پانی کا مسئلہ 

Published on October 9, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 404)      No Comments

تحریر: میرزمان 
آزادی کے بعد پاکستان کو جو مسائل ورثہ میں ملے ان میں نہری پانی کا مسئلہ بہت اہم تھا،جغرافیائی لحاظ سے پہلے پاکستان کا محل وقوع ایسا تھا کہ اس کے اکثر دریاؤں مثلاً ستلج،راوی،چناب اور سندھ کے تابع کشمیر کے بلنو بالا پہاڑوں میں واقع تھے،یہ تمام دریا ریاست جموں کشمیر اور بھارتی علاقہ سے ہوکر پاکستان میں داخل ہوتے تھے،ستمبر1947میں کشمیر پر بھارتی قبضہ ہو جانے سے ان دریاؤں پر بھارت کو کنٹرول ھاصل ہو گیا،تقسیم ہند کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کر دیے ،ان میں مہاجرین کی آباد کاری،اثاثوں کی تقسیم،ریاستوں کے الحاق اور نہری پانی کے مسائل نمایاں تھے،بھارتی حکومت نے کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد یکم اپریل1948کو مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب میں داخل ہونے والا نہری پانی بند کر دیا،بھارت کی اس گھناؤنی حرکت نے پاک بھارت نہری پانی کے تنازعہ کو جنم دیا ،پاکستانی حکومت نے اس اقدام کا سختی سے نوٹس لیا ،کیونکہ نہری پانی پاکستان کیلئے زندگی اور موت کی اہمیت کا ھامل تھا،سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں کروڑوں ایکڑ اراضی سیراب کرتے ہیں،پاکستان کیلئے نہری پانی کی اہمیت کا اندازہ ٹینسی ویلی اتھارٹی کے سابقہ صدر ڈیوڈ سینتھل کے مندرجہ ذیل بیان سے لگایا جا سکتا ہے جوکہ انہوں نے1951میں پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد دیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ آبپاشی کے پانی کے شہر مغربی پاکستان ایک صحرا بن جائیگا ،دو کروڑ ایکڑ زمین ایک ہفتے کے اندر خشک ہو جائے گی،الکھوں لوگ خطرہ کا شکار ہو جائیں گے،کوئی بھی فوج بموں اور گولہ بارود کی مدد سے سرزمین پاکستان کو اس درجہ تک تباہ و برباد نہیں کر سکتی جتنا کہ بھارت پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کر کے کر سکتا ہے،جو کہ پاکستان کے لوگوں اور زمینوں کی زندگی کا واحد اور واحد ذریعہ ہے،ڈیوڈ نے عالمی بنک کے تعاون سے پانی کا مسئلہ کے حل کا ایک منصوبہ تیار کیا،مگر بھارت کے مکروہعزائم میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی،اس نے نومبر1952میں گندم کی کاشت کے موقع پر نہری پانی بند کر دیا ،پاکستان کو اس کے حصہ کا صرف40فیصد اور فروری1953میں اس کے حصہ کا صرف8فیصد نہری پانی مہیا کیا گیا،اس طرح نہری پانی کا جھگڑا بدستور جاری رہا،کچھ عرصہ یہ جھگڑا بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا،1954میں عالمی بنک نے درج ذیل تجاویز پیش کیں،(1) تین مشرقی دریاؤں ستلج،بیاس اور راوی کا پانی بھارت کے استعمال میں رہے جبکہ چناب،جہلم اور سندھ کا پانی پاکستان استعمال کرے گا۔(2) ایک عبوری مدت تک بھارت پاکستان کو پانی کی سپلائی جاری رکھے تاکہ اس دوران پاکستان اپنے لیے متبادل انتظام کر سکے۔(3) پاکستان پر متبادل انتظامات کرنے کیلئے مالی بوجھ پر بھارت اپنا حصہ ادا کرے ۔بھارت نے مذکورہ تجاویز کو جزوی طور پر قبول کیا تاہم عالمی بنک کے توسط سے بھارت اور پاکستان میں نہری پانی کے تنازعہ پر مذاکرات جاری رہے،بالآخر عالمی بنک کے صدر مسٹر یوجین بیک کی کاوش سے ستمبر1960میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کراچی میں ایک معاہدہ طے پایا گیا ،جس پر پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم نے دستخط کیے،یہ معاہدہ سندھ طاس معاہدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،معاہدہ کی شرائط درج ذیل تھیں،نمبر1:10سال کی عبوری مدت ہو گی جس میں بھارت پاکستان کو پانی سپلائی کرتا رہے گا،پاکستان کی درخواست پر اس مدت میں توسیع کی جاسکے گی۔۔نمبر2: 13سال بعد بھارت تین مشرقی دریاؤں یعنی،ستلج،بیاس اور راوی کا کنٹرول سنبھالے گا،جبکہ تین مغربی دریاؤں چناب،سندھ اور جہلم کا پانی پاکستان کی ملکیت ہوگا۔نمبر3عبوری مدت کے اندر پاکستان ایسے متبادل انتظام کرے گا جن کی مدد سے مغربی دریاؤں کا پانی ان علاقوں تک پہنچایا جائیگا جو ابھی تک مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوتے ہیں۔نمبر4عبوری مدت میں پاکستان 2عدد ڈیم اور پانچ بیراج بنائے گا۔نمبر5ڈیموں اور بیراجوں کیلئے ایک سندھ طاس ترقیاتی فنڈ قائم کیا جائیگا۔نمبر6بھارت سندھ طاس ترقیاتی فنڈ کیلئے 174ملین ڈالر فراہم کرے گا۔نمبر7پاکستان میں مذکورہ بالا تعمیرات کیلئے بھارت62لاکھ پونڈ سٹرلنگ ادا کرے گا،یہ رقم دس مساوی اقساط میں ادا کی جائینگی ایک ارب اور 7کروڑ کے مجموعی اخراجات میں سے 87کروڑ ڈالر پاکستان میں اور30کروڑ ڈالر بھارت میں تعمیرات پر خرچ کیے جائیں گے۔
بھارت پاکستان کا بدترین دشمن ہے،بھارت پاکستان کے مفادات کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ،سندھ طاس معاہدے کے باوجود بھارت نے کئی مرتبہ پاکستان کے پانی کو روکنے کی کوشش کی،حالانکہ قانون بین الاقوام کے تحت جو دریا دو یا اس سے زیادہ ممالک میں بہتا ہو وہ بین الاقوامی دریا کہلائے گا،کوئی بھی بین الالقوامی دریا کا رُخ موڑ یا پانی کا ذخیرہ نہیں کر سکتا،جب تک دوسرے ملک کی اس میں مرضی یا رضامندی شامل نہ ہوگی،1976میں بھارت نے دریائے جہلم کا پانی روکنے کیلئے ڈیم کی تعمیر شروع کی،پھر1988میں بیراج کی تعمیر کی،بگلیہار ڈیم کی تعمیر جنرل مشرف کے دور میں ہوئی،سندھ طاس معاہدہ کی رُو سے بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں پر ڈیم تعمیر نہیں کر سکتا مگر بھارت نے منگلا ڈیم سے بڑا بگلیہار ڈیم تعمیر کر کے آبی جارحیت پر اتر آیا ہے ہے،اس بحث کا دامن دراز ہے ،ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں پوری قوم کو پانی جیسے نازک مسئلہ سے نمٹنے کیلئے چیف جسٹس صاحب کے ڈیم تعمیر پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگااور مادر وطن کیلئے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بقاء کیلئے ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے،یاد رکھنا ضروری ہے کہ پانی اور ہوا حیات ہے اور اسی سے جاندار انسان و چرند پرند اور ہر ذی روح کی زندگی ہے،اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی آواز پر لبیک کہنے کی ضرورت ہے،ان کے ساتھ مکمل تعاون کر کے پاکستان کی بقاء کی علامت ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے اور ہر پاکستانی کو اس کیلئے اپنا بنیادی واہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题