بے مثال لیڈر”محمد علی جناح

Published on December 24, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 504)      No Comments

تحریر:ڈاکٹر قاضی واصف رضا
جس طرح پاکستان کا بن جانا ایک عجیب راز اوربے مثال معجزہ ہے اسی طرح اس کا بانی بھی جدید تاریخ کا ایک کرشمہ اوربے مثال مسلمان لیڈرہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان بلاشبہ دولت خدادادہے ۔یہ انسانی تاریخ کا بھی ایک انوکھا واقعہ ہے ،اس ملک کا قیام اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر خصوصی انعام بھی ہے اوران کی آزمائش بھی ہے ۔جن حالات میں پاکستان بنا اورشدید ترین دشمنوں بلکہ شوہدے دشمنوں کی مخالفانہ سازشوں کے باوجود قائم ہوا۔اس لئے یوں تو ہوتا ہی رہاہے کہ حکمران بدلتے آتے اورجاتے رہے مگر ایسے کبھی نہیں ہواکہ حکمرانوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ رعایا کا بھی تبادلہ ہوگیاہو،آج تک کبھی بھی اتنا بڑاتبادلہ آبادی بھی نہیں ہوا اس لئے یہ واقعہ انوکھا اوربے مثال بھی ہے ۔مسلمان براعظم پاک وہند میں ایک اقلیت تھے اورکوئی غالب اکثریت کسی کمزور اقلیت کو اتنی آسانی سے اپنے سے الگ اورآزاد نہیں ہونے دیا کرتی پھر جہاں اکثریت بھی ہندوجیسی ہو جو تعصب وتنگ نظری کی آخری انتہاؤں پر ہو اورجس کا سب سے بڑالیڈرتقسیم ہند اورقیام پاکستان کو گتوماتا کی جوٹی کھانے کے مترادف قرار دیتاہو، یہی نہیں بلکہ جس کا سازشی وعیار سرپرست انگریز جیسا مسلمان دشمن حاکم وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی شکل میں موجود ہوتو ایسے حالات اورایسی فضا میں پاکستان کا قیام واقعی قدرت کا ایک کرشمہ بلکہ معاصر تاریخ میں اسلام کا زندہ جاوید معجزہ ہے ۔یہ مسلمانوں کیلئے اللہ تعالی کا خصوصی انعام ہے وہاں ان کیلئے بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔لیکن جس طرح اس دولت خداداد کا قیام ایک انوکھا واقعہ اوراسلام کا محیرالعقول معجزہ ہے اسی طرح اس کا بانی اورقائد بھی جدید تاریخ کا ایک بے مثال لیڈر ہے بلکہ مسلمانوں کی معاصر تاریخ کا ایک کرشمہ ہے ۔دبنا جھکنا یا بکنا تو محمد علی جناح کی ڈکشنری میں تھا ہی نہیں مگر وہ تو عزم واستقلال اورصبر وہمت کا ایک ناقابل شکست پہاڑ بھی تھا کیا صبر وہمت ہے کہ تپ دق کے موذی ومہلک مرض نے اس کے جسم کو کھوکھلا کرکے آخری درجہ تک پہنچا دیا ہے مگر وہ اس لاعلاج اورجان لیوا مرض کو مکار ہندواورعیار انگریز دونوں کے مخفی رکھنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ماؤنٹ بیٹن جیسے ہندونواز سازشی اورنہروجیسے چالباز ہندوکو حسرت کی آگ میں جلتے رہنے اورندامت سے ہاتھ ملتے رہنے کیلئے چھوڑ جاتاہے ۔دونوں آہیں بھرتے اورحسرت میں جلتے ہوئے کہتے سنے گئے کہ وہ انتقال اقتدار کے کھیل کو ایک سال تک تو بڑی آسانی سے مؤخر کرکے ٹال سکتے تھے اوراگست 1947 ء کے بجائے ستمبر 1948 ء تک کا وقت آنکھ جھپکنے میں گزرسکتاتھا اوربراعظم کی تاریخ مختلف ہوسکتی تھی مگر اپنے صبروہمت کی ٹھوکر سے تاریخ کا رخ بدلنے والے کا کوئی کیا بگاڑسکتاتھا محمد علی جناح نے تو مکارہندواورچالاک انگریز کو اپنا تھوکدان بھی نہ دیکھنے دیا۔تپ دق جیسا لاعلاج اورموذی مرض قائد کے پہاڑ جیسے جسم کو تو اندرہی اندرکھاکر کھوکھلا کرگیا مگر اس کے عزم واستقلال میں ہلکی سے ہلکی لغزش پیداکرنے میں بھی ناکام رہا۔یہ ہوتے ہیں وہ لوگ جو تقدیر کے آگے بھی نہیں جھکتے بلکہ تقدیر کو بھی ان کے سامنے سیر انداز ہونا پڑتاہے ۔براعظم پاک وہند اوربنگلہ دیش میں اسلام کی تاریخ پر مسلمانوں نے محققانہ نظر کم ہی ڈالی ہے اوریہاں کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کے تو بہت سے پہلو آج تک تشنہ تحقیق ہیں ۔کم سے کم عالم اسلام سے تو بہت سارے حقائق پوشیدہ چلے آتے ہیں نہ تو اسلامی دنیا کے اہل علم ودانش نے ان کی کھوج لگانے اوران سے آگاہ ہونے کی کوشش کی ہے اورنہ ہمیں اس کی توفیق ہوسکی ہے مثلاً یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ براعظم اورجزیرہ نمائے سپین میں دین اسلام نے غازیان ملت کے قدموں کے ہمراہ ایک ہی زمانے میں اپنا جھنڈاگاڑا تھا، پہلی صدی ہجری کے اختتام پر ایک ہی وقت میں ساحلی سندھ پر محمد بن قاسم کا لشکر اسلام لنگر انداز ہوااورادھر طارق بن زیاد کے سرفروش جبل طارق کے دامن میں اترے تھے مگر ہسپانیہ میں مسلمان اتنے کمزور اوربے بس رہے کہ وہاں سے اسلام نے ایسی جڑ پکڑی ہے کہ اسے بڑے سے بڑا طوفان بھی گزند نہیں پہنچا سکا اوراب تو ہندو اپنے تعصب کی غلاظت کو کتنا ہی جوش دلائے اوردہشت وبربریت کے گودھراریلوے اسٹیشن جیسے شرمناک ڈراما سٹیج کرلے اسلام کا شجرہ طیبہ تحت الشری میں پہنچی ہوئی اپنی جڑوں کے باعث اورثریا تک بلند اپنی چوٹیوں کے طفیل یہاں لہلہاتارہے گا اوراس کے برگ وبار پھیلتے اوراپنا فیض عام کرتے ہی رہیں گے ،اسی طرح یہ رازبھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک براعظم پر مسلم حکمرانی کے باوصف اسلام یہاں پر غالب اکثریت کا دین کیوں نہیں بن سکا ۔ہمیں یہ حقیقت بھی اسلامی اورغیر اسلامی دنیا پر منکشف کرنے کی ضرورت ہے کہ براعظم کو ایک متحدہ اکائی کی شکل میں آزاد ملک بنائے رکھنے کے اولین علمبردار اورزبردست حامی تو مسلمان اوران کے قائد تھے پھر یہ خطہ تقسیم کیوں کرنا پڑا؟بلکہ خودہماری نئی نسل کیلئے بھی اس حقیقت کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کی بنیاد اگر صرف اتنی ہے کہ ہندواورمسلمان کا مذہب الگ الگ ہے اوربس تو یہ بات نہ ہماری نئی نسل کے پلے پڑتی ہے نہ اسے اسلامی دنیا جانتی اورمانتی ہے بلکہ مصر والے تو آپ سے یہ بھی کہیں گے کہ یہاں تو ہم مسلمان اورقبطی عیسائی چودہ صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں تم ہندوکے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہ سکتے تھے ؟وہی ہندوجو ایک ہزار سال تک تمہاراہم وطن رہاہے ؟اس حقیقت کی تہہ تک پہنچنا ، اس سے اپنی نئی نسل کو خبردار کرنا اوردنیا کے سامنے اس حقیقت کو تسلی بخش انداز میں پیش کرنا پاکستان کی بقا کو سوال ہے ۔میری دانست میں ہندوکے ظاہر اورباطن کو دوآدمیوں نے خوب سمجھا ہے ان میں سے ایک مسلمان عالم اورسائنسدان ابوریحان البیرونی تھا اوردوسرامسلمان سیاستدان اورلیڈرمحمد علی جناح ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے کمالات میں ہے کہ مستقبل میں مغربی جمہوری اقدار کے غلبہ ، اثرات اورنتائج پر نظر رکھتے ہوئے اورہندوکے ظاہر وباطن پر اچھی طرح آگاہی کے بعد آنکھیں بند کرکے ہندوکے جھانسے میں آنے اورانگریز کی سازش کا شکار بننے سے انکار کردیا۔وہ بہت سے مسلم قائدین کی طرح اس وہم میں مبتلا نہیں رہے کہ انگریز سامراج کے دفع ہوجانے کے بعد دہلی کے لال قلعہ میں لالہ لبھورام کے پیلے پگڑلہرانے کے بجائے وہاں کوئی اور اسلامی جھنڈالہرانے دے گا جسے انگریز ی سامراج نے اتار کرتارتار کیاتھا اورمسلمانوں کیلئے پھر سے بہادر شاہ ظفر والادور لوٹ آئے گا ، اس لئے وہ ہندوسیکولر زم اورجمہوریت کے جھانسے میں نہیں آئے ، جھانسے میں آنے والوں کی آنکھیں تب کھلیں جب بھارت کے مسلمانوں کو گودھراریلوے اسٹیشن کی سازش کے بعد گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ایک واقعہ نہیں بلکہ آزادی کے بعد سے اب تک ہزاروں مناظر دیکھنے پڑے جس میں ہندوکے سیکولرزم اورجمہوریت کا پول کھلتا رہا اوراس کے پرامن بقائے باہمی سے انکار کے ان گنت واقعات پر انسانیت شرماتی رہی ، جب ہندونے طاقت کے بل بوتے پر تقسیم کے طے شدہ ایجنڈے پر عمل کرنے اورکئے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے ساٹھ سال سے مظلوم کشمیری مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھے ہوئے ہے یا جس طرح وہ پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد آج بھی پاکستان اوربنگلہ دیشن کے مسلمانوں کو آزاد دیکھ کر دانت پیستا رہتاہے اورزہریلے سانپ کی طرح بل کھاتارہتاہے ، پاکستان میں ستر سال بعد آنے والے ساون کے ہر اندھے کو سب کچھ اب بھی ہرانظر آتاہے اوربراعظم کے تمام مسائل کا حل اس میں دیکھتاہے کہ واگہ کی لکیر تو مٹادی جائے مگر کشمیر کی عارضی لائن پر آہنی باڑلگانے کو ہندوسیکولرزم اورجمہوریت کا کارنامہ ہی تصور کیاجائے ۔ لالہ لبھو رام کا پرنالہ توہیں گرے گا جہاں وہ گرتاہے وہ خود تو ہندوکا ہندوہی رہنا پسند فرمائے گا مگر مسلمانوں کو مندر کے دروازے پر لے جائے بغیر پرامن بقائے باہمی پر ایمان رکھنے والا ہم وطن یا پڑوسی بننے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہوگا۔ یہ بات ہم میں سے کسی کی سمجھ میں شاید نہ آئے مگر قائد اعظم محمد علی جناح اسے خوب سمجھنے اوراچھی طرح جانتے تھے پرامن بقائے باہمی تو بہت اونچی اوربہت دور کی بات ہے وہ تو نبی پاک ﷺ کے امتیوں کو ملیچھ ، ناپاک اورنجاست تصور کرتے ہیں جن سے براعظم کو پاک کرنا ضروری ہے ۔مگر اب کہاں سے لائے کوئی محمد علی جناح ، بلکہ اب تو ایک ہزار سال تک جنگ جاری رکھنے والا کوئی ذوالفقار علی بھٹو بھی نظر نہیں آتا، 25 دسمبر 1877 ء میں ایک غریب مسلمان تاجر کے گھر جنم لینے والا اورپھر دنیا کو اپنا محیرالعقول کارنامہ کردکھانے والا محمد علی جناح 11 ستمبر 1948 ء آفتاب عالمتاب کی طرح غروب ہونے والا قائداعظم کراچی میں آسودہ خاک ہے مگر اس کے مزار پر حاضری دینے والی نئی مسلمان نسل ہندو کے بارے میں اس کی معلومات اوریقینی نظریات سے آگاہ بھی ہوتی ہے یانہیں یا آزمائے ہوئے کو پھر آزمانے کی جہالت کا ثبوت دیتی ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا مگر جس بات میں مجھے کوئی شک نہیں وہ یہ ہے کہ ہندواورمسلمان یا دوسرے لفظوں میں بھارت اورپاکستان میں کوئی تصادم ہویا نہ ہولیکن ہندومت اوراسلام میں مقابلہ ضرورہوگا۔ علم، سائنس اورتہذیب کی روشنی میں اب یہ مقابلہ ناگزیر ہے ۔آخربراعظم جنوبی ایشیاکے انسان کو آزادی ، مساوات اورانسانیت دوستی کی فضا میں سکھ چین سے زندگی گزارنے کا موقع ملناہی ہے ہندوکے طبقاتی چنگل میں ہزاروں سال سے پھنسے ہوئے اچھوت نے بھی تو آزاد ہونا ہے یہ آزادی اسے مل کر رہے گی جو تنگ نظر معاشرہ رسم ورواج میں جکڑاہواہے اورجس کی بقاء کی ضمانت صرف دھونس اوردھاندلی ہووہ علم ، سائنس اورتہذیب کی روشنی میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔اقبال کے شاہینو !اورقائد اعظم کے فرزندو!قائداعظم محمد علی جناح ایک ایسے بلند نظر اوردور اندیش لیڈر تھے جن کی نظر مستقبل پر رہی ، وہ تاریخ کا شعور کامل حاصل ہونے کے بعد اوربراعظم میں ہندواورمسلمان کے ماضی سے کماحقہ آگاہی کے بعد مسلمانوں کے مستقبل سے ایک لمحہ کیلئے بھی غافل نہیں ہوئے ، وہ ہندو کی عیاری اورمسلمانوں کے افتراق واختلاف کو دیکھ کریہاں مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق بہت پریشان تھے ، اسی پریشانی میں وہ عارضی طورپر ہندی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ، اسلام اورمسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں قائد اعظم جیسے سیاسی لیڈر کے علاوہ علامہ اقبال جیسے مخلص راہنما اوردوراندیش مفکر بھی میسر آگئے ۔اقبال کے اخلاص اوردور اندیشی پر مسلمانوں کو یقین تھا اوراقبال کو قائد اعظم کی قیادت پر بھروسہ اوران کی صلاحیت پر پوراپورایقین تھا اس لئے جب اقبال نے براعظم کی ملت اسلامیہ کی انگلی قائد اعظم کو پکڑائی تو اپنے مخلص راہنما اوردور اندیش فلسفی شاعر پر بھروسہ رکھنے والے مسلمان قائد کی قیادت پر متفق ہوگئے اس لئے وہ خطرہ تو ٹل گیاجو ہندو کے پوشیدہ عزائم اورمنافقانہ جھانسوں میں مضمر تھا مگر جنوبی ایشیاکی مسلم سیاسی قیادتیں صحیح فیصلہ کرنے میں ناکام رہیں ، اگر ہندو کی طرح مسلم زعماء بھی متحد ومتفق ہوتے تو پاکستان کا نقشہ وہ نہ ہوتا جو آج ہے اورتاریخ وہ نہ ہوتی جو سامنے آئی ۔تاریخ میں ایسے تو ہواہے کہ فاتحین نے ملک فتح کئے اوران کے حکمران بنے ، ایسے بھی ہواہے کہ قائدین نے اپنی قوموں کو آزاد کرایا اورحکمران بنے اورایسے بھی ہوتا رہاہے کہ منتشر افراد وقبائل کو متحد قوم بناکر ملک قائم ہوتے رہے مگر ایسے نہیں ہوا ہے کہ ایک ہی قائد نے مخالف قوتوں کو شکست دی ، اُسی قائد نے اپنی قوم کو آزادی سے بھی ہمکنار کیا اورمنتشر گروہوں اورقبائل کو متحد کرکے ایک قوم بھی اسی قائد نے بنادیا، یہ صرف ہمارے قائد اعظم ہی ہیں جنہوں نے اپنے دماغ اورقلم سے اکیلے اپنے طاقتور ہندو اورانگریز دشمنوں کو بھی چاروں شانیں چت کردیا، منتشر اورباہم ناواقف گروہوں بلکہ باہم متصادم گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع بھی کیا اورانھیں آزادی کی نعمت سے بھی سرفراز کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح واقعی جدید اورمعاصر اسلامی تاریخ کے ایک منفرد اوربے مثال قائد ہیں اورقول اقبال کا مصداق ہیں کہ ۔
؂ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy