ردائے مادر وطن کو بے توقیر نہ کرو 

Published on August 9, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 358)      No Comments

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر 
ماہ آزادی میں جشن آزادی پورے ملی جوش و جذبے سے منانا زندہ قوموں کی پہچان ہے اور ہر محب وطن پاکستانی کو چاہیئے کے مادر وطن کی سالگرہ شایان شان طریقے سے منائے مگر ماں دھرتی کی سالگرہ پر اس پاک سرزمین کا سر برہنہ کر کے آزادی منانا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا ۔ قارئین کرام آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ماں کو سر برہنہ کرنے والی بات کہاں سے لے آیا ہوں تو جناب ملاحظہ فرمائیں کہ اگر دھرتی ہماری ماں ہے تو قومی پرچم اس ماں کی ردا کا درجہ رکھتا ہے اور یہ پرچم فضا میں بلندی پر لہراتا ہوا ہی اچھا لگتا ہے نا کہ پاؤں میں ،کچرے کے ڈھیر پر اور نالیوں میں اب آپ کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ پرچم کو کچرے کے ڈھیر پر اور پاؤں میں کون ناہنجار اور نا خلف پاکستانی پھینک سکتا ہے تو اپنے ہی اردگرد کاغذ کی جھنڈیوں پر پرنٹ شدہ مادر وطن کی ردا کو آپ گلیوں اور نالیوں میں پاؤں میں پڑا بنظر خود دیکھ سکتے ہیں ۔یقین جانیں بہت دل دکھتا ہے جب دھرتی ماں کی اس ردا کو اپنے پاؤں میں دیکھتا ہوں یہ ماں دھرتی کے ساتھ کونسی محبت کا اظہار ہے ؟ پوری دنیا میں کسی بھی ملک کے پرچم کی بے حرمتی کرنے کی سزا موت ہے اور ایک ہم ہیں کہ بڑی خوشی خوشی اور پر جوش انداز میں ماں کی اس ردا کی تسلسل کے ساتھ بے حرمتی کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ میں گذشتہ کئی سالوں سے اہلیان پاکستان کی توجہ اس جانب دلوانے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں مگر میری اس صدا کو سننا ماں دھرتی کے کسی فرزند یا دختر نے مناسب نہ جانا اور تواتر کے ساتھ جھنڈیوں کی شکل میں چھپے ہوئے قومی پرچم کی بے توقیری ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ سبز ہلالی پرچم جو دراصل ماں دھرتی کے سر کی چادر ہے اور اس کا فضا میں لہرانا ناصرف پاکستان کی بقاء ہے بلکہ ہر پاکستانی کی بھی بقاء کی علامت ہے ۔ارباب دانش آپ سب لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ اگر ملک میں کو ئی بہت بڑا سانحہ ہو جائے تو اس وقت پرچم کو سرنگوں کیا جاتا ہے مگر رہتا وہ فضا ہی میں ہے بس تھوڑا سا جھکا دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک غمزدہ ماں اپنے سر کو جھکا کر اپنے دامن میں آنسو سمیٹ رہی ہو ایسے اندوہناک موقعہ پر بھی ماں کی اس چادر کو زمین پر نہیں بچھاتے پھر اسی ردا کو کاغذ کی جھنڈیوں کی صورت بکھرنے کی اجازت کیونکر اور کس نے دی ؟بچے تو بچے ہوتے ہیں وہ تو ان جھنڈیوں کو ماں دھرتی کی سالگرہ کی خوشی منانے کے لئے خریدیں گے ہی مگر ان معصوم ذہنوں میں اس کی حرمت کون ڈالے گا ؟کون بتائے گا کہ اس پرچم کو سربلند رکھنے کے لئے کس قدر قربانیاں دی گئی ہیں ؟یہ پرچم صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ ہماری پاک دھرتی ماں کے سر کی ردا ہے اور یہ پاکیزہ ردا پاؤں کے نیچے روندنے کے لئے ہرگز نہیں ۔ سب سے پہلے تو اس پرچم کی کاغذ پر پرنٹنگ پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے تاکہ مادر وطن کی ردا کی بے توقیری کا سلسلہ رک سکے ،اور دولت کی ہوس میں بد مست لوگوں کو اس بات کا پابند کریں کہ کپڑے کے پرچم تو بنا کر آپ مارکیٹ میں لا سکتے ہیں مگر کاغذ پر اسے پرنٹ کرکے نوٹ چھاپنے سے باز آجاؤ ورنہ پرچم کی بے حرمتی کی سزا موت ہے ،مگر وائے افسوس آج تک پرچم کی توہین کرنے والوں کوسزا دینا تو درکنار انکی سرزنش کرنے کی بھی ہمت کسی حکومت نے نہیں کی سندھودیش کا نعرہ لگانے والا جی ایم سید جس نے سر عام قومی پرچم جلائے اسے ہمارے ہاں سیاسی لیڈر گنا جاتا ،محمود خان اچکزئی جیسے اچکے کو جس نے نا صرف بارہا قومی پرچم کی تذلیل کی بلکہ اسنے تو ہماری ماں دھرتی کی بھی کئی بار توہین کی جس کے ساتھ بغلگیر ہونا ہمارے نام نہاد لیڈران قوم باعث عزت سمجھتے ہیں ،الطاف حسین اور اس کے حواریوں نے بھی کئی بار قومی پرچم جلانے کی ناپاک جسارت کی بلکہ پاکستان کے امن کو تباہی کے دھانے تک پہنچایا انکو ہم ہر بار حکومتی ایوانوں میں شریک اقتدار کرتے ہیں بھلا ایسے لوگ قومی پرچم کی تحقیر کرنے والوں کو کیا سزا دیں گے ۔دھرتی ماں منتظر ہے ایسی اولاد کی جو اسکی بقاء اور اسکے سر کی ردا کی محافظت کا فریضہ انجام دے سکے ،اس پرچم کو پاؤں میں گرنے اور کچرے پر پڑنے سے روک سکے کوئی تو ماں دھرتی کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے اسے سر برہنہ ہونے سے بچائے گا ۔اس مادر وطن اور اس کی ردا (پرچم ) کے تقدس سے نئی نسل کو روشناس کروانے کے لئے سب سے پہلا فریضہ ہمارے اساتذہ کرام کا ہے کہ وہ نونہالان قوم کے اذہان میں فیڈ کر دیں کہ مادر وطن ،بانیان وطن ، اور پرچم وطن کا تقدس و حرمت کیا ہے ،ہمارا جب کوئی جوان مادر وطن پر قربان ہوتا ہے تو اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر کیوں دھرتی کی آغوش میں رکھا جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو اپنی آغوش میں سلاتی ہے تو اس پر اپنی چادر کا سایہ بھی کرتی ہے تاکہ اسکے بچے کو زمانے کی دھوپ کی حدت سے محفوظ رکھ سکے بعینہ شہید فرزند مادر وطن کو جب آغوش ماد روطن میں رکھا جاتا ہے تو اسی ماں کی ردا میں لپیٹ دیا جاتا ہے اور ماں کی یہ مقدس ردا پاؤں میں ،کچرے پر اور نالیوں میں رولنے کے لئے نہیں ہے جب طلباء کے معصوم ذہنوں میں ہم یہ بات فیڈ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو پھر کسی کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ ردائے مادر وطن کی بے توقیری کر سکے ،کوئی یہ جسارت نہیں کر سکے گا کہ قائد اعظم کی تصویر کو جعلی نوٹوں اور ماچس کی ڈبیا پر چھاپ کر تحقیر کر سکے ۔یہ ذمہ داری اساتذہ کی ہے کہ وہ طلباء و طالبات کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ خود کو چلتا پھرتا پاکستان سمجھیں ہر پاکستانی کو یہ باور کروانا پڑے گا کہ وہ ہی تو پاکستان ہے جب وہ خود کو پاکستان سمجھے گا تو پھر اپنے وجود پر خراش تک گوارا نہیں کرے گا ۔فی زمانہ ہمیں نئی نسل میں قومیت پرستی کی نہیں بلکہ وطن پرستی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری ہے ہر اس استاد کی ،دانشور کی،ادیب کی ،شاعر کی،سیاستدان کی،والدین کی،جو خود کو محب وطن پاکستانی کہتے ہیں کہ نسل نو کی آبیاری ایسے کریں کہ وہ وطن پرستی میں بے مثال ہو جس کا جذبہء حب الوطنی لازوال ہو کیونکہ پاکستان کی باگ ڈور کل جس نسل کے ہاتھوں میں ہو وہ سراپا پاکستانیت ہو جس کی نظر اپنی تجوری کی حفاظت پر نہ ہو جس کے دماغ میں غیر ملکی شہریت کا بھوت بسیرا نہ کئے ہوئے ہو ،بلکہ وہ مکمل پاکستانی ہو جس کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہو اور وہ بھی نہیں جو پورے پاکستان کو اپنا وطن سمجھتا ہو بلکہ وہ پاکستانی ہو جس کے ذہن و دل میں وطن کچھ اس طرح ہوبقول شاعر 
دشمن کو میں اس خاک کا ذرہ بھی نہ دوں گا 
میرے لئے اس خاک کا ذرہ بھی وطن ہے 
اس طرح کے پاکستانی اگر ہم بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ردائے مادر وطن کی بے توقیری کا تصور بھی کوئی کبھی نہیں کر سکے گا ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog