جب پیسے کی چمک میں قانون اندھا ہو جائے

Published on June 17, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 668)      No Comments

Sultan
شعلہ ہوں بھڑکنے کی گزارش نہیں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے کوشش نہیں کرتا
گرتی ہوئی دیوار کا ہمدرد ہوں لیکن
چڑ تے ہوئے سورج کی پرستش نہیں کرتا
رہتا ہوں فقیروں کی دعاؤں کا طلبگار
شاہوں سے تمنا ئے ستائش نہیں کرتا
ماتھے کے پسینے کی مہک آئے نہ جس سے
وہ خون میرے جسم میں گردش نہیں کرتا
لہروں سے لڑا کرتا ہوں دریا میں اُتر کر
کناروں پر بیٹھ کر تدبیریں میں نہیں کرتا
آجکل یہ بات سن سن کر کان پک گئے ہیں اور دماغ اب اس بھاشن پر توجہ دینے سے انکاری ہے کہ اب قانون کی حکمرانی ہے قانون کی حکمرانی کو سب کو تسلیم کرنا ہوگا اور اسی موضوع سے متعلقہ دوسرے بھاشن وغیرہ مختلف الیکٹرونک و پرنٹ میڈیاء کے دوست دن رات قانون قانون کی رٹ لگا کر بیچارے خود ہی تھک گئے ہوں گے مگر قانو ن نافذ کرنیوالے نہیں تھکتے نہ اکتاتے ہیں ان بھاشنوں کو سن کر یا پڑھ کر پتہ نہیں ان قانون نافذ کرنیوالے کی تربیت کس انداز میں کی جاتی ہے ایک طرف دہشت گردی سے ہمارا کچومر نکالا جا رہا ہے تو دوسری طرف پیسے کی چمک میں قانون اندھا ہو کر غیر ملکی دہشت گردی سے بھی بڑی دہشت گردی کرکے اس ملک عظیم کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے سچ بولنے پر سزائے موت اور جھوٹ بولنے پر سزائے موت معاف ہے کیسا دوغلا جمہوری قانون ہے تف ہے ایسے قانون پر ۔
ایک پوسٹ ماسٹر جن کا تعلق پتوکی سے ہے کو سچ بولنے پر اور محکمہ ڈاک کو لاکھو ں روپے کا چونا لگانے والے گروہ کے کا موں سے پردہ اٹھانے کے جرم میں معطل کردیا جاتا ہے اور سزا کے طور پر روزانہ لاہور آنے کا حکم دیا جاتا ہے اسے زہنی ٹینشن دے کر سچ بولنے کی سزا دی جارہی ہے کیونکہ قانون کو پیسے اور سفارش کی چمک اندھا کر چکی ہے ایسے بہت سارے واقعات روزانہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیاء کی زینت بنتے ہیں اور بعد ازاں ان کا حال بھی اس پوسٹ ماسٹر صاحب کی طرح ہوتا ہے اب کچھ بات ہمارے نظام عدل پر بھی کر لیتے ہیں بے گناہوں کو بہت جلد سلاخوں کے پیچھے بند کردیا جاتا ہے اور ظلم کرنیوالے پیسے کی چمک سے قانون کو اندھا کر لیتے ہیں ہماری پولیس جس پر میرے محترم اور بزرگ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف صاحب جو دن رات اس کی بہتری کے لیے پتہ نہیں خدا جانے کیا سہانے خواب سوچتے ہیں کبھی ماڈل تھانوں کی خوشخبری تو کبھی ترک پولیس سے تعاون مانگتے ہیں مگر میاں صاحب کی انتھک محنت پر پنجاب پولیس اور انکی بیورو کریسی اپنی ہٹ دھرمی سے پانی پھیر چکی ہے میں کام کے لحاظ سے میاں صاحب کا دلی معترف ہوں وہ اپنی گو ناگوں مصروفیات کے باوجود عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر انکی پنجاب پولیس انکی امیدوں پر پانی پھیرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے یہ پولیس ملزموں کو پکڑنا اچھا نہیں سمجھتی مگر نہتے لوگوں پر گولیاں برساکر اس قیامت کی گرمی میں اپنا کارکردگی دیکھا کر خدا جانے کن کو راضی کرتی ہے پولیس گردی سے ایک خاتون سمیت نو افراد جاں بحق اور ساٹھ زخمی ہوئے ہیں اب خادم اعلیٰ صاحب کو یہ جواب دینا ہوگا کہ جس خونی انقلاب کی وہ نوید سناتے ہیں کہیں وہ خود تو اسکی بنیاد تو نہیں رکھ رہے ہیں یہا ں پر حبیب جالب کا شعر جو میاں صاحب کا پسندیدہ ہے میں ان ظلم کے ضابطوں کو نہیں مانتا تو جناب عوام بھی ان ضابطوں کو نہیں مانتی ہے بہرحال اس انکوئری کا حال کہیں مظفر گڑھ جیسے واقعے جیسا ہی نہ ہو جہاں پیسے کی چمک اپنا کام دکھا چکی ہے پیش خدمت ہے قصور پولیس کے ایک چہتے افسر کے میرٹ اور انصاف کا نعرہ ۔موصوف ویل ایجوکیٹڈ ہیں ایکطرف انصاف اور میرٹ کا نعرہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف مظلوم پا رٹیوں کے کیسز کی ایف یار پندرہ دن اور بعض کی اس بھی زیادہ دن تک درج کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں بلکہ الٹا مدعی پارٹی کو ملزمان سے صلح کا بھاشن دے کر چمک کا حق ادا کرتے ہیں یہ اللہ جانے یہ چمک کہاں تک روشنی دیتی ہے ایک اور موصوف کی خوبی جس کا زکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی کیونکہ میں قانون نافذ کرنیوالوں میں سے نہیں ہوں وہ ہر آنیوالے پر اپنی تعلیمی قابلیت کا رعب جھاڑتے نظر آتے ہیں چاہے وہ میڈیاء والے ہی کیوں ہوں اسی تھانیکی حدود میں آج سے سولہ دن پہلے ایک وقوعہ رونما ہوا جسکی اطلاع پولیس کو بذر یعہ15 پر کال کرکے دی گئی واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سیاسی چلپقش پر موضع رام تھمن گاؤں میں ایک معروف رسہ گیر ، منشیات فروش اور بدمعاش گروپ نے ڈیرے پر نہ آنے کی پاداش میں محنت کش عبدالکریم کے گھر میں گھس کر اسکے بیٹے پر تشد کرنا شروع کردیا اور ممتا جب برداشت نہ کرسکی تو چھڑوانے کے جرم میں ماں اور باپ دونوں کو غیر انسانی طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا لڑکے کو گھر سے اٹھا کر ننگا کرنے کے بعد گھسیٹے ہوئے گاؤں کے چوک میں لے گئے اور لگاتار بے ہوش شدہ لڑکے کو مارتے رہے ساتھ میں ماں اور باپ کو بھی چھڑوانے کے جرم میں محنت کش کے بھتیجے کو بھی زمین پر اُلٹا لٹا کر اس کی کمر ننگی کرکے لوہے کی آہنی سلاخوں اور لکڑی کے ڈنڈوں سے مارتے رہے ساتھ میں ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے اہل علاقہ کو بھی جان سے ماردینے کی دھمکیاں دیتے رہے بعدازاں محنت کش کے بیٹے کو اغواء کرکے اپنے ڈیرے پر لے گئے پولیس کے آنے پر مغوی کو چھوڑ کر فرار ہو گئے اب اس پر جناب ویل ایجوکیٹڈ ایس ایچ او صاحب نے کیا کارنامہ سرانجام دیا وہ بھی آپکو بتانا ضروری ہے پہلے تو میڈیکل دینے والے ڈاکٹر صاحب کو مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا گیا مدعویوں کو ہماری مرضی کا رزلٹ دو نہ دینے پر پھر یہ کہا گیا ملزم پارٹی جو خود ساختہ زخم لگا کر آئی تھی انکو اپنی مرضی کا رزلٹ لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور اپنا بھاشن بھی جھاڑا گیا جناب انصاف اور میرٹ کا نعرہ لگاتے ہوئے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں داناؤں کا قول ہے کہ جو قسم اٹھائے اس سے بڑا بے ایمان اور منافق کوئی اور نہیں ہوتا ہے انسان کے کاموں سے اسکی سچائی اور انصاف پسندی نظر آنی چایہے یہ سب ہونے کے بعد موصوف مدعی پارٹی پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ صلح کرلے نہ کرنے کی صورت میں آپکی درخواست پر مقدمہ درج نہیں کروں گا اس دوران وہ مظلوم خاندان انصاف حاصل کرنے کے لیے محترم ڈی پی او صاحب کے پاس جاتا ہے تو ان کے حکم پر بھی مقدمہ درج نہیں ہوتا ہے الٹا یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اس اپلی کیشن میں میری مرضی کی تبدیلی کرو پھر درج کروگا اب پتہ نہیں جناب ڈی پی او صاحب نے کیسا حکم دیا تھا جو انکے ماتحت نے ماننے سے انکار کردیا آخر کار موصوف ایس ایچ او جن کا نام عابد محمود جٹ ہے کاش نام کی طرح کام بھی اچھے ہو تے تو مجھے بھی فخر ہو تا کیوں کہ میرے نام میں بھی محمود آتا ہے نے خود کو ملنے والی چمک کا بھر پور حق ادا کیا ہے اللہ جانے وہ چمک کہا ں تک گئی ہے جو مدعی پندرہ دن تک زلیل ہوتے رہے آخر کار سیشن کورٹ کے حکم پر مقدمہ درج کیا گیا تو پھر بھی منافقت کی انتہا کرکے ملزم پارٹی کو فائدہ پہنچایا گیا جناب پولیس میں ایس اے 112 پیٹی نمبر رکھتے ہیں اور اس مظلوم پارٹی کی ایف یار نمبر 204/14 ہے موصوف کلام الہی پر ہاتھ رکھ کر لوگوں کو انصاف میرٹ کا یقین دلاتے ہیں ساتھ میں پندرہ پندرہ دن تک ایف یار درج نہیں کرتے ہیں تاکہ صلح ہو جائے اور چمک میں اضافہ ہو جائے ایف یار میں موصوف جو غلطی کر چکے ہیں اس پر مجھے پنجابی کی ایک کہاوت یاد آئی ہے کہ (جٹ اے تاں مت نہی جے مت اے تاں جٹ نہی) اب میں اپنے ہر دلعزیز ڈی پی او صاحب اور جناب محترم ڈی ایس پی صاحب سے یہ گستاخی کرنا پسند کروں گا کہ جناب یہ مقدمے میں تاخیر اور وہ بھی آپ کے حکم کے باوجود قوم اس بات پر تذبذب کا شکار ہے آپ وضا حت کردیں نہیں تو پھر جو کسی کا دل کرے گا آراء قائم کرلے گا پھر گلہ ہم سے نہ کریئے گا کہ ہم غلط گائیڈ کرتے ہیں رہی جناب کے ایس ایچ او صاحب کی دلیری کی بات تو جناب کیمرے کی آنکھ کے سامنے اپنے میرٹ اور انصاف کے نعرے کو بیان کرنے سے رفو چکر ہو گئے یہ کہہ کر اپنے دست راست سے آپ مہمانوں کو ویٹنگ روم میں بٹھائیں میں یونیفارم پہن لوں پھر پتہ نہیں وہ یونیفارم کہا ں سے آنی تھی جو پہنی نہیں جاسکی میں اپنے عزت ماٰب خادم اعلیٰ صاحب سے یہ گزارش کروگا جناب ایسے افسران کو یاتو دوبارہ ٹریننگ پر بھجیں یا پھر محکمے سے ایسے افراد کو نکال کر اپنی محنت پر پانی نہ پھیرنے دیں جو آپ دن رات عوام اور اپنی حکومت کی اچھی ساکھ کے لیے کرتے ہیں دوسرا یہ کہ اگر غلطی سے قانون ساز اسمبلی میں اسلامی رمک رکھنے قانون ساز موجود ہیں تو وہ اس جمہوری قانون کو خیر آباد کہہ کر اسلامی سزائیں ہی صرف نافذ کردیں تو یہ ملک امن کا گہوارا بن سکتا ہے بصور ت دیگر امن خواب ہی رہے گا کیونکہ قانون پیسے کی چمک میں اندھا ہو چکا ہے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی انصاف مانگتے نظر آتے ہیں مگر ہنوز است دلی دور است آخری اپیل کروگا جناب اپنے محترم قابل صد احترام سیشن جج صاحب سے جو بلاشبہ ایک انتہائی اچھے کرداد کے حامل ہیں وہ اس بات پر نوٹس لیکر اپنے مخصوس انداز میں اس ایس اچ او جس نے جناب کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے سے جواب طلبی کریں ہم سب کو روز قیامت جواب دینا ہے

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme