تحریر آمنہ رشید پیر محل
اسلام اور نسلی وقومی امتياز کےمعاشرے پر اثرات آج کل کے لوگ بھی ماضی کی طرح ذات پات کے چکروں میں جکڑے ہوئے ہیں آخر یہ ذات پات کا دور کب وجود میں آیا کچھ محقیقن کا کہنا ہے کہ انسانوں نے تقریبا 70 نشستيں قبل ذات پات میں بٹ کر آپس میں اختلط روک دیا تھا انھوں نے بتایا کہ انڈیا میں موجود آبادی بنیادی طور پر پانچ قدیم آبادیوں سے وجود میں آئی ہے نسلی و قومی امتياز کے تصورات دنيا کے ہر قوم میں پائے جاتے ہیں – ہر کوئی اپنی قوم رنگ نسل اور اپنے نظریے کودوسروں سے بالاتر سمجهتا ہے وہ یہ سمجهتا ہے کہ برتری صرف اُس کے ہاں پائی جاتی اور باقی سب کمتر ہیں
یہی تفکر اور غرور آگے چل کر لڑائی جھگڑے یہاں تک کہ جنگ تک پہنچ جاتا ہے جب ہم مختلف علاقوں میں جاتے ہیں تو ہر جگہ ہی ہمیں یہ قبائل ذات پات اور نسل کا نظام نظر آتا ہے مگر جس طرح سے اس کا رائج پاک و ہند میں نظر آتا ہے اس طرح یہ ایک معاشرتی بیماری بن گیا ہے یہاں تک کہ ہمارے ہاں شادیاں تک ذات سے باہر نہیں کرتے اگر کوئی کر بھی لے تو اِسے سمجھا جاتا ہے جسے اُس نے کوئی بہت بڑا گناہ کر لیا ہو جبکہ اسلام میں نکاح کے لیے ذات پات کی کوئی قید نہیں ہوتی یہاں پر ایک پہلو پر غورطلب بات ہے کہ کیا کوئی سید اپنی بیٹی کی شادی کیسی غیر سید سے کر سکتا ہے آج تک ایسا دیکھنے میں تو نہیں آیا اور نہ ہی کبھی ایسا سنا ہے کہ کسی سید نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کسی دوسری ذات میں کی ہو اور ایسا ہی ہندوستان میں بهی دیکها جاتا ہے جس طرح ہندوؤں میں ذات پات کا تصور ہے ہندوؤں میں تو اپنی ذات سے چھوٹی ذات والے کے ساتھ تعلقات بنانا تو بہت دور کی بات ہے ان کے ساتھ کھانا کھانا بهی گناہ تصور کیا جاتا ہے ہمیشہ ہی اپنی ذات سے چھوٹی ذات والے کو اپنا غلام سمجهتے ہیں اب ان کی سوچ اور ہماری سوچ میں کیا فرق رہا جاتا ہے جب کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بهی نہیں سوچتے کہ قرآن مجید اور احادیث نے ہمارے لئے کیا حکم دیا ہے
قران میں ارشاد باری تعالی ہے
پس جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں اِن سے نکاح کر لو
تمام انسان حقوق ,رتبے اور اصیلاحیت میں ایک جسے ہیں تمام انسان سوچنے کی صلاحيت رکھتے ہیں سکھنے کی ایک جیسی صلاحيت رکھتے ہیں انسانی امکانات سے فائدہ اٹھانے کا ایک جیسا حق رکھتے ہیں تمام انسان پیداور ,ترقی اور تخليق میں اپنا حصہ ڈالنے کا ایک جیسا حق رکھتے ہیں
جبکہ اسلام تو برتری کا درس دیتا ہے یہ ہم کیسے مسلمان ہیں جوکہ ذات پات کے چکر میں جکڑے ہوئے ہیں اور دوسروں کو ذلیل وخوار کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے .اس بارے میں اگر ہم قرآن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے
اے انسانو ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہيں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے
اگر اپنے دین کی تعليمات سے صحيح طور میں فیض حاصل کرنا چاہیتے تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا اِس وقت ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے کہ اس میں نسلی اور قومی امتیازات کو ختم کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل و انصاف اور فسادات کے اصولوں کے تحت استوار کیا جائے
سرمایہ دارانہ نظام میں طبقات کا تصور خالص معاشی ہے اور افراد اپنی چالاکی سے دولت کما کے اپنا سماجی رتبہ بڑھا سکتے ہیں مگر ذات پات کے پرانے ڈھانچے میں حرکت اور تبدیلی کی گنجائش صفر ہے ذات پات دراصل سماجی تقسيم ہے جو ایک ہی طرح انسانوں کو اونچی اور نچی ذاتوں میں الگ کرتی ہے جہاں کوئی بالاتر ہے تو کوئی بدتر
ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گرو بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے
ہے شکوہ مجھے
آج کے دور سے
جو ذات پات کی
اونچ نچ میں
اور فرقوں میں بٹاہوا ہے
جو انسانيت کو نہیں دیکهتا
بلکہ ذات پات اور نسل و نسب
میں بٹا ہوا ہے