اور کام ہی نہیں تھا کہ بیچاروں کو پاکستان کی سالمیت اتنی عزیز تھی۔
رات سے عوام کی خوشی دیدنی ہے گویا بہت بڑی جنگ جیت لی گٸی ہو۔
یہ شکستِ فاتحانہ۔۔۔۔یہ فتح شاطرانہ
مٹھاٸیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں۔ خیر یہ خوشیاں تو قوم ہر حکومت کی تبدیلی پر مناتی ہے یہ کون سی نٸی بات ہے؟ایوب ہو۔ بھٹو کی تختہ داری ہو۔جنرل ضیا ٕ ہو۔ شہید بے نظیر ہو۔ نواز شریف ہو۔ مشرف ہو۔ یا پھر زرداری ہو یا پھر سے نواز شریف ہو یا پھر اب کی بار عمران خان ہو۔ ہمیں تو بھنگڑوں کا اکثر سامان مہیا ہو جاتا ہے۔
کسی شاعر نے کہا تھا کہ۔
چلتے ہیں دبے پاٶں کوٸی جاگ نہ جاۓ
غلامی کے اسیروں کی یہی ایک ادا ہے
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہے
ایک غلام زدہ قوم کا فرد ہوتے ہوۓ کچھ سوالات دماغ کے خالی پن کی وجہ سے سلگ رہے تھے حالانکہ ان سوالات کا غلام کے دماغ میں پنپنا بھی جرم ہے۔ وہ یہ کہ آج ملک کی ناٶ کو پار لگانے والے لیڈران کل تک کچھ اعمالِ صالحہ اور دعوے کر رہے تھے۔کسی نے کسی کا پیٹ پھاڑ کر غریب عوام کی لوٹی ہوٸی دولت نکال کر اس غریب عوام کی فلاح و بہبود پر لگا کر یورپ جیسی ترقی دینی تھی۔ کسی نے کسی کو کسی شہر کی سڑکوں پر سرِعام گھسیٹ کر عوام پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینا تھا۔ کوٸی مذہبی جنونی قرار پایا کہ اگر اس مذہبی جنونی کا وار چل گیا تو غریب ملک کی آزادی سے محروم خواتین کو شٹل کاک پہنا کر چار دیواری میں بند کر دے گا اور یوں گاڑی کے پہیے جام ہو جاٸیں گے۔ کسی نے کسی عورت کی حکمرانی کو گناہ قرار دیا پھر دھارا یوں پلٹا کہ موصوف عورت کے کندھے سے کندھا ملانا ترقی سے تعبیر کرنے لگے۔ کسی نے کسی خاتون لیڈر کی برہنہ تصاویر فضا سے پھینکوا کر یہ تاثر دیا کہ یہ عورت ملک و قوم کے لیے وبال ہے مگر یہ کیا ہوا جناب پانسہ پلٹا اور اسی خاندان سے مدد طلب کر لی گٸی۔ مطلب اب سارے بہن بھاٸی؟ کیونکہ کسی کے لیے جمہوریت ضروری ہے تو کسی کے لیے جمہوریت بہترین انتقام۔ واہ رے میرے ملک کی بیچاری جمہوریت۔۔۔۔۔
کسی کے لیے گردن جھک سکتی ہے مگر کٹ نہیں سکتی تو کسی کے لیے گردن کٹ تو سکتی ہے مگر جھک نہیں سکتی۔ کسی کے لیے یہ ملک بھکاریوں کا ہے جن کی اپنی کوٸی چواٸس نہیں ہوتی اور کسی کے لیے قوم کو خودداری کا درس دیتے اقتدار کھو بیٹھنا۔ کوٸی ایسے بھی تھے جن کو کرسیاں اعزازیے کے طور پر ملیں اور خوب مزے کیے پھر اچانک ان کے اندر کا ضمیر جاگ گیا اور انہوں نے تقریباً چار سال بعد اصولوں پر ڈٹ جانا مردِ قلندری سمجھا اور یوں اصل وارثین کے کیمپ میں کھڑے ہو کر للکارنا ضروری سمجھا گویا اصل ترقی اب ہوگی۔ قومی اسمبلی کا کبھی کورم پورا نہیں ہوا۔ خوددار قوم کے لیڈران مرضی ہوتی تو آتے اور مرضی نہ ہوتی تو نہ آتے۔ مگر یہ کیا ہوا؟؟؟؟ اب کی بار ایک صبح سے دوسری صبح تک ایک ہی جگہ اور وہ بھی کرسی پر بیٹھے رہنا؟ اوہو۔۔۔ملک کا مقدر عزیز تھا نا۔ اور جنبشِ قلم تیرا کیا کہنا۔۔میرے ملک کے قاضی تیرا کیا کہنا۔
رات کے اندھیرے میں قانون کا بول بالا کرنے کے لیے عدالتیں لگ گٸیں؟ پوچھنا تھا ماڈل ٹاٶن کی بار کیا ہوا تھا؟ ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے والدین کا بیہمانہ قتل کی بار کیا ہوا؟ شراب کو شہد میں بدلنے پر کیا ہوا؟ ملک کو سرِعام گالیاں دینے والوں کے لیے کیا ہوا؟ صحافیوں پر ظلم و ستم پر کیا ہوا؟ مہنگاٸی پر کیا ہوا؟ قانون کے فیصلے فون کالز پر بیچے گٸے ان پر کیا ہوا؟ معصوم عزتیں پامال ہوٸیں ان پر کیا ہوا؟ پولیس والے کو سرِعام روندا گیا کیا ہوا؟ شاہ زیب قتل کیس کا کیا ہوا؟ لوگوں کے ٹھیلے جلا دیے گٸے کیا ہوا؟ زمینوں پر ناجاٸز قبضوں پر کیا ہوا؟
دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کی بار کیا ہوا؟ ناجاٸز پیسہ برآمد ہونے پر کیا ہوا؟ ملک کی دولت باہر لے جانے والوں کی بار کیا ہوا؟
اور عمران خان۔۔۔۔ہاۓ رے قسمت
22 سال جس نے سیاست کو عبادت سمجھ کر محنت کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ 22 بندوں کی ٹیم نہ بنا سکا۔ قوم کو امیدوں کا سمندر دکھایا مگر قطرہ بھی نہ دے سکا۔ بھلا ٹیم کے بغیر بھی کوٸی کپتان کامیاب ہوتا ہے؟ اور ضدی اتنا کہ قانون کی پاسداری بھی نہ کر سکا؟ کبھی 100 دن کا دعوٰی تو کبھی لاکھوں گھروں اور نوکریوں کے خواب۔ اور جو اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے دوست اور دشمن کو نہ سمجھ سکا۔جس کے اپنے مشیروں نے اس کے لیے پھندے کا کام انجام دیا۔ آہ۔۔۔میری بےچاری معصوم قوم اور محبِ وطن اور تن من دھن کی قربانی دینے والے میرے لیڈران آہ!

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme