عمران خان اور متحدہ اپوزیشن

Published on August 10, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 210)      No Comments

تحریر ۔۔۔ چوہدری ناصر گجر
سورۃ یونس کی آیت نمبر پچاسی کا دعائیہ مفہوم ہے کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کیلئے ہمیں فتنہ نہ بنا۔ حضرت موسیٰ ؑ کا ساتھ دینے پر آمادہ نوجوانوں کی یہ دعا کہ : ہمیں ظالم لوگوں کیلئے فتنہ نہ بنا بڑے وسیع پیمانے پر حاوی ہے ۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیام حق کیلئے اٹھتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل کے اصلی علم بردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے ان داعیان حق کو کچل دینا چاہتے ہیں ، دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا بھی ایک اچھا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلے میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب ، لا حاصل یا حماقت سمجھتا ہے ۔ اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو الٹا برسر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اس خلش کو مٹائے جو ان کی دعوتِ اقامتِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے ۔تیسری طرف عوام الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر کار اسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے جس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔ اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی ، ہر مصیبت ، ہر غلطی ، ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کیلئے مختلف صورتوں میں فتنہ بن جاتی ہے ۔ وہ کچل ڈالیں جائیں یا شکست کھا جائیں ۔پھر پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا ، نہ کہ ان بیوقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہو گئے ۔دوسرا گروہ کہتا ہے ، دیکھ لیا ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی قوتوں سے ٹکرانے کا انجام چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہو گا اور آ خر کار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلف ہی کب کیا تھا ، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو ان کے عقائد و اعمال سے پورے ہو رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق وہی جو غالب رہا ۔اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں ، یا مصائب و مشکلات کا سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں ، یا ان سے بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے ، تو بہت سے لوگوں کیلئے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس کی دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہائے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا ۔ مذکورہ بالا آیت کا مفہوم ان سب باتوں کے بعد ہم کچھ یوں بھی کر سکتے ہیں کہ ہمیں غلطیوں سے ، خامیوں سے ، کمزوریوں سے بچا اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کر دے تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کیلئے سبب خیر بنے نہ کہ ظالموں کیلئے وسیلۂ شر۔پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے بعد قوم بھی انہیں تین طبقوں میں تقسیم ہو چکی ہے جن کی مثال اوپر بیان کر چکا ہوں ۔ میں عمران خان یا کسی بھی کامیاب امیدوار کو حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ تشبیح تو نہیں دے رہا ہاں البتہ اس قوم اور اس قوم میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف حالیہ انتخابات میں بھاری مینڈیٹ سے کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانے جا رہی ہے ۔ ان انتخابات میں عمران خان کی جماعت کو زیادہ اکثریت نہ مل سکنے کی وجہ سے انہیں آزاد امیدوار وں اور ایسی جماعتوں کا سہارا بھی لینا پڑا ہے جنہیں ماضی میں عمران خان کسی صورت قبول نہیں کرتے تھے اور ان کے نام رکھتے رہے ہیں ، اور وہ بھی ان کی مخالفت میں پیچھے نہیں رہے ۔ یہ وہ طبقہ ثابت ہوا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ بھی کر رہا ہے اور باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلے میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب ، لاحاصل یا حماقت سمجھتا ہے ۔ انہوں نے جی توڑ کوششوں سے لوگوں کے منہ سے بھی کہلوا لیا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور اپنے دل کی خلش بھی مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ، میرا اشارہ ایم کیو ایم اور دیگر نمائبدوں کی طرف ہے جو ابھی تک دہشتگرد ، اشتہاری ، لٹیرے اور ملک دشمن سمجھے جاتے رہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ الحاق کرنے کے بعد وہ پاک صاف لگ رہے ہیں ۔ حق اور باطل سمند رکے دو کنارے ہیں جو ایک دوسرے کو نہ تو کبھی دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی مل سکتے ہیں ، اگر عمران خان حق پر ہیں اور وہ ہمیشہ ملک و قوم کیلئے اپنی تمام تر توانائی خرچ کرنے کیلئے پر عزم ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر وہ اپنا دورحکومت پورا کر پائیں گے ۔ دوسری جانب ایک اپوزیشن جماعت جس کو میں نام دیتا ہوں مولانا مسلم لیگ بھٹو کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے جنہوں نے مضبوط اپوزیشن جماعت کے طور پر ایوانوں میں اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کیا ہے ۔ ساتھ ہی احتساب کا جن اب دیو بن چکا ہے اور اس کا سفر دیگر بڑے سیاسی راہ نماؤں کی جانب شروع ہو چکا ہے ۔ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کو بھی نوٹس جا چکا ہے جبکہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے مقدمے کی سماعت کے بعد ان کے انتیس جعلی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتا ل اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا حکم جاری ہو چکا ہے ۔ پندرہ لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین کی نیب تحقیات کا حکم نامہ بھی جاری ہو چکا ہے ۔اس سارے سنیریوں میں میرا عوام کو مشورہ یہ کہ بے شک عمران خان کے ساتھ چند ایسے لوگ کھڑے ہیں جن پر ماضی میں الزامات رہے ہیں اور ہو سکتا ہے آئندہ ثابت بھی ہو جائیں لیکن عمران خان ذاتی طور پر چور نہیں ہیں لیکن میں یہ بڑے وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ مولانا مسلم لیگ بھٹو والے سب کے سب چور اور لٹیرے ہیں ۔اور عمران خان کا ساتھ دینے والے نوجوانوں اور عوام الناس سے گزارش کروں گا کہ وہ حق تب تک حق نہیں ہو سکتا جب تک اس کی مخالفت نہ ہو ، آج اگر عمران خان کی مخالفت اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے تو اس کا جواب شر سے نہیں دیجئے بلکہ آپ بھی وہ دعا اللہ سے مانگیں جو حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ مخلص نوجوان کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہمیں ظالموں کیلئے فتنہ نہ بنا ۔

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes