نئے چیلنجز نئے غدار

Published on January 26, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 481)      No Comments

لندن ؛ شاہد جنجوعہ Shahid Janjua
انسانی فطرت ابھی تشنہ تکمیل ہے اور أنے والی ہر نئ روح کچھ پانے اور کارکردگی دینے سے پہلے ماحول کی بھٹی سے گزر کر وہی کچھ سیکھتی ہیے جو اس کی بقا اور سلامتی کے لئے ماحول میں رائج ہوتا ہیے.
اگرچہ مسلمان قوم اس ماحول کی چھتری میں زندہ ہیے جہاں زوال
کے پھریرے لہرا رہیے ہیں.
لیکن قرأن اور اسوہ حسنہ کا انقلاب اپنی تعلیمات کی صورت میں أج بھی موجود ہے اور أگے بزھ رہا ہے.
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ملک, معاشرے اور قوم پر عروج و زوال أتا ہے اسی طرح مسلمان قوم بھی اپنے ابتلا کے دور سے گزر رہی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے اسے جب بھی موقع ملا یہ قرأن اور نبی پاک کے عالمگیر اور أفاقی اصولوں سے استفادہ کرتے ہوۓ ضرور دوبارہ ابھری اور آئندہ بھی ایسا ہی نہیں گا.
آج دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر سینکزوں افراد قرأن اور نبی أخرالزماں کی زندگی سے متاٹر ہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں. مگر وہ الگ تھلگ ہیں کہ وہ جس اسلام کے بارے میں پڑھتے ہیں بالعموم ہماری زندگیاں اس سے قلی انحراف کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں ۔۔کچھ لوگ ایسے میں یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اسلام کی عمارت خلافت راشدہ کے تیس سال مکمل ہونے سے پہلے ہی زمین بوس ہو گئ یہ سراسر غلط،تاریخ سے ناواقفیت اور قومی کے اتار چڑھاؤ سے عدم آگہی یا بہی طور کسی رنجش کا نتیجہ ہے
ایک زوال شدہ مسلمان قوم کی اخلاقی, سیاسی اور معاشرتی ابتری کو دیکھ کر یہ دعوی درست نہیں ہیے کہ قران, وحی اور نبی پاک کے زریعے برپا ہونے والا “انقلاب” تیس سال سے أگے نہیں بڑھا بے شک مسلانوں کی کمزوری یہ ہے کہ عامۃ الناس تو رہے درکنار انکے انقلابی لیڈران بھی اپنے ذاتی، فیملی، سیاسی اور۔معاشی و۔ گروہی مفادات کے معاملے میں بہت کمزور واقع ہوۓ ہیں. اور انکے عمل میں منشاء اسلام سمجھ لینا حماقت ہے ..
پہلے تیس سالوں کے مسلمان حضور اکرم کی زندگی سے براہ راست متاثر تهے مگر جیسے ہی حضور اکرم نے رحلت فرمائی تو وہ پیکر اتم۔جس میں احکام الٰہی سمائے تھے اور وہ سرچشمہ ھدایت معاشرے میں بظاہر موجود نہیں تها جسکی وجہ سے بعض منکرین نبوت اور انکار احکام شریعت جیسے خطرناک فتنوں نے سراٹھایا مگر اہل ایمان نے بغیر کسی حیل و حجت کے انکی خوب سرکوبی کی پھر زمانہ بدلتا گیا اور اسلام کو درپیش چیلنجز کی نوعیت بھی اور ہوگی
آج 14 سوصدیوں بعد وہی فتنے ایک نئ شکل میں اسلام پرحملہ آور ہیں انکا حملہ پہلے سے بھی اس لئے سخت ہے کہ اغیار کے پروردہ یہ لوگ اب کھلے دشمن اسلام نہیں انکی صفوں میں چھپے بظاہر اسلام کے چیمپئن اور مسلمانوں کے نمائندہ ہیں جنکے قول و فعل میں تضاد اور انکی لکژری لائف سٹائل پر سینکڑوں سوالات ہیں انہیں جو سب سے پہلا ایجنڈا دیا گیا ہے وہ اخلاقی قدروں اور شرم و حیاء کی چادر تارتار کرکے عورت اور مرد کے اختلاط کو معاشرے میں اسطرح قابل قبول بنانا ہے کہ ایک ہی ٹیبل پر ننگ دھڑنگ جسم والوں سے ایک مسلم پردہ دار خاتون ملنے جلنے میں ھکچاہٹ محسوس نہ کرے ایک حلال کھانے والا۔سور کھانے اور شراب پینے والے کیساتھ اسی ٹیبل بیٹھکر کراہت محسوس نہ کرے
بظاہر نوجوان نسل کی تربیت اور ان میں برداشت اور رواداری پیدا کرنے کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے نئے اسلام اور نئ روایات کو ملکر پروان چڑھانا خدمت اسلام اور انسانیت کی ترویج قرار دیکر نام نہاد علماء اور۔شیخ الاسلام ایک خطرناک ایجنڈے پر کام کررہے ہیں
قرأنی تعلیمات نبی پاک کی سیرت اور مسلمانوں کے عقائد بلکل واضح ہیں اور حق و سچ اور کفر و۔ باطل میں حد امتیاز واضح ہے اسلام کا منشاء اغیار کی خوشی کیلئے تعلیمات نبویؐ شریف کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا
لیکن اگر اس فتنے کو نہ روکا گیا تو بہت بڑی خرافات پیدا ہونگی اور۔نوجوان نسل کو گناہ کبیرہ ہوتے دیکھتے اور۔اسکا حصہ بنتے ھچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی
یاد رہے اسی برطانوی اور یورپی معاشرے میں ایک فرقہ یابطبقہ ایسا بھی ہے جسکا دنیا کی معیشت سے لیکر فوجی فیصلوں تک بڑا کنٹرول ہے مگر ان سے کسی طور ملنے جلنے والے بخوبی جانتے ہیں وہ لوگ آج اپنے گھروں بھی عبرانی زبان بولتے ہیں عبرانی کتبے لٹکائے یوتے ہیں اور انکے عام لوگ اور۔ راہب کسی انٹیگریشن سے اتفاق نہیں کرتے وہ کہتے ہیں باقی معاملات اپنی جگہ مگر تمھارے لئے تمھارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین مبارک ہو
آج اسلام سے خواہ مخواہ خطرہ وہ طاقتیں محسوس کرتی ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئ تعلق نہیں اور اسی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کا دنیا سے خاتمہ بھی چاہتے ہیں انکے ہتھکنڈے کبھی واضح ہوتے ہیں اور کبھی وہ معاشرتی رسم ورواج کے گھیرے میں لیکر عام لوگوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناکر ایک لابی کو اپنے لئے فعال کرتے ہیں اور یوں ایک میڈیا وار شروع ہوجاتی ہے
یہ لوگ امریکہ اور یورپ میں خواتین کی علیحٰدہ مساجد عبادتگائیں اور انکے پیچھے مردوں کے نماز پڑھنے اور ایسی خرافات و قباحتوں کے اندریں خانہ زبردست حمایتی نہ ہوتے تو انکا اس سازش کیخلاف کوئی ایک بیان تک دیا ہو تو ریکارڈ پر لے آئیں
علاوہ ازیں اس بات میں کسی شک کی گنجائش تک نہیں کہ اسلام انسانیت کے لئے کسی قسم کا کوئی خطرہ ہے ھاں یہ بات ہے کہ اسلام دنیا کے ہر اس “نظام” کے لئے خطرہ ہے جو انسان اور انسانیت کی “نجات” کے منافی اصولوں پر مبنی ہے
جو اصول معیشت واضح طور پر غیر منصفانہ اور غیر مساوی سرمایہ داری نظام ہے وہ اسلام کی روح کے منافی ہیں اور انہی کی وجہ سے معاشرے میں اتنی گہری تفریق پیدا ہوئی یے۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Weboy