غالب -گورنرجیلانی-شریف فیملی

Published on December 17, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 317)      No Comments

پروفیسر رشید احمد انگوی
شاعر انسانیت ٗ نقاش فطرت ٗ غالب بڑصغیر کا ہی نہیں دنیائے ادب کا چمکتا دمکتا سورج ہے مگر ہمارانااہل لندنی سیاست کار اس کے شعر کا غلط اوربے محل استعمال کررہا ہے اورثبوت کا اس کا یہ ہے کہ ذرا عمررفتہ کو آواز دے کر گورنر جیلانی کا زمانہ یاد کرلے۔ دیکھئے آج سول سروس کے کسی بھی بڑے عہدے دار مثلاً چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری کی ترقی کا کھوج لگائیں تو معلوم ہوگا کہ دنیائے ملازمت (حکومت کے سروس محل)میں داخلے کے لیے اس کے پاس سی ایس ایس کا امتحان میرٹ پر پاس کرنے کا پروانہ موجود ہے اوریوں وہ میرٹ کی بنیاد پر سروس میں آیا بھی تھا اوردرجہ بدرجہ ترقی کرکے یہاں پہنچا۔بالکل ٹھیک۔اب کسی فورسٹار یا فائیو سٹار جنرل کی زندگی کا کھوج لگائیں تو پتہ چلے گا ’’کہ عسکری سروسز پیلس‘‘میں داخلے کے لیے کمیشن حاصل کرکے اکیڈمی سے شاندار کامیابی حاصل کرنے کا پروانہ اُس کے پاس ہے اورپھر میرٹ کی بنیاد پر ترقی کی منزلیں طے کرتا وہ یہاں تک پہنچا اوراس پر اسے بجا طور پر فخر ہے۔ اب اسی معیار اورپیمانے پر ماپتے ہوئے آپ کسی بڑے سیاسی منصب دار سے سوال کریں تو وہ سٹوڈنٹ لائف سے سیاست میں ماریں کھاتے کھاتے بلدیاتی پھر صوبائی سیاست کے تھپیڑے کھاتا اسمبلی میں اورپھر کہیں وزارت تک پہنچا اوراس طرح میرٹ کی بنیاد پر ترقی کرتا کرتا ہر بڑے سے بڑے سیاسی عہدے تک پہنچا مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نااہل قرار پائے موصوف کا یہ قصہ نہیں ہے ۔ ان کے پاس سیاسی میدان میں داخل ہونے کا قطعاًکوئی جائز پروانہ نہیں ہے تو پھر وہ وزیر اعظم بن گئے۔جواب یہ ہے کہ قومی زندگی کی تاریخ آمریت کے دور کا ایک کلی پرزہ جنرل جیلانی نام کا گورنر پنجاب کی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔یہ اس کا جینوئن میرٹ نہ تھا تاہم ڈنڈے کی طاقت سے یہ یہاں آبیٹھا ۔ پھر کیا ہوا ۔ ہوا یہ لاہور کے لوہے کے کاروبار سے وابستہ ایک شخص مستری شریف نامی کااس سے ملناجلنا ہوگیا۔وہ بہت سیانا اورحوصلے والا شخص تھاجو گورنر کے اشارے پر رفاہی مقاصد کے لیے چندہ دے دیتا ۔ گورنرسے اس کی شناسائی بڑھتی گئی اوراس نے موصوف کی خوب مُٹھی چابی شروع کردی۔سینہ گزٹ کی عام خبر تھی کہ گورنر صاحب کا ذاتی بنگلہ بنوایاگیا اورپھر زیرومیٹر مرسڈیز کارکا نذرانہ پیش کیا گیا ٗ وغیرہ۔تو یہ تھیں وہ خدماتِ شریف ٗ جن کی رسید کے طور پر مستری شریف کے بیٹے کو فونڈری سے اٹھا کر پنجاب کے کیبنٹ میں وزیر لگا دیا گیا۔تو یہ تھا وہ کل میرٹ اورصلاحیت وقابلیت کا خزانہ جس سے پاکستان کے ’’سیاسی محل‘‘میں چوردروازے کی پتلی گلی سے داخل کردیا گیا اورپھر تاجر گھرانے کا چشم وچراغ لفافے کی کرامت دکھاتا ٗ کاروباری جوہر آزماتا ٗ ضمیروں کی خریدوفروخت کی منڈیاں سجاتاآگے سے آگے بڑھتا ٗ ووٹ بھی ملتے گئے ٗ مریدانِ سیاست بھی نصیب ہوتے گئے مگر کروڑہا اسلامیانِ برصغیرکے خوابوں کی ریاست کے مقدر بگڑتے گئے ۔ سیاست وریاست کی ابجد سے بھی بے خبر جنرل جیلانی کا خودکاشتہ بُوٹا اب سیاسی لیڈر بھی بن گیا اورکئی ساقے خاجے ماجے فنکاروں کی صورت میں مداح سرا بھی مل گئے۔بہتی گنگا میں ہاتھ دھلتے رہے اورلاہور چھوڑ کر اولادوں کو لندن وعرب میں بٹھا دیا گیا۔کمپنیاں کھلتی گئیں اورمریدانِ باصفاسلسلہ جیلانیہ کے مرشد کے بس گُن ہی گاتے رہے ۔ ادھر دامادی کے رشتے کا سہارا لے کر بھٹو کی کہانی بھی جاری ہوگئی اوربھٹو کی قبر کی مجاوری دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی گئی اورٹھیک اسی زمانے میں صدیوں سے بے گھر نئے وطن کی محبت میں قربان کرنے والے عظیم محسنانِ وطن اورمحبانِ پاکستان کی اولادیں لندن نشین ایک ظالم کے جادو کا شکار ہوگئیں اورتین کرداروں نے اپنے اپنے انداز میں مگر اصلاًواثراًمملکتِ خدادکی ترقی کا سفر جام کرکے اپنے اپنے خانوادے اوردربارآباد اورملک بربادکرنے کے سوا کچھ بھی نہ کیا۔اللہ جزائے خیر دے ان عالمی صحافت کاروں کو جنہوں نے کالے دھن کے خفیہ ٹھکانوں کی نشان دہی کرکے عظیم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو تباہی کی جانب دھکیلنے والوں کی جانب قوم کو متوجہ کیا اورعدالتِ عظمیٰ کے عظیم ترین مصنفین کرام نے قوم پربہت بڑا احسان کیا جس کا ثبوت ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کا قومی نغمہ ہے۔کوئی شک نہیں کہ ملک سے لوٹے ہوئے خزانے سے فرنگی دیش میں محلات بسانے والے آج وہاں داد عیش مناتے ہوئے غالب پر تہمت لگا رہے کہ کہ اُس نے کیا کہا تھا ۔ ظلم تو دیکھئے کہ غالب نے ہمارے جیسے بے نواؤں کے بارے میں یہ کہا تھا :’’زندگی اپنی جو اس طور سے گزری غالب۔ہم بھی کیا یادکریں گے کہ خدا رکھتے تھے‘‘۔تو آج جنرل جیلانی کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے یہ صنم کم وبیش چارعشرے محلات اورمحلاتی سازشوں میں زندگی گزار کر غالب کے اس شعر کے بھی مصداق کہلانے پر اڑے ہوئے ہیں۔نوجوان نسل کو معلوم ہونا چاہئے کہ شریف خاندان کی تمام ترسیاست وسیادت محض جنرل جیلانی کی کارستانی کے سوا کچھ نہیں ۔ کاش کہ کوئی عدالت یا جوڈیشل کمیشن جنرل جیلانی کے دورِ گورنری کے اس تاریخی جرم پر اس کے خلاف فیصلہ سناسکے کہ اُس نے محض ذاتی خدمت وچاپلوسی کے عوض اسلامی ریاست کے سیاسی نظام کو تہس نہس کرنے کے ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کیا اورآج وطنِ عزیز جن دکھوں ٗ پریشانیوں اورمشکلات کا شکار ہے ٗ اُن کے لیے گورنر جیلانی ہی اصل ذمہ دار ہے۔ جنرل ضیاتو ایک شریف آدمی تھا۔اس نے شریف خاندان کو سیاست میں داخل نہیں کیا بلکہ پنجاب کے تیسرے گورنر نے یہ کارنامہ سرانجام دیا اوراسے اس کی سزا ملنی چاہئے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ نواز ٗ زرداری ٗ الطاف ایک ہی کہانی کے تین کردار ہیں۔ تینوں کے لگائے ہوئے زخموں سے آج ریاست زخموں سے چُور ہے۔جاتی امراسے کراچی کی چائناکٹنگ اورسوئس خزانوں سے دبئی پلازوں تک کی کہانی ایک ہی ہے کہ سب ڈاکو اورخون خوار مظلوم ریاست پاکستان پر پڑ ے اوراسے دشمنوں وقرضوں کے بوجھ تلے دباڈالا۔کاش کہ پاکستان کے عوام سیاست اورجمہوریت سے ’قبروں اورعقیدتوں‘کو آؤٹ کرسکیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes