امن کی آشاکے گیت گانے اورسرحدوں پرالفت ومحبت کے دیپ جلانے والوں کو نویدہو کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی نے پاکستان توڑنے کی سازش کااعتراف کرلیا ۔اپنے دَورۂ بنگلہ دیش کے موقعے پراُنہوں نے کہاکہ بھارتی فوجیوں کا خون بھی بنگلہ دیش کی تشکیل میں شامل ہے ۔ہر بھارتی چاہتاتھا کہ بنگلہ دیش بنے ۔بھارتی افواج بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے مکتی با ہنی کے ساتھ مل کرلڑیں اور بنگلہ دیش کے خواب کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے میں مددکی ۔مودی نے یہ بھی کہاکہ وہ 1971ء میں مکتی باہنی کی حمایت میں ستیہ گرہ تحریک میں بطوررضا کارشرکت کے لیے دہلی آئے تھے ۔بنگلہ دیشی وزیرِاعظم حسینہ واجد اورنریندرمودی کی آپس میں اِس لیے گاڑھی چھنتی ہے کہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ دونوں ہی چنگیزیت کے علمبردار اورانتہائی کینہ پرور۔ حسینہ واجد چُن چُن کراُن بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نام نہادعدالتوں کے ذریعے پھانسیاں دلوا رہی ہے جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کی حمایت کی تھی اورنریندرمودی کی وحشت ودرندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔یہ وہی مودی ہے جسے گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے پرآج بھی فخرہے ۔یہ وہی نریندرمودی ہے جسے امریکی حکومت نے دہشت گردقرار دیتے ہوئے ویزہ دینے سے انکارکر دیا۔مودی کی راہوں میں آنکھیں بچھانے والی بنگلہ دیشی وزیرِاعظم نے مودی کی خدمت میں ایک تصویرپیش کی ۔یہ وہی تصویرتھی جواُس وقت لی گئی جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل نیازی نے ہتھیارڈالے۔ حسینہ واجدکا بھارتی وزیرِاعظم کی خدمت میں ایسا ’’تحفہ‘‘ پیش کرنادراصل اُس کی پاکستان اورپاکستانیوں سے شدیدترین نفرت کاکھُلااظہار تھا، اِس کے باوجودبھی اب اگرکوئی حسینہ واجدکے حق میں کلمۂ خیرکہے تواُس کی غیرت وحمیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے ۔
امن اورشانتی کی امیدباندھنا عین انسانیت لیکن جوشخص لازمۂ انسانیت سے خالی ہواُس سے ایسی اُمیدرکھنا عبث اوراحمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف۔ بھارتی وزیرِاعظم پاکستان دشمنی میں اتنے مخبوط الحواس ہوچکے ہیں کہ اُنہوں نے ’’اعترافِ گناہ‘‘ کرتے وقت یہ تک نہ سوچاکہ عالمی برادری پراِس اعتراف کاکتنامنفی اثرہو سکتاہے۔ ہمارے دفترِخارجہ نے کہاہے’’ عالمی برادری مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے اعتراف کانوٹس لے کیونکہ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹرکی کھلی خلاف ورزی ہے‘‘۔شایدہمارے امورِخارجہ کے بزرجمہروں کو اتنابھی علم نہیں کہ اقوامِ متحدہ توامریکہ اوراُس کے حواریوں کے گھرکی لونڈی اوردَر کی باندی ہے، اُس میں بھلا اُس مخبوط الحواس وحشی درندے کی زباں بندی کی سَکت کہاں؟۔ویسے بھی یہ مسلمہ حقیقت تو یہی ہے کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے‘‘۔
نریندرمودی کی تلملاہٹ کااصل سبب یہ ہے کہ اُس کونہ توچین کے 46 ارب ڈالرکے منصوبے ہضم ہورہے ہیں اور نہ ہی اقتصادی راہداری ۔جنگ چھیڑنے کے وہ متحمل ہونہیں سکتے کہ اگرایسی حماقت ہوئی تو’’اُن کی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘۔یہ 71ء نہیں، 2015ء کاپاکستان ہے جودفاعی لحاظ سے ہمالیہ سے بھی زیادہ مضبوط۔ 28 مئی 98ء کے دھماکوں کے بعدپاکستان نے ایٹمی وارہیڈ دشمن کے ٹھکانوں تک داغنے کے لیے 6 اپریل 99ء کوشاہین وَن کاکامیاب تجربہ کیا۔اِس میزائل کی رینج 900 کلومیٹرہے اوریہ اپنے ٹارگٹ کو100 فیصددرست نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ شاہین ٹو کی رینج 2200 کلومیٹراور شاہین تھری کی 2750 کلومیٹرہے۔ فروری 2015ء میں شاہین تھری نے بحرِہند میں2750 کلومیٹرکے فاصلے پرایک ’’فلوٹنگ ٹارگِٹ‘‘ کودرمیان میں سے دو ٹکڑے کرڈالا ۔ شاہین تھری انڈیاکی جزائر اِنڈیمان میں واقع آخری دفاعی تنصیبات کوبھی صفحۂ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتاہے ۔یہ شاہین تھری ہی ہے جس کانام سنتے ہی بھارتی منصوبہ سازوں کو ’’ تَریلیاں‘‘ آنے لگتی ہیں۔ ہمارے سائنس دان رعداور بابرنامی کروزمیزائلوں کا بھی کامیاب تجربہ کرچکے ہیں ۔ پاکستان دُنیاکا چوتھاملک ہے جس نے کروزمیزائل کاکامیاب تجربہ کیا ۔اِس سے پہلے امریکہ ،روس اورفرانس ہی یہ میزائل بنارہے تھے ۔یہ صلاحیت بھارت کے پاس نہیں البتہ اُس نے دنیاپر یہ دھاک جمانے کی کوشش ضرورکی کہ وہ کروزمیزائل بناچکا ہے ۔ہوایوں کہ بھارت نے روس سے چارکروز میزائل لیے اوراُنہیں فائر کرکے شورمچا دیاکہ اُس نے کروزمیزائل کاکامیاب تجربہ کرلیاہے لیکن خود روس نے ہی اُس کابیچ چوراہے بھانڈاپھوڑ دیا ۔کروزمیزائل دشمن کے ریڈارکو دھوکہ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے ۔یہ لڑاکاطیاروں ،بحری جہازوں سے زمین اورزمین سے زمین پر بھی فائرکیا جاسکتاہے۔ بابرکروز میزائل کی رفتار900کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اوریہ زمین سے صرف 100 میٹراوپر بھی پروازکر سکتاہے ۔یہ کوئی الف لیلوی داستان نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ’’بابر‘‘کروز میزائل اپنے راستے میںآنے والی ہررکاوٹ کوعبور کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتا اور رات کے اندھیرے میں بھی اپنے ٹارگٹ کودرست نشانہ لگاسکتا ہے۔ وطن کی محبت سے سرشارہمارے ایٹمی سائنس دانوں نے ایک ایسے میزائل کاتجربہ کیاہے جس پرصرف بھارت ہی نہیں مغربی دنیابھی حیران وپریشان ہے۔ نام اِس میزائل کا ’’نصر‘‘ ہے اوریہ چشمِ زدن میں دشمن کے ہزاروں فوجیوں کونیست ونابود کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ہم ڈرون بھی بناچکے اور23 مارچ کواِس کی نمائش بھی کرڈالی ۔یوں توہمارے پاس اوربھی بہت کچھ ہے لیکن ہندولالے کوراہِ راست پررکھنے کے لیے یہ بھی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ویسے یہ توہندوبنیا بھی اچھی طرح جانتاہے کہ جذبۂ شوقِ شہادت سے لبریز افواجِ پاکستان اپنی صلاحیتوں میں لاثانی ہیں اِس لیے نہ تو’’لالہ جی‘‘ ہم پرکبھی حملہ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے اورنہ ہی اُس کی گیدڑبھبکیوں کاہم پراثر ہونے والاہے لیکن اگراُس نے ایسی کوئی ’’حماقت‘‘ کرڈالی توپھر وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ اُسے اپنی ’’دھوتی‘‘ سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔
بھارت ’’پاک چائنا کوریڈور‘‘ منصوبے کوناکام بنانے کے لیے وہی کچھ کرسکتا ہے جووہ کررہا ہے یعنی ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کے ذریعے افراتفری۔ بہت عرصے تک تو’’را‘‘کا نام لینے پربھی ہمارے حکمرانوں کی زبانوں پر لکنت طاری ہوتی رہی جبکہ دوسری طرف بھارت ہر الزام آئی ایس آئی پردھرتا رہالیکن اب ہمارے حکمران بھی کھُل کرپاکستان میں دہشت گردی کاسبب ’’را‘‘کو قراردے کر ’’عالمی ضمیر‘‘ کوجھنجھوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب اورمحترم چیف آف آرمی سٹاف افغان حکومت کومکمل ثبوتوں کے ساتھ یہ باورکروا چکے ہیں کہ ’’را‘‘ کے ایجنٹ اپنی تخریبی سرگرمیوں کے لیے افغانستان کاراستہ اختیارکرتے ہیں ۔افغان حکومت نے بھی اِس معاملے میں پاکستان کی بھرپورمدد کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن اِس کے باوجودبھی بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیںآئے گاکیونکہ وہ خوب جانتاہے کہ اگریہ کوریڈوربَن گیاتو بھارت کاعلاقے کاچودھری بننے کاخواب چکناچور ہوجائے گا۔ اگردفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان اقتصادی لحاظ سے بھی مضبوط ہوگیاتو پھربھلا اُسے کون چودھری مانے گا؟۔