کشیدہ معاشی و سیاسی حالات Article by Dr.B.A.Khurram

Published on November 7, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 353)      No Comments

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
کیا عجیب اتفاق ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جب اپوزیشن میں تھے تو اس وقت کی حکومت کے خلاف دھرنے دے رہے تھے دھرنوں کے دوران چین کے صدر نے پاکستان کے دورے پہ تشریف لانا تھی تب ملک عزیز کو بند کرنے کے عملی اقدامات کئے جارہے تھے اب وزیر اعظم پاکستان اس وقت چین کے دورے پہ روانہ ہوئے جب تحریک لبیک یا رسول اللہ نے احتجاجی دھرنہ دے رکھا تھا یہ دھرنہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے آسیہ مسیح کی رہائی کے حکم کے بعد دیا گیا وقت کی ستم ظریفی دیکھیں جب چینی حکام ہمارے وطن آئیں تب بھی ملک جام اور جب ہمارے حکمران چین جائیں تب بھی وطن عزیز کے ہر شہر کا رابطہ دوسرے شہر سے منقطع تھا پچھلے ہفتے ملک میں ایک بڑابحران آیا جس کے نتیجے میں جانیں ضائع ہوئیں ، مالی نقصان ہوا اور سڑکیں بھی بند ہوئیں عوام الگ سے پریشان ہوئے توہین رسالت کے جرم میں ماتحت عدالتوں سے سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو خاتون کی رہائی کے احکامات جاری کئے جس کے بعد تحریک لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کیا گیااحتجاج کے دوران کئی شہریوں میں مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگادی تھی۔
وزیراعظم نے حالیہ دھرنے کے دوران اپنی تقریر میں وہ باتیں کیں جن کا لوگوں کو علم نہیں تھا،اپنی تقریر میں فوج اور ججز کے حوالے سے قوم کو آگاہ کیا اور کہا کہ ان شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور پھر کچھ دنوں بعدجب ملک کے حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو حکومت وقت نے یوٹرن لیا اور مظاہرین سے پانچ نکاتی معاہدہ کرلیا جب کوئی حکومت کسی سے مذاکرات کرتی ہے تو یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ حکومت رٹ کو برقرار نہیں رکھ سکی ،مظاہرین اور حکومتی معاہدے میں طے پایا کہ سپریم کورٹ کے ایک حکم پہ توہین رسالت کیس میں سزا پانے والی آسیہ مسیح کو بری کرنے کے بعد نظر ثانی اپیل کی پیروی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کو رخنہ ڈالا جائے گا جومظاہرین گرفتار ہوئے انہیں رہا کر دیا جائے گا اس معاہدے کے بعد مظاہرین نے اپنا احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا اور یوں ملک کا پہیہ پھر سے رواں دواں ہو گیا ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ حکومتی وزراء کی جانب سے پھر سے سلگتے مسلہ کو ہوا دی جانے لگی وفاقی وزیراطلاعات کی جانب سے ایسی باتیں کی گئیں جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ حالات پھر سے کشیدگی کی جانب بڑھیں گے سپریم کورٹ کے مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے متعلق فیصلے کے بعد تحریک لبیک کے ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں املاک کو نقصان پہنچانے والے سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے جب کہ 1800 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے وزرات داخلہ کے مطابق شرپسندوں کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی 700 معلوم اور نامعلوم افراد کو مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے اور اب تک 75 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے
واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے عوام کے جان و مال کو نقصان پہنچانے اور قانون کا مذاق بنانے والوں کو نشان عبرت بنانے کا عندیہ دیا ہے محکمہ داخلہ پنجاب نے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور ریجنل پولیس آفیسرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جو بھی شکایات موصول ہوں وہ محکمہ داخلہ پنجاب کوبھجوائیں، جن لوگوں کے پاس شرپسند عناصر کی ویڈیوز موجود ہیں وہ کال یا واٹس ایپ کریں۔شہری محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری نمبر 03231418945 پر فوٹیجز واٹس ایپ کریں حکومت وقت کو جہاں معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا سامنا ہے وہیں حکومت کے ناعاقبت اندیش وزراء نے سیاسی ماحول کو نہایت کشیدہ اور گھمبیر بنا دیا ہے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شازیہ مری کی تقریر کے دوران پیپلز پارٹی اور حکومتی ارکان کے مابین شدید تلخ کلامی سے ایوان مچھلی بازار بن گیا،پیپلز پارٹی کے رکن رفیع اللہ اور تحریک انصاف کے عبدالمجید نیازی کے درمیان ہاتھا پائی ہو تے ہوئے رہ گئی ، رفیع اللہ شدید غصے میں آگئے اور پی ٹی آئی رہنما سے لڑنے کے لیے دوڑے جبکہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان رفیع اللہ کو پکڑتے رہے،دونوں ارکان نے ایک دوسرے پر شدید جملے کسے ، حکومتی اور اپوزیشن کے بینچوں میں سخت جملوں کے تبادلے اور شور شرابے سے ایوان مچھلی بازار بنا رہا بعد ازاں صورتحال قابو میں نہ آنے پر سپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا، حکومت وقت کو اپوزیشن نے ملک کے بگڑتے معاشی و سیاسی حالات سے نمٹنے کے لئے مل بیٹھ کر چلنے کی پیش کی، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مل جل کر کشیدہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے بات چیت بھی ہوئی اس کے باوجود گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں جو منظر نامہ عوام نے دیکھا وہ کسی صورت بھی قابل فخر نہیں بلکہ باعث شرم ہے اپوزیشن کا کام حکومت وقت پہ تنقید کرنا ہوتا ہے جبکہ حکومت کو حالات کا ادراک کرتے ہوئے صبر وتحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے نہ کہ اپوزیشن کے ساتھ ہاتھا پائی کی جائے حکومت کے ابتدائی مہینوں میں جو محاذآرائی دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے حکومت کی نیک نامی کی بجائے بدنامی کا باعث بن رہی ہے کشیدہ معاشی و سیاسی حالات کی موجودگی میں حکومت کو الجھنے کی بجائے معاملات کو سلجھانے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Weboy