پی کے45 اور مسلم لیگ ن کا حکم امتناعی

Published on June 4, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 495)      No Comments

jj
تحریر: شبیر عباسی دلولہ۔۔۔
صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے45 سرکل بکوٹ پر ضمنی الیکشن پانچ جون کو ہو رہے ہیں یہ نشست سردار مہتاب احمد خان کی خالی ہونی نشست پر ہو رہے ہیں پی کے45 آٹھ یونین کونسلز پر مشتمل صوبائی حلقہ ہے 1985 میں سردار مہتاب احمد اس حلقے سے منتخب ہوئے اس کے بعد ایک دفعہ ان کا کزن سردار فدا، ایک دفعہ بہنوئی سردار ممتاز اور گزشتہ دور میں ان کا بیٹا سردار شمعون صوبائی اسمبلی کا ممبر رہا 2013 کے الیکشن میں سردار مہتاب احمد قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیت گئے اور سرحد اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئے ایک سال بعد انہیں گورنر کے پی کے بنا دیا گیا ان کی خالی کردہ نشست پر پانچ جون کو الیکشن ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان کے بیٹے علی اصغر خان کو میدان میں اتارا ہے۔
سرکل بکوٹ پی کے45 ضلع ایبٹ آباد کا انتہائی پسماندہ صوبائی حلقہ ہے اس حلقے کی نسبت دوسرے چاروں صوبائی حلقے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں پی کے 45 پر 30 سال سے سردار مہتاب احمد خان اور ان کا خاندان کامیاب ہوتا آ رہا ہے سردار مہتاب احمد خان اس حلقہ سے کامیاب ہو کر وزیر اعلیٰ سرحد اسمبلی کے عہدے پر براجمان بھی رہے وفاقی وزیر اور صوبائی وزارت بھی ملی اس حلقہ سے مسلسل کامیابی کے پیچھے ان کی کامیاب سیاسی حکمت عملی ہے انہوں نے اپنے مخالف ووٹ کو کبھی یکجا نہیں ہونے دیا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلا کہ ان کے مخالف 4 یا 5 امیدواروں نے 40 ہزار ووٹ آپس میں تقسیم کیا اور سردار مہتاب یا ان کے کزن اور بیٹے بیس یا 25 ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہو تے رہے۔
میں اس حلقہ کی پسماندگی کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کسی حلقے سے کسی امیدوار کی مسلسل کامیابی اس کی ترقیاتی کاموں، روزگار کی فراہمی یا میگا پراجیکٹس کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا کہ میں نے زکر کیا ہے کہ اس حلقہ سے ن لیگ کے امیدوار کی مسلسل کامیابی ان کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالف ووٹ کو ہمیشہ تقسیم کرنے میں کامیاب رہے میں یہاں حلقہ کی پسماندگی کے حوالے سے چند حقائق بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلز میں صرف تین گرلز ہائی سکول ہیں جبکہ تین یونین کونسلز دلولہ، بوئی اور ککمنگ جن کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ ہے ان میں کوئی گرلز ہائی سکول نہیں ہے 90 فیصد طالبات مڈل کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں سردار مہتاب احمد خان کے اس تیس سالہ دور میں صرف ایک گرلز ہائی سکول اپ گریڈ ہوا جبکہ اس حلقہ سے متصل حلقہ جات جن میں شازی خان اور احمد حسین شاہ کامیاب ہوتے رہے ہیں ہر پانچ کلومیٹر پر کالج اور ہائی سکول موجود ہیں ٹیکنیکل کالج موجود ہیں بدقسمتی سے پی کے45کے عوام کالج نام کے کسی ادارے سے ناآشنا ہیں۔
بوئی سوارلگی روڈ 1985سے وعدوں کی لسٹ میں ہمیشہ پہلے نمبر پر رہا ہے ان چار یونین کونسلز کا دوسری یونین کونسلز سے کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے براستہ مظفر آباد یا راولپنڈی ان یونین کونسلز میں جایا جا سکتا ہے۔
اس حلقہ کی خواتین کے سروں سے آج بھی گھڑے نہ اتر سکے صحت جیسی بنیادی سہولت سے 10 فیصد عوام بھی فیض یاب نہ ہو سکے زلزلہ کے دوران بوئی ککمنگ روڈ پختہ ہوئی وہ بھی ایرا کے فنڈ سے اس کے علاوہ کوئی رابطہ سڑک پختہ نہیں ہے بعض یونین کونسلز میں ایسے وارڈز بھی ہیں جن کی آبادی پانچ ہزار سے زائد ہے لیکن وہاں پرائمری سکول تک نہیں مثال کے طور پر یونین کونسل دلولہ کے وارڈ نمبر 1 اور گڑنگ وارڈ میں کوئی پرائمری سکول موجود نہیں مثال مشہور ہے کہ اگر کسی قوم کو غلام رکھنا مقصود ہو تو وہاں کے عوام کو تعلیم سے دور رکھو پی کے45کا حلقہ اس
کی روشن مثال ہے ویسے بھی ن لیگ کے اس حکمران خاندان کو تعلیم سے خود بھی دلچسپی نہیں سرکل بکوٹ کے تعلیمی اداروں میں طویل عرصہ سے پرنسپل اور سائنس ٹیچر کی پوسٹیں خالی ہیں یہ تمام صورتحال ن لیگ کے ووٹرز کے علم میں ہے۔
اب اس حلقہ میں 5 جون کو الیکشن ہو رہے ہیں الیکشن شیڈول سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اصغر خان جو کہ اس حلقہ کی پسماندگی سے مکمل آگاہ تھے انہوں نے اس حلقہ میں سماجی سطح پر کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے حلقے کا ووٹر انکی سماجی خدمات کا معترف ہے انہوں نے اس حلقہ کی پسماندگی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی وہ نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اس حلقہ کی پسماندگی دور کرنے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں انہوں نے وزیر اعلیٰ سرحد کو حلقے کی پسماندگی سے تفصیل سے آگاہ کیا قائد تحریک انصاف عمران خان سے بھی اس سلسلے میں ملاقات کر کے حلقہ کی صورتحال سے آگاہ کیا وزیر اعلیٰ سرحد نے الیکشن شیڈول سے قبل پی کے 45 کیلئے 20 کروڑ سے زائد کا ترقیاتی پیکج منظور کیا اور فوری طور پر فنڈز جاری کئے لیکن 30 سالوں سے پی کے45 پر قابض اس خاندان کو سرکل بکوٹ کی پسماندگی کا خاتمہ کیسے ہضم ہو سکتا تھا انہوں نے حماد شاہ ایڈووکیٹ کے زریعے ملک منیر آف بیروٹ کی درخواست پر حکم امتناعی حاصل کر لیا اور یوں تمام ترقیاتی سکیموں کو روک دیا گیا اس ترقیاتی پیکج میں 20 سکولوں کی اپ گریڈیشن بھی شامل تھی اس حلقہ کی بدقسمتی کی انتہا ہے کہ 77 کلو میٹر پر پھیلے ہوئے اس صوبائی حلقے میں کوئی گرلز یا بوائز سکول نہیں ہے ن لیگ کے حلقوں کا کہنا ہے کہ سردار مہتاب احمد خان نے حلقہ میں پرائمری سکولوں کا جال بچھایا حیرانگی کی بات ہے کہ صوبائی وزیر ، وفاقی وزیر اور پھر وزیر اعلیٰ سرحد ہو کر بھی وہ پرائمری سکولوں سے آگے نہ جا سکے شاید انہوں نے اس حلقہ کے عوام کو یہ باور کرا دیا کہ آپکی اوقات ہی پرائمری سکولز ہیں ورنہ ہر ایم پی اے کو سالانہ اپ گریڈیشن کا کوٹہ ملتا ہے ان تیس سالوں میں انہوں نے اپنا کوٹہ کہاں اور کیسے دیا یہ وہ بخوبی جانتے ہیں۔
سردار مہتاب احمد خان اس سے قبل اپنے خاندان کے تین افراد سردار فدا، سردار ممتاز اور سردار شمعون خان کو ایم پی اے بنوا چکے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو دوسری بار کیلئے منتخب نہیں کیا گیا ان تینوں کی کارکردگی اتنی مایوس کن رہی ہے کہ یہ تینوں ایم پی اے کبھی دوبارہ حلقے میں نہیں آئے اور نہ ہی نئے آنے والے اپنے کسی کزن کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ ممتاز خان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کا نام پانچ سال تک اسمبلی میں ایک لفظ بھی نہ بولنے کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔واللہ اعلم
اب جبکہ 5 جون کے الیکشن قریب ہیں دونوں جماعتوں کی انتخابی مہم عروج پر ہے اپنے حلقہ کی قسمت کا فیصلہ عوام ہی کریں گے عوام کے سامنے ’ن‘ لیگ کے امیدوار سے باز پرس کا موقع بھی ہے کہ گزشتہ تیس سالوں سے آپ نے پی کے45 کیلئے کیا کیا ۔پی ٹی آئی کے امیدوار کی انتخابی مہم بھی جنہیں یہ ایڈوانٹج ہے کہ بغیر کسی عہدہ یا ذمہ داری کے انہوں نے زلزلہ کے دوران اس حلقے میں بے شمار ترقیاتی کام کئے اور سرحد اسمبلی میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے اور کامیابی کی صورت میں وہ اپنی حکومت کے زریعے ترقیاتی کام کروا سکتے ہیں جبکہ ن لیگ کے پی کے میں اپوزیشن میں ہے اپوزیشن کا نمائندہ حلقے کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes