سوات کا تاریخی عجائب گھر

Published on April 9, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 647)      No Comments

Fazal
پاکستان کا سوئٹزر لینڈ’’ سوات‘‘ جو مختلف حوالوں سے اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور یہی خصوصیات اسے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں ممتاز رکھے ہوئے ہے،آج ہم آپ کو سوات کے تاریخی عجائب گھر کی سیر کراتے ہیں، مختلف تہذیبوں کو اپنے اندر سموئے سوات میوزیم جو کشید گی کے دوران تباہی سے دوچار ہوا تھا کی رونقیں ایک بار پھر لوٹ آئی ہیں ،قیمتی پتھروں سے بدھ مت دور کے مجسمے ہوں یا گندھارا تہذیب ،ہندوشاہی اور اشوکا دور کے نوادرات ہوں یا مسلم ادوار کی نشانیاں ہوں سب اس میوزیم کی زینت ہیں۔ 2008 ؁ء میں دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والی سوات میوزیم کی عمارت کو اطالوی حکومت کی تعاؤن سے دوبارہ تعمیر کرکے عوام کی تفریح طبع کی خاطر کھول دیاگیا ہے ۔ سوات میوزیم کا ا فتتاح 1963 ؁ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے کیا تھا۔ سوات میوزیم نہ صرف ہزاروں سال پرانی نوادرات کا خزانہ ہے بلکہ یہ کئی ایک تہذیبوں کی تاریخ اور ثقافت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
سوات کے تاریخی عجائب گھر کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب 1955 ؁ء میں ایک اطالوی ماہر آثار قدیمہ مسٹر ٹوچی سیر وتفریح کی غرض سے اپنی ذاتی جیپ پر سوات آئے اور مختلف مقامات کی سیر کے دوران انہیں یہاں کی سرزمین پر موجود مختلف تہذیبوں ا ورثقافتوں کے آثار کا ادراک ہوا جس پر اس نے سوات میں آثار قدیمہ کی تلاش میں دل چسپی لی ۔اس کے بعد انہوں نے ا س وقت کے ریاست سوات کے حکمران والئی سوات سے تاریخی مقامات کی کھدائی کی اجازت مانگی، چونکہ والئی سوات خود بھی سوات کو خوب سے خوب تر بنانے کے خواہش مند تھے اور انہوں نے اس وقت بھی ایسے اقدامات کئے تھے جس کے بارے میں آج کے جدید دور میں صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے مسٹر ٹوچی کو بخوشی ان مقامات کی کھدائی کی اجازت دی بلکہ اس حوالے سے مناسب سہولیات بھی فراہم کیں، 1959 ؁ء میں مختلف مقامات پر پرانی تہذیبوں پر پڑے دبیز پردے کو ہٹانے کے لئے کھدائی کا کام شروع کیا گیا جس میں مسٹر ٹوچی کو اچھی خاصی کامیاب حاصل ہوئی۔ مسٹر ٹوچی نے ان مقامات سے مختلف تہذیبوں کی برآمد ہونے والی نوادارت کو محفوظ اور لوگوں کی دلچسپی کے لئے سوات میوزیم کی بنیاد اسی سال رکھی۔ مختلف مقامات سے برآمد شدہ مختلف اقوام کی تہذیبوں کے آثار برآمد ہو نے کے بعد انہوں نے باقاعدہ طورپر انہیں سوات میوزیم(عجائب گھر) کا حصہ بناتے ہوئے انہیں یہاں رکھنا شروع کیا ۔ اس کے بعد مسٹرٹوچی نے والئی سوات کی اجازت سے اس عجائب گھر کے باقاعدہ افتتاح کا پروگرام بنایااور افتتاحی پروگرام منعقد کرتے ہوئے اس وقت کے صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو اس عجائب گھر کے افتتاح کی دعوت دے دی جسے قبول کرتے ہوئے ایوب خان سوات آئے اور 10نومبر 1963 ؁ء کو اس تاریخی عجائب گھر کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کی ضلعی کچہری سے متصل سوات میوزیم کی خوبصورت عمارت دور سے ہی دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے ۔ سوات میوزیم کی عمارت 44کنال کی اراضی پر مشتمل ہے جس میں مختلف قسم کی نواد رات کورکھنے کے لے 9 گیلریاں بنائی گئیں ہیں اور ان گیلریوں میں مختلف تہذیبوں کے سوات کی سرزمین سے برآمد شدہ مختلف قسم کی نوادرات جن میں مجسمے ، سکے، کھانے پینے کے برتن ، آلات موسیقی ،ہتھیاراور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء کو بڑے قرینے سے رکھا گیا ہے۔
سال1959 ؁ء میں جس زمین پر سوات میوزیم کے خوبصورت عمارت کی بنیاد رکھی گئی تھی اس میں بعد ازاں 1992 ؁ء میں جاپان کی حکومت کی تعاؤن سے توسیع کی گئی۔ اس دوران مختلف ممالک سے آئے ہوئے ماہرین آثار قدیمہ بھی سوات کی تاریخی سرزمین پر مسلسل کھدائی کرتے ہوئے مختلف مقامات سے مختلف تہذیبوں کے آثار اکھٹا کرتے رہے اور ان سب کو لاکر سوات عجائب گھر کی زینت بڑھاتے رہے۔ بدقسمتی سے اس دوران سوات میں حالات کشیدہ ہوگئے ہرطرف کشت وخون کا بازار گرم ہوااور امن کی دھرتی سوات کی سرزمین کو نہ جانے کس کی نظر لگی کہ روز کہیں نہ کہیں پہ بم دھماکے ہوتے رہے جس کی زد میں آکر سوات کا تاریخی عجائب گھر بھی بری طرح متاثر ہوا۔ 16 فروری 2008 ؁ء کو عجائب گھر کی عمارت کے قریب ایک خودکش حملے میں سوات میوزیم کی عمارت کوشدید نقصان پہنچا اور یہ عمارت استعمال کے قابل نہیں رہی تاہم عمارت کی تباہی کے باؤجود نوادرات محفوظ رہے ۔چونکہ میوزیم کی عمارت بری طرح مخدوش ہوچکی تھی اور اس میں موجود قیمتی نوادرات کو محفوظ رکھنے کیلئے اس وقت کوئی دوسری عمارت دستیاب نہیں تھی اور خدشہ تھا کہ اگر ان نوادرات کو مزید اس عمارت میں رکھا گیا یا انہیں کہیں محفوظ نہ کیا گیا تو مختلف تہذیبوں کی یہ قیمتی تاریخ ضائع ہوسکتی ہے بدیں وجہ حکومت نے سوات میوزیم کی تمام نوادرات کو محفوظ رکھنے کیلئے ٹیکسلا میوزیم میں عارضی طوپر منتقل کیا ۔سوات میں فوجی آپریشن کے بعد حالات نارمل ہونے کے باؤجودیہ قیمتی نوادرات تقریباًتین سال تک ٹیکسلا میں رہے اور عمارت (میوزیم) کی عدم دستیابی کے باعث سوات منتقل نہ ہوسکے ۔ بھلا ہو ملک میں آٹھویں ترمیم کے نفاذ کا جب سال 2011 میں آٹھویں ترمیم کے تحت یہ محکمہ ایک بار پھر صوبو ں کے حوالے کیا گیا جس کے بعد سال 2012 ؁ء میں ایک با ر پھر اطالوی حکومت نے سوات میوزیم کی دوبارہ تعمیر کا بیڑہ اُٹھایا اور صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں اس عمارت کی دوبارہ تعمیر سمیت اس کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا گیا جس کے بعد سوات میوزیم کے تمام نوادرات کو ایک بار پھر سال 2013 ؁ء میں ٹیکسلا میوزیم سے سوات میوزیم منتقل کرلیا گیا ۔
سوات کے تاریخی عجائب گھر میں 3500 قبل مسیح سے لے کر 1100 بعد مسیح دور کے قیمتی نوادرات اب بھی موجود ہیں جو مختلف مقامات سے کھدائی کے دوران حاصل کئے گئے ہیں۔ اس میوزیم کی سب سے بڑی خاصیت بلکہ انفرادیت یہ ہے کہ اس میں موجود تمام تر نوادرات زمینی کھدائی سے حاصل شدہ ہیں جو پاکستان کے دیگر کسی عجائب گھر کی خاصیت نہیں ہے۔اس عجائب گھر میں 2000 سے زائد نوادرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے دیگر علاقوں میں موجود 21 تاریخی مقامات بھی اس میوزیم سے منسلک ہیں جہاں سے حاصل شدہ نوادرات کا بیشتر حصہ اب بھی سوا ت میوزیم میں محفوظ کیا جاتا ہے ۔سوات میوزیم میں رکھے گئے نوادرات میں سے 40 فیصد نوادرات خیبر پختونخوا کے مختلف آثار قدیمہ کے علاقوں سے حاصل شدہ نوادرات پر مشتمل ہیں۔ جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے ذکر شدہ تہذیبوں کے نوادرات بھی یہاں لاکر محفوظ کئے جاتے ہیں ۔
سوات میوزیم میں پتھر کے زمانے کے اوزار بھی موجود ہیں جنہیں دیکھ کر انسان کی عقل آج بھی دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دور میں جب وسائل کا نام ونشان بھی نہیں تھا ‘ حضرت انسان نے اپنی دفاع کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا ۔ ان قیمتی نوادرات میں اگر ایک جانب گندھارا تہذیب کے آثار موجود ہیں تو دوسری جانب بدھ مت کے آثار سے متعلق نوادرات بھی موجود ہیں۔ سکندراعظم کی فتوحات کی داستان سناتے ہتھیار بھی موجودہیں تو محمود غزنوی دور کے نوادرات بھی آج کے انسان کی آنکھیں خیرہ اور عقل دنگ رہ جانے کے لئے موجود ہیں۔ سوات کے مختلف مقامات سے برآمد شدہ ان مختلف تہذیبوں اور ادوار کے سکے بھی دیکھنے والوں کو حیران کردیتے ہیں۔یہاں اس دور کے آلات موسیقی بھی موجود ہیں جس سے یقینی طورپر اس دور کے انسان خوشی کے لمحات کو دوبالا کرتے تھے۔ یہاں پر بدھ مت دور کی اشیاء موجود ہیں تو قبروں پر رکھے جانے والے لکڑی کے جنگلے اور لکڑی کے تابوت بھی محمود غزنوی دور کے تاریخ کا پتہ دیتے ہیں۔اسلامی دور کے لکڑی کے جائے نماز جنہیں یہاں کی مقامی زبان میں ’’تخت پوش‘‘ کہا جاتا ہے جوآج تک اسی حالت میں موجود ہیں اور حوادث زمانہ نے ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑا ہے ۔سوات میوزیم میں اس دور کے مکانوں کو تعمیر کرنے کے لئے لکڑی کے ستونوں کے نمونے بھی موجود ہیں جن پر اس دور کے نقاشوں نے عمدہ نقاشی کررکھی ہے۔ قیمتی پتھروں پر کندہ انسانی معاشرت کے مختلف پہلووں کے ہندوشاہی دور کے مجسموں کی شکل میں ایسی عکاسی کی گئی ہے جسے دیکھ کر اس دور کے فنکاروں کی فن کاری پر رشک آجاتا ہے ۔ یہاں پر ایک چیز کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو بہت بڑی زیادتی ہوگی ۔ اس میوزیم کو بنانے والے مسٹرٹوچی جو اطالوی نژاد تھا نے اس میوزیم کوقائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اس کے بعد والئی سوات بھی یقینی طورپر داد وتحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے سوات کے باسیوں کو یادماضی سے جڑے رکھنے کے لئے مسٹر ٹوچی کا ساتھ دیا، مسٹر ٹوچی کے یادگار کے طورپر اس کی وہ جیپ جس پر بیٹھ کر وہ 1955 ؁ء میں سوات آئے تھے کو بھی سوات میوزیم کے نوادرات کا حصہ بنا کر میوزیم کی سیر کرنے والوں کی دل چسپی کے لئے رکھا گیا جسے سوات میوزیم میں آنے والے خصوصی طورپر دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ تصویریں نکال کر دوستوں کو دکھاتے ہیں۔ سوات میں پرانی تہذیبوں کے آثار کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سوات اور ملحقہ علاقوں میں تقریباً دو ہزار سے زائد مقامات ایسے ہیں جن میں پرانی تہذیبیں پنہاں ہیں لیکن ان میں سے اب تک صرف اکیس یا بائیس ہی کو دریافت کیا جاسکا ہے جبکہ باقی پر تاحال وقت کا پردہ پڑا ہوا ہے جس کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے، اس میوزیم کی دوبارہ بحالی کے بعد ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا گیا ہے اور وہ ہے فوجی آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز اور سوات کی عوام کے ان شہداء کی یادگار‘ جنہوں نے ملکی بقاء کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔الغرض سوات کی سیر کرنے والے اگر اس تاریخی میوزیم کی سیر نہ کریں تویقینی طورپر ان کی سوات یاترا بے معنی رہے گی۔

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy