شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کا ریکارڈ جمع، پیسہ کہاں سے آیا؟ کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی، سپریم کورٹ

Published on January 31, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 467)      No Comments

PN

اسلام آباد (یواین پی) پاناما کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کے بعد دوسرے بیان حلفی میں بہتری لائی گئی مگر سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا ۔5نومبر کو قطری کا خط آیا اور 12نومبر کو طارق شفیع کا بیان حلفی آیا ۔طارق شفیع کو قطری سرمایہ کاری کا علم تھا تو بیان حلفی میں ذکر کر دیتے ۔اگر نتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا ۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے۔وزیر اعظم کو تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں تھا ۔ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے لیکن 12ملین درہم کیش میں لے لیے۔حسین نواز کے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے ۔ وزیر اعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ اگر حسین نواز کچھ چھپا رہے ہوں تو کیا اس کی سزا وزیرا عظم کو دی جا سکتی ہے؟عدالت 184/3کے مقدمے میں سزا نہیں دے سکتی ،دوسری جانب سے کوئی ثبوت نہیں آیا۔ کرنسی اونٹوں پر لاد کر دینے کی بات بعید از قیاس ہے ۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، نقد رقم بھی لی جاتی ہے۔ قطری خاندان کی رضامندی کے بعد قطر سرمایہ کاری کا موقف سامنے لایا گیا ۔لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے ، عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے۔ الثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں ۔سلمان اکرم راجہ کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل (بدھ) صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی ۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان میں 6نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھے ؟وزیرا عظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں ۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی ؟ مشینری کی خریدوفروخت کا وزیر اعظم نے کہیں ذکر نہیں کیا ۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 7نومبر کے تحریری جواب میں دبئی فیکٹری کے 12ملین درہم کی سرمایہ کاری کا ذکر ہے۔ معاملے میں قطری شاہی خاندان شامل تھا اس لیے 7نومبر کے جواب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ڈانٹا بھی گیا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور ہمیں نظر نہیں آرہے ۔کیا حمد بن جاسم سے پوچھ لیں انھوں نے یہ فلیٹس کب خدیدے ؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے ۔جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے۔حسن اور حسین نواز کب سے وہاں رہنا شروع ہوئے تو وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خاندانی تعلقات کی بدولت دوران تعلیم 1993ءسے فلیٹس میں حسن اور حسین نواز رہتے تھے اور شریف خاندان فلیٹا کا کرایہ ادا کرتا تھا ۔
سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ طارق شفیع کو بیان حلفی سے پہلے تمام تفصیلات معلوم تھیں ، طارق شفیع کو گواہ کے طور پر بلائیں ، طارق شفیع سے سارے سوال پوچھیں جو آپ کے ذہن میں ہیں ۔ جدہ مل دبئی فیکٹری کی مشینری سے تیار کی گئی ۔دبئی سٹیل مل اہلی خاندان نے 2001ءمیں بند کی ۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا 75فیصد حصص کی فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی ؟ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے اور یہ بھی بتایا جائے کہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا ؟وکیل نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں۔ریکارڈ سے ثابت ہے فیکٹری کی فروخت سے 12ملین درہم ملے، کاروبار پر کنٹرول میاںشریف کا تھا ۔ طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے۔وہ صرف 12 ملین درہم کی رقم سرمایہ کاری کیلئے الثانی فیملی کو دینے کے گواہ تھے ۔اگراگر نتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا ۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے 12ملین درہم کی رقم نقد وصول کی تھی یا بینک کے ذریعے ؟ فیکٹری کی فروخت سے 12ملین درہم ملے یہ غیر متنازع حقائق ہیں۔جو دستاویز ات لائی گئی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ۔جسٹس گلزار احمد نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے۔تو وزیرا عظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ شریف فیملی نے فلیٹس 2006ءمیں خریدے۔ لندن فلیٹس کی 1993ءسے 1996ءمیں مجموعی پاکستان مالیت 7کروڑ بنتی ہے ۔
جسٹس اعجا ز الاحسن نے استفسار کیا کہ 1993ءسے 1996ءمیں آف شور کمپنیوں کا مالک کون تھا جس پر وکیل نے جواب دیا کہ شریف فیملی اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی ۔2006ءسے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹ الثانی خاندان کے پاس تھے ۔سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ 75فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والی 21ملین درہم کی رقم قرض کی مد میں ادا کی گئی۔ اپنے بیان حلفی میں طارق شفیع نے اس سے متعلق تفصیل بیان نہیں کی تاہم جو سوالات مجھ سے پوچھے جا رہے ہیں وہ طارق شفیع کو بطور گواہ بلا کر پوچھ لیے جائیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سوالوں کے جوابات میرے پاس نہیں ہیں ۔ 12ملین درہم کی رقم الثانی فیملی کو 6اقساط میں سرمایہ کاری کیلئے دی گئی ، بڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم میری ان دو کتابوں سے زیادہ نہیں ہو گا ۔
سماعت شرو ع ہوتے ہی پراسیکیوٹرجنرل نیب وقاص ڈار نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کا ریکارڈ پیش کیا جس پر 5رکنی بینچ میں شامل جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی جس پر پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ ایسے لاتعداد مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایسے مقدمات بہت ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا لیکن نیب نے اپیل دائر کی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس پہلو کو زیر غور لائیں گے جب نیب کی باری آئے گی ۔ وقاص ڈار نے جواب دیا کہ پراسیکیوٹر نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کی تجویز دی اور چیئرمین نیب نے تجویز سے اتفاق کیا ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ وزیرا عظم کی تقریر میں بھٹو دور میں 6نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy