میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے

Published on June 25, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 524)      No Comments

2
تحریر ..اشتیاق احمد عباسی
 میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر اقبال نے یہ شعر اپنے بیٹے جاوید کے لیے کہا تھا مگر کون جانتا تھا کہ ہزاہ ڈویثرن جیسے دور افتادہ علاقے کے رہنے والے ایک نیک دل انسان اور ایک بیٹے کے والد گرامی جناب میرافضل اپنے بیٹے طارق میر کو اقبال کے اس شعر کے سانچے اور آئینے میں ڈھال رہے ہیں ۔ اور بچپن سے ہی آپنے بیٹے کی تربیت اس طرح کی . کہ عبادت تو ہم انسانوں پر فرض ہے ، مگر تکمیل انسانیت کے لیے اکیلی عبادت کافی نہیں ہے ۔ اور عبادت کے ساتھ ساتھ خدمت خلق بھی اس کا ایک جز ہے ۔۔ شائد طارق میر کے والد گرامی میر افضل نے اقبال کے اس کلام کو بھی سن رکھا تھا کہ پیدا کیا انسان کو درد دل کے واسطے ورنہ عبادت کے لیے کچھ کم نہ تھیں کرپیاں جناب طارق میر صاحب کا تعارف کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا ہو ۔ مگر یہ ایک رسم تحریر ہے سو پوری کیے دیتے ہیں ۔۔۔ طارق صاحب کا تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے ۔ اپ کے والد گرامی کا تعلق صوبہ خیبر پختون خواہ کے ہزارہ ڈویثزن سے تھا ۔۔ جو فوج میں ملازم تھے ۔۔ طارق صاحب کی پیدائش اور تعلیم و تربیت راولپنڈی میں ہی ہوئی ۔۔ اپ نے 1969 میں مسلم ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ، اور پھر 1972 میں گورنمیٹ کالج اصغر مال سے ایف۔ ایے کیا زمانہ طالبعلمی میں طارق میر صاحب میدان سیاست میں بھی سرگرم رہے ، مگر پھر بہتر مستقبل کے لیے سعودیہ عرب آ گئے ، اور ریاض میں ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا اغاز کیا . محتلف ادوار میں مختلف کمپنیوں میں خدمات سر انجام دیتے رہے بعد ازاں اپنا کاروبار شروع کیا تو اللہ تعالی نے کاروبار میں خیر و برکت عطا فرم مائی اور آج اللہ کے فضل و کرم سے ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں . دنیا کی کامیابی تو چند دن کی بات ہے اور اللہ تعالی کے طرف سے ایک آزمائش ہے ، اور یہ متاع الدنیا الا غرور کے زمرئے میں آتا ہے ۔ مگر طارق صاحب پر اللہ کا احسان اور کرم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں دنیا کے ساتھ ساتھ دین اور آخروی کامیابی کا راستہ بھی دکھا دیا ہے ۔ “راستہ ان لوگوں کا جن پر اللہ نے انعام کیا ؛ جو سیدھے راستے پر تھے اور جنہوں نے حقیقی کامیابی کی راہ اختیار کی ؛ 1984 میں طارق میر صاحب کےایک دوست کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا ، طارق صاحب نے اس کے جسد خاکی کو پاکستان بھجوانے کے کام کا آغاز کیا ، اس کام کی تکمیل میں طارق صاحب کو دو ماہ کا عرصہ لگا ، مختلف محکموں کے چکر لگا لگا کر وہ تھک گے بہرحال آخر کار دو ماہ کی انتھک کوششوں اور محنت سے وہ اپنے دوست کے جسد خاکی کو پاکستان بھجیوانے میں کامیاب ہو ہی گے ،، اس کام کے لیے انہیں بہت ہی کھٹن مراحل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ، اور انہیں یہ احساس ہوا کہ یہاں جو ٖغریب لوگ فوت ہو جاتے ہیں ان کا کیا ہوتا ہو گا اور ان کے ورثا پر کیا گزرتی ہو گی ،، بس یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں کے اس کام کو رفاعی بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ آج سے 30 سال قبل اٹھائے گے ایک قدم نے آج ہزاروں میلوں کا سفر طے کر لیا ہے ، بھلائی اور خیر کا یہ سفر گزشتہ تین دھائیوں سے جاری ہے ۔ اور آج تک چھ ہزار کے لگ بھگ افراد ان کے اس کارخیر سے مستفید ہو چکے ہیں ۔ ان کے مالی مفادات ، ذاتی زندگی ،گرتی ہوئی صحت ، اور ڈھلتی ہوئی عمر بھی ان کی ہمت و عزم اور حوصلے میں کمی نہ کر سکے ۔۔ اور ان کہ یہ سفر اسئ آب تاب سے جاری ہے جس سے اس سفر کا آغاز کیا تھا ۔اور اب انکے اس سفر خدمت میں انکے 7 بیٹے بهی انکے ساته شامل هیں۔۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے تانکہ اس دیار غیر میں بے گور و کفن انسانوں کی خدمت کا جو بیڑہ انہون نے اٹھایا ہے وہ جاری رہے ،،، اور مصبیت زدہ انسانوں کے لیے امید کی کرن باقی رہے ۔۔ آخر میں اقبال ہی کا ایک شعر جناب طارق صاحب کی نظر کہ شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پرُدم ہے اگر توُ تو نہیں خطرہ ء افتاد

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Themes