محمد یونس خٹک مرحوم کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے

Published on December 15, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 502)      No Comments

تحریر:سدیس اعوانimran
محمد یونس خٹک ہم سے بچھڑے ہوئے تین برس ہوگئے بلکہ صحیح بات یہ ہوگی کہ ہم ان سے محروم ہوئے تین برس کا عرصہ ہوا ہے ۔ مگر ان کی یادوں کا گلشن اب بھی تروتازہ ہے ۔ انکی یادوں کی مہک اب بھی مشام جاں کو معطر کیے ہوئے ہے ۔ ان کی شخصیت کا فیضان اب بھی جامعۃ المحصنات کی درو دیوار پر نورانیت کا باعث ہے ۔ ان کی محبت اور شفقت اب بھی مرکز اسلامی مانسہرہ کے رہنے والوں کا اثاثہ ہے ۔ محمد یونس خٹک 16 دسمبر 2013 کو اس فانی دنیا سے رخت سفر باند ھ کر بارگاہ رب العزت میں پیش ہوگئے ۔ ان کا شمار ان ناقابل فراموش ہستیوں میں ہوتا ہے کہ جن کی شخصیت کے اثرات معاشرے پر تادیر ثبت رہتے ہیں ۔ محمد یونس خٹک شعور کے ساتھ دین کی اقامت کی جدوجہد کے راستے کا انتخاب کیا اور پھر اس راستے پر چلتے چلتے اسی میدان عمل میں اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے شہادت کی موت سے ہم کنار ہوئے ۔ ڈسٹرکٹ کونسل میں اللہ کے بندوں کے درمیان صلح کے ایک اجتماع میں اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہنا شہادت ہی تو ہے ۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔ بلاشبہ وہ اپنے خاندان کے لیے ایک شفیق بزرگ اور چھتنار درخت تھے ۔ اس کی گواہی ان کے خاندان کا ایک ایک فرد دیتا ہے ۔ اس کی نشانی ان کے آبائی گاؤں میں ان کے نام سے موسوم یونس خٹک میموریل ہسپتال ہے جو بالاکوٹ روڈ پر بیماروں کو اللہ کی رضا کے لیے اور اللہ کی توفیق سے شفادینے کا کام کرتی ہے ۔ وہ ایک بہترین مربی تھے ۔ اس کاثبوت وہ سینکڑوں ہزاروں کارکن ہیں جو انکی تقریروں اور دروس قرآن سے فیض یاب ہوئے ۔ انکی گفتگو عشق رسول کی خوشبو سے آراستہ ہوتی تھی ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے ۔ آنسوؤں کی لڑیوں کے ہدیے پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے حضور بھیجتے ہوئے شہادت کی موت کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ دین کی اشاعت کے لیے مرمٹنے کی جذبہ ان کے دل میں موجزن تھا۔ جامعۃ المحصنات مانسہرہ کے درو دیوار انکی اس چاہت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ وہ بے کسوں اور یتیموں کی خبر گیری کرتے تھے ۔ 1997 میں جہاں انہوں نے ایک جانب مدرسے کی بنیاد رکھی اور تو دوسری طرف یتیموں بچوں اور بچیوں کی کفالت کے لیے باضابطہ اہتمام کیا ۔ 2006 میں اس نظام سے مستفید ہونے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد اس ضلع میں 2500 سے تجاوز کر گئی تھی ۔ مانسہرہ میں آغوش الخدمت داتہ چوک ان کے اسی جذبے کا عکاس ہے ۔ اس ادارے کے لیے زمین کی خریداری سے لے کر اس کے قیام کی عملی کوشش تک موصوف پیش پیش رہے ۔ اللہ کے ہاں کون سرخرو ہے اس کا فیصلہ تو حشر میں ہی ہوگا لیکن دنیا میں گذاری گئی زندگی پر قیاس کر کے ہم بلاشبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد یونس خٹک اللہ کے ولی تھے ۔ انکی زندگی ایک بہترین مسلمان اور ایک مومن کی زندگی تھی۔ وہ ممکنہ حد تک سنت سے روشنی سے آراستہ زندگی گزارتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کے آثار کو اکثر گفتگو کا موضوع بناتے اور کارکنوں کو ان کے راستوں پر چلنے کی ہدایت کرتے ۔ موصوف شب زندہ اور متوکل علی اللہ تھے ۔جامعۃ المحصنات مانسہرہ کی عمارت کی جگہ خریدنے سے لے اس عالی شان عمارت کی تکمیل تک ایک ایک مرحلے پر اللہ پر انکا توکل اپنے جوبن پر نظر آیا ۔ ساتھیوں سے مشورہ کر کے جو طے کر لیا بس طے کر لیا اور پھر اس پر ڈٹ گئے ۔ اللہ نے بھی اپنے اس بندے کا ہمیشہ لاج رکھی اور انکے کام میں برکت عطا فرمائے ۔ بہادر اور نڈر انسان تھے ۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کا برملا اظہار کرتے ۔ جس کو غلط سمجھتے اسے غلط کہتے ۔ مصلحت کوش ہر گز نہیں تھے ۔ بات کے کھرے اور حسن عمل کا پیکر تھے ۔ محمد یونس خٹک مانسہرہ کے محسن تھے ۔ مانسہرہ کی سماجی زندگی کے مرکز و محور بن گئے تھے ۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور انکے درجات کو بلند کر کے انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes