زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

Published on January 22, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 442)      No Comments

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر ایم ایچ بابر MH.Babar
کل سندھ اسمبلی میں بڑی عجیب طرح کی گفتگو سننے کو ملی اور جس انداز میں ایک دوسرے کا تمسخر اڑایا گیا اس کے بارے میں کچھ کہنا بھی اتنا ہی عجیب لگ رہا ہے جتنی عجیب وہ گفتگو تھی مگر جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے وہ صرف اور صرف اتنی سی بات ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ، کیونکہ جس انداز میں صوبائی وزیر موصوف امداد پتافی صاحب انگریزی لکھی ہوئی بولنے سے کترا رہے تھے وہ منظر دیدنی تھا اور اسی طرح فنگشنل مسلم لیگ کی ممبر اسمبلی نصرت سحر عباسی انگریزی کے بخیئے ادھیڑتی ہوئی دکھائی دیں وہ بھی قابل دید تھا اور پورا ایوان ادھ پکی انگریزی اور گلابی انگریزی سن سن کر مسکرا رہے تھے اسے طنز کہوں یا تمسخر ابھی تک اس شش و پنج کی کیفیت سے باہر نہیں نکل پایا ہوں ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں معزز ممبران اسمبلی انگریزی بول کر مذاق بننے کی بجائے اپنی قومی زبان میں گفتگو کرتے اور برائے راست تماشہ بننے سے بھی محفوظ رہتے مگر مصیبت یہ ہے کہ ہم پر بلا وجہ اور بلا مقصد بدیسی زبان بولنے کا خبط سوار ہے چاہے اس زبان کی ٹانگیں ،بازو ، سر دھڑ الگ الگ کر کے ہی کیوں نہ چھوڑیں ہم انگریز کی زبان کو اہمیت دینا نہیں چھوڑیں گے اس بدلے ہم خود چاہے اپنی وقعت و قیمت سے ہی ہاتھ کیوں نہ دھو بیٹھیں ہم اردو بول کر کیوں انگریز بہادر کی ناراضگی مول لیں ؟ کیوں دنیا کو دکھائیں کہ ہم پاکستانی ایک قوم ہیں اور ہماری زبان بھی ایک ہے جسے ہم قومی زبان کہتے ہیں اور وہ ہے اردو ۔ مگر اپنی زبان کو اپنا کر تو ہمارے گلے سے غلامی کا طوق اتر جائے گا ،ہم ایک قوم تب ہی دکھائی دیں گے جب ایک ہی زبان کو اپنائیں گے ہم ایسا کر کے اپنی سٹیٹسکو کا بھر م کیوں گنوا لیں؟قارئین کرام آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اردو کو دفتری زبان کے طور پر فی الفور لاگو کیا جائے کیا اس حکم کی تعمیل ہو سکی آپ کے خیال میں یہ عمل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے یا کہ نہیں ؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس توہین عدالت کا جو جو اور جہاں جہاں ہے وہ قابل تعزیر ہے خواہ وہ کوئی بھی ہے کسی بھی عہدے پر براجمان ہے اس عدالتی حکم کے تحت اردو کا نفاذ جان بوجھ کر نہ کرنے والوں کے خلاف وطن عزیز کی اعلی ترین عدالت بھی اب تک کوئی ایکشن لینے سے معذور کیوں دکھائی دے رہی ہے ؟کس طاقت کی جھڑکیوں سے خوف زدہ ہو کہ ہم اپنے ہی ملک میں اپنی قومی زبان کے نفاذ سے گریزاں ہیں ؟اب ذرا بنظر تحقیق دیکھیں کہ ہمارا ہمسایہ ملک چین جس کی زبان کے حروف تہجی کی تعداد ایک سو سے زائد ہے انہوں نے اپنی آسانی کے لئے چھبیس حروف پر مبنی حروف تہجی کی حامل انگریزی کو اپنی اور اپنی قوم کی آسانی کے لئے اپنے ملک میں رائج کرنا کیوں مناسب نہ سمجھا انہیں بھی تو چاہئے تھا نہ کہ تیز تر ترقی کے لئے انگریز کی زبان کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے یا کیا چینی زبان کو ہی نافذ کر کے انکی ترقی کا عمل سست روی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ؟ یقینی طور پر اس سوال کا جواب ہر ذی شعور نفی ہی میں دے گا ،جاپان کس قدر ترقی پذیری کا شکار ہوا انگریزی کو نہ نافذ کر کے ؟نہیں بلکہ اپنی زبان کو اہمیت دے کر ان ممالک کا تشخص اور زیادہ نکھر کر دنیا کے سامنے آیا ۔ترقی کی دوڑمیںیہ مملک دنیا بھر سے آگے ہیں اسی طرحعرب ممالک کے سربراہان سے لے کرعام شہری تک عربی ہی کو مقدم و مقدس سمجھتے ہیں ایران بھی فارسی کو عربی کے بعد مقدس ترین زبان سے تعبیر کرتے ہیں اور فارسی ہی انکی دفتری زبان کے طور پر رائج ہے ان تمام ممالک کے سربراہان جب بھی کسی بیرونی دورے پر جاتے ہیں تو فخریہ طور پر اپنی زبان بول کر اپنی وقعت و قیمت کو منواتے ہیں ہماری طرح بیرونی دوروں کے دوران اٹک اٹک کر اور ہکلا ہکلا کر خود ہی جگ ہنسائی کا سبب نہیں بنتے پھر آخر وہ کون سی ایسی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی قوم کے فرد ہو کر اپنی قومی زبان کو نافذ کرنا یا بولنا اپنی توہین یا ہتک سمجھتے ہیں ایک عام سی مثال پیش خدمت ہے کہ ہماری عدالتیں جب کسی کیس کا فیصلہ سناتی ہیں تو انگریزی سے نا آشنا وہ شخص جس کے حق میں یا جس کے خلاف وہ فیصلہ ہوا ہے اسے پڑھنے سے قاصر رہ جاتا ہے کیا اس کا حق نہیں کہ وہ بھی جان سکے کہ عدالت نے آخر لکھا کیا ہے ؟فرنگی کی زبان کو خود پر اوڑھ کے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے ہم اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت، اپنی اقدار سے تو دور ہوئے ہی تھے رشتوں کے تقدس کو بھی یکسر فراموش کرنے کے گناہ کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں کہاں ہم والد کو ابا جان کہہ کر مخاطب کرتے تھے جس سے ایک سکون بھی ملتا تھا اور رشتے کی مٹھاس بھری پہچان بھی اجاگر ہوتی تھی اب ہم اپنے ابا جان کو ڈیڈ یعنی مردہ کہہ کر اپنے پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ہم اپنی ماں کو ماں جی یا امی جان کہتے تھے اور اب اس دور غلامی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہماری نئی نسل اس پاکیزہ رشتے کو موم کہہ کر اس کے تقدس کو بدیسی زبان کی آگ پر پگھلا رہے ہیں ،وہ تمام رشتے جن سے پہچان ہو جاتی تھی کہ دراصل کوئی کسی کا کتنا قریبی رشتہ دار ہے مثال کے طور ماموں ، ممانی ،خالہ ،خالو ،نانا ،نانی، ماموں زاد ، خالہ زاد ان تمام رشتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ننھیا لی رشتے دار یا ماں کے خونی رشتے دار ہیں اسی طرح دادا ،دادی ، چچا ،چچی ،تایا ،تائی ،پھوپھا ،پھوپھی ،چچا زاد ،تایا زاد ،پھوپھی زاد وغیرہ اپنے خونی رشتوں کی پہچان کو اجاگر کرتے تھے اب ہماری نسل نو زبان غیر کے جال میں پھنس کر تمام رشتوں کے تقدس کو یکسر نظر انداز کر بیٹھے ہیں جیسا کہ لفظ انکل جس سے قطعی طورت پر شناخت نہیں ہو پاتی کہ اصل رشتہ کیا ہے آنٹی یہ کوئی رشتہ ہے بھلا ؟ماموں چچا پھوپھا سب انکل اسی طرح آنٹی کس شناخت کو ظاہر کرتی ہے ممانی چچی خالہ پھوپھی سب آنٹی اور ماموں زاد بھائی بہن ،خالہ زاد بھائی بہن چچازاد بھائی بہن تایا زاد بھائی بہن یہ تو تھے رشتے اب سب کزن کیا اس رشتے سے پہچان میسر آتی ہے بالکل بھی نہیں بلکہ آجکل یہ آنٹی اور کزن جیسے عجیب و غریب رشتے جس قدر انسانی رشتوں کی تضحیک اور تذلیل کا باعث بن رہے ہیں کیا اس زبان کو پڑھنے اور اس کو نافذ کر کے ہم فخر محسوس کرتے ہیں جو اقدار و روایات اور رشتوں کی پامالی کا موجب ہے واہ واہ کیا کہنے ہمارے ملک کے ان لوگوں کے جو غلامی کی یادگار میں اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں کس قدر عظیم ہیں وہ راہبران قوم جو خود راہ سے ہٹے ہوئے ہیں ،کس قدر بلند مرتبت ہیں وہ راہنمایان ملت جو اردو کو نافذ کرنا کسی متعدی مرض کا وائرس سمجھ رہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جن کی زبان ایک ہو ،جن کا نظام تعلیم مستعار لیا ہوا نہ ہو بلکہ اپنا مرتب کردہ ہو ۔ الیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم پورے ملک میں تو درکنار ایک چھوٹے سے شہر میں بھی اپنا نہیں ۔ کہیں U.S سلیبس اور کہیں آکسفورڈ سلیبس لکھ لکھ کر اور پڑھا پڑھا کر قوم کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے یکساں نصاب اور اردو زریعہ تعلیم کو فروغ دینا گناہ ہے کیا ؟اگر پاکستان ایک ملک ہے تو پھر اس میں بسنے والے لوگ ایک قوم کیوں نہیں ؟اگر یہ قوم ہے تو اس کی اپنی زبان کو دفن کیوں کرنا چاہتی ہے ؟اسی وجہ سے میری گزارش یہی ہے کہ اپنی زبان کی تریج و اشاعت سے اپنی اقدار کی پاسداری ممکن ہے اپنی ثقافت اپنی تہذیب سے آشنائی ہو گی رشتوں کی پامالی نہیں بلکہ انکا تقدس اجاگر ہو گا ،قومی زبان کے نفاذ سے قوم اور ملک سے محبت کا جذبہ پروان چڑھے گا ہکلا کے انگریزی بولنے اور گلابی انگریزی بول کر تمسخر اڑوانے سے نجات ملے گی اپنی زبان سے اپنائیت فروغ پائے گی اگر نظام تعلیم اردو میڈیم ہو جائے تو شرح خواندگی میں بھی قابل قدر اضافہ ہو گا اس لیئے حکومت وقت سے گزارش یہی ہے کہ جلد از جلد قومی زبان کا نفاذ عمل میں لا کر قوم و ملک کے لئے قابل فخر کردار ادا کریں اور اس ماں دھرتی کی حقیقی اولاد ہونے کا ثبوت پیش کر ہی دیجیئے اگر آپ نے یہ فریضہ اپنے دور اقدار میں ادا کر ڈالا تو آپ اس قوم کے لازوال ہیرو ہوں گے اپنی جلا وطنی سے واپسی کی طرح قومی زبان کی جلا وطنی کا دور ختم کر کے اسے دھرتی پر داخلے کا حکم نامہ جاری کر ہی دیں

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes