قومی اہداف کا تعین اور حکومت و فوج کی پالیسی

Published on November 2, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 274)      No Comments

Athar
گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے زیر اہتمام ایک دو روزہ کانفرنس میں پاکستانی نمائندوں اور ان کے امریکی ہم منصبوں کے درمیان پاکستان امریکہ تعلقات اور علاقائی ماحول بشمول افغانستان پرسیرحاصل بحث ہوئی۔دریں اثناء انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تشکیل نوکے عنوان سے اپنی رپورٹ میں کابل کے ساتھ مشکل کا شکار تعلقات کوبہتر بنانے کے لئے وزیراعظم نوازشریف کی کوششوں کو درپیش رکاوٹوں اورمواقعوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اٹلانٹک کونسل میں امریکہ کے ایک سابق دفاعی افسر نے سوال اٹھایا کہ واشنگٹن کی سرفہرست دو جغرافیائی سیاسی ترجیحات میں پاکستان کہاں فٹ ہوتا ہے۔ یہ دو ترجیحات مشرق وسطی میں جاری بحران اور ایشیا کو دوبارہ متوازن بنانا ہیں۔ دوسرے معاملے میں اس نے پیش گوئی کی کہ چین کے خدشات کے حوالے سے پاکستان بہت زیادہ حساس ہوگا۔ بلکہ اس سے بھی آگے پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں خود مختاری پر زور دے گا۔ امریکہ کے سابق دفاعی افسر نے امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک/دفاعی تعلقات پربات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کے پاس اپنی فوجی صلاحیتوں کو جدید بنانے اور اپ گریڈ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے اور بھارت نے یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگائی ہے،تاہم واشنگٹن کو اس سے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کا ادراک کرنیکی ضرورت ہے جس کی روایتی فوجی صلاحیتیں وقت کے ساتھ پہلے ہی کمزورہوچکی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ جوہری دفاع پر زیادہ انحصار کرنے پرمجبور ہورہاہے۔اس امریکی افسر کے مطابق امریکی پالیسی سازوں کے پاس پاکستان سے متعلق دو آپشن ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود کہ یہ آپشن زیادہ سے زیادہ علاقائی عدم استحکام کو جنم دے گا تاہم غالب مگر غیر متفقہ نقطہ نظردست برداری کاہے، دوسرا طریقہ جس کی اس نے حمایت کی معنی خیز طورپر روابط استوارکرنا ہے تاکہ منسلک جغرافیائی سیاسی مفادات کی شناخت اور ان میں تعاون کیا جاسکے۔ اس نے تسلیم کیا کہ اب تک دونوں ممالک کے درمیان نام نہاد اسٹریٹجک مکالمہ نہ تو اسٹریٹجک تھا اور نہ ہی مکالمہ۔ دوسری طرف انٹر نیشنل کرائیسز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف افغانستان سے خوش گوارروابط ، باہمی کشیدگی کا خاتمے اورنیٹو انخلا کے بعد افغانستان کے استحکام میں مدد و تعاون چاہتے ہیں اس سے پاکستان کی اپنی سلامتی واستحکام بہتر ہوگا اور یہ کہ سیکورٹی کے بغیر پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت کو مستحکم کرنا محض مغالطہ ہوگا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سویلین قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ ملک سلامتی، مستحکم افغانستان سے ہی حاصل ہوگی۔نوازشریف حکومت کی افغانستان سے تعلقات میں بہتری کی کوشش کا انحصار فوج سے سیاسی جگہ واپس حاصل کرنے پر ہے۔رپورٹ کے مطابق حالیہ حکومت مخالف مظاہروں سے بشمول افغان پالیسی فوجی صلاحیت مضبوط ہوئی ہے۔ پاکستان میں جمہوری منتقلی کا استحکام ،نیشنل سیکورٹی اینڈ فارن پالیسی پر مضبوط سویلین کنٹرول افغانستان کے ساتھ تعلقات کی زیادہ تعمیری ترتیب نو ک کے لئے نئے مواقع پیداکرے گا۔کابل کے حوالے سے پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کی ترجیحات میں فاصلے بڑہے ہیں۔
اٹلانٹک کونسل کانفرنس سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہوئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کے حوالے سے یہ بات نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنے قومی مقاصد اور قومی اہداف کا واضح تعین کرے تا کہ ان اہم امور پر امریکہ کی حمایت حاصل کی جا سکے کیونکہ مختلف اہم امور کے حوالے سے پاکستان کی علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت و حساسیت مسلمہ ہے۔پاکستان کے مختلف حلقوں کی طرف سے کئی بار یہ بات کی جاتی ہے کہ پاکستان امریکی و عالمی مفادات کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کے باوجود اپنے اہم قومی امور میں امریکہ اور عالمی حمایت سے محروم رہتا ہے۔اسی طرح امریکی حلقوں کی طرف سے بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان خود اپنے قومی اہداف کے بارے میں واضح نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی طرف سے حسب توقع حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔آج پاکستان میں بھی یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملک میں سابق آمر جنرل مشرف کا دور اقتدار ختم ہونے کے باوجود ملک کے دفاعی اور خارجہ امور کے معاملات سویلین حکومت کے بجائے فوج کے اختیار میں ہیں اور یہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ پاکستان میں مشرف دور کے بعد سول حکومت قائم ہونے کے باوجود ملک میں جمہوریت قائم کرنے کی کوشش میں پیش رفت ہو رہی ہے ،مکمل جمہوریت قائم نہیں ہوئی۔ملک میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جب سیاسی قیادت اہل،قابل اعتبار اور راہ راست پہ ہوگی اسی وقت اس حکومت کو مکمل اختیارات دیئے جا سکتے ہیں لیکن ان حلقوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے بڑھ کر ملک میں کون سی بڑی ،اہل،مخلص اور قابل اعتبار سیاسی قیادت ہو سکتی ہے اور مادر ملت کے خلاف کیا کیا منفی انداز اپناتے ہوئے انہیں،پاکستانی عوام اور ملک کو کیا کیا ناقابل تلافی نقصانات نہیں پہنچائے گئے؟
گزشتہ زرداری دور میں سول حکومت نے دفاعی اور خارجہ امور کو اپنے دائرہ اختیار میں لینے میں دلچسپی نہیں دکھائی تاہم نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان کو ایک مضبوط سیاسی قیادت میسر آئی ہے اور عمومی توقع پیدا ہوئی کہ اب دفاعی اور خارجہ امور بھی سول حکومت کے مکمل دائرہ اختیار میں آ جائیں گے۔وزیر اعظم نوازشریف نے افغانستان اور بھارت سے متعلق یہ واضح پالیسی اپنانے کی کوشش کی کہ ان دونوں ممالک سے تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔واضح رہے کہ دفاعی و خارجہ امور کوئی فائل نہیں ہے کہ جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی میز سے اٹھا کر وزیراعظم کی میز پر رکھ دی جائے،نواز شریف حکومت کے قیام کے بعد دفاع و خارجہ امور کا جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہوا تو اس میں وزیر اعظم کی\’\’ اتھارٹی ایکسر سائیز\’\’ ہونا شروع ہوگئی۔اسی صورتحال میں ملک میں حکومت کو کمزور کرنے کے لئے لانگ مارچ،دھرنے اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا گیا اور حکومت کو کمزور کرنے کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش میں ملک کو بھی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے بھارت کی بی جے پی حکومت کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات بحال کرے اور اسی حوالے سے بھارتی سیکرٹری خارجہ کا دورہ اسلام آباد نہایت اہمیت کا حامل تھا لیکن بھارتی حکومت نے پاکستان کے سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے ایک بات کا بہانہ بنا کر پاکستان سے مزاکرات ملتوی نہیں بلکہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔اس کے بعد پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا معاملہ بھرپور طور پر اٹھانے سے بھارت نے ورکنگ باؤنڈری اور کشمیر کی کنٹرول لائین پر جارحانہ فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیااور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت اشد طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دفاع اور خارجہ امور سمیت تمام اہم قومی معاملات میں سول حکومت کی گائیڈنس کے مطابق کام کرنا ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔سول حکومت اور فوج کے لئے لازم ہے کہ ملکی مقاصد اور اہداف کے حوالے سے متفقہ پالیسی کے مطابق پیش رفت کی جائے تاکہ امریکہ ،بھارت یا کوئی بھی ملک پاکستان کے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھانے کا نہ سوچ سکے،حکومت اور فوج کا \’\’ایک صفحے \’\’پر ہونا ہی کافی نہیں بلکہ یہ بات سب پہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کی پالیسیوں پر فوج سمیت تمام ادارے مکمل طور پر کاربند ہیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy